معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1942
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلاَءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا. (رواه الترمذى)
دولت تعیش اور حب دنیا کا فتنہ
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب (حالت یہ ہو کہ) تمہارے حکمران تم میں کے نیک لوگ ہیں اور تم میں کے دولت مندوں میں سماحت و سخاوت کی صفت اور تمہارے معاملات باہم مشورہ سے طے ہوتے ہیں تو (ایسی حالت میں) زمین کی پشت تمارے لیے اس کے بطن (پیٹ) سے بہتر ہے اور (اس کے برعکس) جب حالت یہ ہو کہ تمہارے حکمران تم میں کے بدترین لوگ ھوں اور تمہارے دولت مندوں میں (سماحت کے بجائے) بخل اور دولت پرستی آجائے اور تمہارے معاملات (بجائے اہل الرائے کی مشاورت کے) تمہاری عورتوں کی رایوں سے چلے تو (ایسی حالت میں) زمین کا بطن (پیٹ) تمہارے لئے اس کی پشت سے بہتر ہے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ امت کا حال ایک زمانے تک یہ رہے گا کہ ان کے حکمران اور عمال حکومت نیک اور اچھے لوگ ہونگے اور ان میں کے دولت مندوں میں سماحت کی صفت ہوگی یعنی وہ اللہ تعالی کی عطا فرمائی ہوئی دولت کو اخلاص و خوش دلی سے اچھے مصارف میں صرف کریں گے ان کے معاملات خاص کر حکومتی اور اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے ہوا کریں گے (یہ تین حالتیں اس بات کی علامت ہیں کہ امت کا اجتماعی حال اور مزاج اللہ و رسول کے احکام اور مرضیات کے مطابق ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ امت کے لئے یہ زمانہ خیریت کا ہوگا اور اس دور کے یہ اہل ایمان اس کے مستحق ہونگے کہ اس دنیا میں اور اس زمین کی پشت پر رہیں خیر امت ہونے کی حیثیت سے دنیا کی ہدایت و قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں اسی کے ساتھ آپ پر منکشف کیا گیا تھا کہ پھر ایک زمانہ آئے گا کہ امت کا حال اس کے بالکل برعکس ہو جائے گا۔ حکومت کی باگ اور سارا حکومتی نظام بدترین لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے گا اور مسلمانوں میں کے دولت مند لوگ سماحت و سخاوت کے بجائے دولت کے پجاری ہوجائیں گے اور اہم معاملات بجائے اسکے کے اہل الرائے کے باہمی مشورے سے طے کئے جائیں گھروالوں کی خواہشات اور ان کی رائے کے مطابق طے کیے جانے لگے رسول اللہ ﷺ نے شروفساد کے اس زمانے کے بارے میں فرمایا کہ اس وقت یہ بگڑی ہوئی امت زمین کے اوپر چلنے اور رہنے بسنے سے زیادہ اس کے مستحق ہو گی کہ ختم ہو کر زمین کے پیٹ میں چلی جائے اور اس میں دفن ہوئے۔ جیسا کہ بار بار عرض کیا گیا یہ حدیث شریف بھی صرف ایک پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ اس میں امت کو بڑی سخت آگاہی ہے کہ میری امت کو اللہ تعالی کی اس زمین پر رہنے اور چلنے پھرنے کا حق اس وقت تک ہے جب تک اس میں "خیر امت" والی ایمانی صفت رہیں لیکن جب وہ ان صفات سے محروم ہوجائے اور اسکی زندگی میں شر و فساد آ جائے تو وہ اس کی مستحق ہوگی کی ختم ہو کر زمین میں دفن ہو جائے۔
Top