معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1943
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا. (رواه مسلم)
امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جلدی کر لو اعمال صالحہ ان فتنوں کے آنے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح پے بہ پے آئینگے (حال یہ ہو گا کہ) صبح کرےگا آدمی اس حال میں کہ اس میں ایمان ہوگا اور شام کرے گا اس حال میں کہ وہ ایمان سے محروم ہو چکا ہوگا اور شام کو وہ میں مومن ہوگا اور اگلی صبح وہ مومن نہ رہے گا کافر ہوجائے گا دنیا کی متاع قلیل کے بدلے وہ اپنا دین و ایمان بیچ ڈالے گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ آپ کی امت پر ایسے حالات بھی آئیں گے کہ رات کے اندھیرے کی طرح نوع بہ نوع فتنے لگاتار برپا ہوں گے ان کی وجہ سے ایسا بھی ہوگا کہ ایک آدمی صبح کو اس حال میں اٹھے گا کہ اپنے عقیدے اور عمل کے لحاظ سے اچھا خاصا مومن و مسلم ہوگا لیکن شام ہوتے ہوتے وہ کسی گمراہی یا بدعملی میں مبتلا ہوکر اپنا دین ایمان برباد کر دے گا۔ یہ فتنے گمراہانہ تحریکوں اور دعوتوں کی شکل میں بھی آ سکتے ہیں اور آتے رہے ہیں اور مال و دولت یا اقتدار کی ہوس اور دوسری نفسانی خواہشات کی شکل میں بھی، حدیث کا آخری جملہ "يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا" (دنیا کی قلیل متاع کے بدلے اپنا دین ایمان بیچ ڈالے گا) اس بات کا واضح قرینہ ہیں کہ حدیث کا مطلب یہی نہیں ہے کہ آدمی ڈینہ اسلام کا منکر ہو کر ملت سے خارج اور ٹھیٹ کافر ہو جائے گا بلکہ اس میں وہ سب صورتیں داخل ہیں جن میں آدمی دنیا کے لیے (جس میں مال و دولت اور اقتدار کی ہوس اور ہر طرح کی نفسانی اغراض شامل ہیں) دین کو یعنی اللہ و رسول کے احکام کو نظر انداز کر دے اس طرح دنیا کی طلب میں آخرت فراموشی اور ہر قسم کا فسق وفجور بھی اس میں شامل ہے جو عملی کفر ہے جیسے کہ بار بار عرض کیا جاچکا ہے رسول اللہ ﷺ کے اس طرح کے ارشادات کے مخاطب اگرچہ بظاہر صحابہ کرام ہی ہوتے تھے لیکن فی الحقیقت ان کے مخاطب ہر دور کے آپ ﷺ کے امتی ہیں اور آپ ﷺ کے اس پیام اور وصیت کا حاصل یہ ہے کہ ہر مومن آنے والے ایمان کش فتنوں سے ہوشیار رہے اور اعمال صالحہ کے اہتمام میں سبقت اور جلدی کرے ایسا نہ ہو کہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائے اور پھر اعمال خیر کی توفیق ہی نہ ہو۔ نیز اگر اعمال صالحہ کرتا رہے گا تو وہ اس کا مستحق ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسے فتنوں سے اس کی حفاظت فرمائے۔
Top