معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1944
عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ قَالَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ وَلَمَنِ ابْتُلِيَ فَصَبَرَ فَوَاهًا. (رواه ابوداؤد)
امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان
حضرت مقداد بن اسود ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا آپ فرما رہے تھے کہ یقینا وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا وہ بندہ نیک بخت و خوش نصیب ہیں جو فتنوں سے دور رکھا گیا وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہیں جو فتنوں سے الگ رکھا گیا اور جو بندہ مبتلا ہوگیا اور وہ صابر اور ثابت قدم رہا تو (اس کا کیا کہنا) اس کو شاباش اور مبارکباد۔ (سنن ابی داود)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تھا کہ کسی بات کی اہمیت سامعین اور مخاطبین کے ذہن نشین فرمانا چاہتے تو اس کو مقرر سہ کرر ارشاد فرماتے اس حدیث میں آپ ﷺ نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا "إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ" (وہ بندہ خوش نصیب ہے جو فتنوں سے دور اور الگ رکھا جائے) یہ بات آپ ﷺ نے بار بار غالبا اس لیے ارشاد فرمائی کہ کسی بندہ کا فتنوں سے محفوظ رہنا فی الحقیقت اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن یہ نعمت چونکہ نظر نہیں آتی اس لیے بہت سے بندوں کو اس کا احساس اور شعور بھی نہیں ہوتا اس وجہ سے نہ ان کے دل میں اس نعمت کی قدر ہوتی ہے نہ اس پر شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرما کر اس نعمت کی اہمیت و عظمت ذہن نشین کرنے کی کوشش فرمائی۔ آخر میں فرمایا کہ اور جو بندہ تقدیر الہی سے فتنوں میں مبتلا کیا گیا اور اس نے اپنے کو تھاما یعنی وہ دین پر اور اللہ و رسول کی وفاداری پر صابر و ثابت قدم رہا تو اس کو شاباش اور مبارکباد اس کا کیا کہنا وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے حدیث کے آخری جملے "وَلَمَنِ ابْتُلِيَ فَصَبَرَ فَوَاهًا" کا مطلب شارحین نے اور بھی بیان کیا ہے اس عاجز کے نزدیک وہی راجح ہے جو یہاں لکھا گیا ہے۔ والعلم عند الله
Top