معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1940
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلاَّ بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ وَالَّذِي هُوَ الْيَوْمَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لأَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ. (رواه الترمذى)
دولت تعیش اور حب دنیا کا فتنہ
محمد بن کعب قرضی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک ایسے صاحب نے مجھ سے بیان کیا جنہوں نے حضرت علی بن ابی طالب ؓٗ سے خود (یہ واقعہ) سنا تھا کہ ہم لوگ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر (ؓٗ) اس حالت اور ہیئت میں سامنے آ گئے کہ ان کے جسم پر بس ایک (پھٹی پرانی) چادر تھی جس میں کھال کے ٹکڑوں کے پیوند لگے ہوئے تھے جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو (اس حالت اور ہیئت میں) دیکھا تو آپ کو رونا آ گیا ان کا وہ وقت یاد کرکے جب وہ (اسلام لانے سے پہلے مکہ میں) عیش و تنعم کی زندگی گزارتے تھے اور ان کی (فقر و فاقہ کی) موجودہ حالت کا خیال کرکے ..... اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے (ہم لوگوں سے مخاطب ہو کر) فرمایا کہ (بتلاؤ) اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی اور کیا حال ہوگا جب (دولت اور سامان تعیش کی ایسی فراوانی ہوگی کہ) تم میں کے لوگ صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلیں گے اور شام کو دوسرا جوڑا پہن کر، اور (کھانے کے لئے) ان کے آگے ایک پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اٹھایا جائے گا اور تم اپنے مکانوں کو اس طرح لباس پہناؤ گے جس طرح کعبۃ اللہ پر غلاف ڈالا جاتا ہے (آپ کے اس سوال کے جواب میں حاضرین مجلس میں سے کچھ) لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت ہمارا حال اس وقت آج کے مقابلے میں بہت اچھا ہوگا ہمیں اللہ کی عبادت کے لیے پوری فراغت اور فرصت حاصل ہوگی (معاش وغیرہ کے لئے) محنت و مشقت اٹھانی نہیں پڑے گی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں! تم آج (فقر و فاقہ کے اس دور میں عیش و تنعم والے) اس دن کے مقابلہ میں بہت اچھے ہو۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کے راوی محمد بن کعب قرضی تابعی ہیں جو علم قرآن اور صلاح و تقوی کے لحاظ سے اپنے طبقہ میں ممتاز تھے انہوں نے اس راوی کا نام ذکر نہیں کیا جنہوں نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے حوالہ سے یہ واقعہ ان کو سنایا تھا لیکن ان کا اس طرح روایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ راوی انکے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہے۔ مصعب بن عمیرؓ کی صحابہ کرامؓ میں ایک خاص شان اور تاریخ تھی وہ بڑے ناز پروردہ ایک رئیس زادے تھے ان کا گھرانہ مکہ کا بڑا دولت مند گھرانہ تھا اور یہ اپنے گھر کے بڑے لاڈلے چہیتے تھے اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی زندگی امیرانہ اور عیش و تنعم کی زندگی تھی پھر اسلام لانے کے بعد زندگی کا رخ بالکل بدل گیا اور وہ حال ہوگیا جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ایک پھٹی پرانی چادر ہی جسم پر تھی جس میں جابجا چمڑے کے ٹکڑوں کے بھی پیوند تھے ان کو اس حالت اور ہیئت میں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں کے سامنے ان کی عیش و تنعم والی امیرانہ زندگی کا نقشہ آ گیا اور آپ کو رونا آگیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ صحابہ کرامؓ کو ایک اہم حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے ان سے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہارے پاس یعنی میری امت کے پاس عیش و تنعم کے سامان کی فراوانی ہو گی ایک آدمی صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلے جا اور شام کو دوسرا جوڑا اسی طرح دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے ہوا کریں گے بتلاؤ تمہارا کیا خیال ہے وہ وقت تمہارے لیے کیسا ہوگا؟ کچھ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ وقت اور وہ دن تو بہت ہی اچھا ہوگا ہمیں فراغت اور فرصت ہی فرصت ہو گی بس اللہ کی عبادت کیا کریں گے آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا یہ خیال صحیح نہیں ہے آج تم جس حال میں ہو یہ آئندہ آنے والے عیش و تنعم کے حال سے بہت بہتر ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ حقیقت بیان فرمائی تھی اس وقت تو "ایمان بالغیب" ہی کی طور پر اس پر یقین کیا جاسکتا تھا لیکن پہلے بنو امیہ اور بنو عباس کے دور حکومت میں اور بعد کی اکثر دوسری مسلم حکومتیں کے دور میں بھی اور آج کی ان مسلم حکومتوں میں جن کو اللہ تعالی نے عیش و تنعم کا سامان انتہائی فراوانی سے دے رکھا ہے یہ حقیقت آنکھوں سے دیکھ لی گئی ہے اور دیکھی جا رہی ہے بلاشبہ یہ اور اس طرح کی تمام پیشنگوئیاں رسول اللہ ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی نبوت کے دلائل میں سے ہیں۔
Top