معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1949
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا مَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلاَّ حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابِي هَؤُلاَءِ وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْءُ قَدْ نَسِيتُهُ فَأَرَاهُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عَرَفَهُ. (رواه البخارى ومسلم)
امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان
حضرت حذیفہ ؓٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن وعظ و بیان کیلئے) کھڑے ہوئے اس بیان میں آپ ﷺ نے نہیں چھوڑی کوئی چیز جو ہو گی قیامت تک، مگر آپ ﷺ نے اسکو بیان فرمایا، اس کو یاد رکھا جس نے یاد رکھا، اور اس کو بھول گیا جو بھول گیا، میرے ان ساتھیوں کو بھی اس کا علم ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے اس بیان کی کوئی چیز میں بھولے ہوئے ہوتا ہوں پھر اس کو (ہوتا ہوا) دیکھتا ہوں تو وہ مجھے یاد آ جاتی ہے، جس طرح ایک آدمی دوسرے کسی آدمی کے چہرے کو بھول جاتا ہے جب وہ اس سے غائب ہو جائے، پھر جب اس کو دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے (اور بھولا ہوا چہرہ یاد آ جاتا ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت حذیفہ کے علاوہ دوسرے متعدد صحابہ کرامؓ سے بھی یہ مضمون روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن بہت طویل بیان فرمایا جس میں آپ ﷺ نے قیامت تک ہونے والے واقعات و حوادث کا ذکر فرمایا، ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسے غیر معمولی حوادث و واقعات اور ایسے اہم فتنوں کا ذکر فرمایا جن کے بارے میں امت کو آگاہی دینا آپ ﷺ نے ضروری سمجھا، یہی آپ ﷺ کے منصب نبوت کا تقاضا اور آپ ﷺ کے شایان شان تھا، لیکن وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ابتدائے آفرینش عالم سے قیامت تک زمین و آسمان کی ساری کائنات اور تمام مخلوقات کا، ذرے ذرے اور پتے پتے کا علم کلی محیط حاصل تھا ..... وہ حضرت حذیفہ کی اس حدیث اور اس مضمون کی دوسری حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں ..... ان کے نزدیک ان حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے اس بیان میں ان کی اصطلاح کے مطابق تمام "ما کان وما یکون" بیان فرمایا تھا یعنی روئے زمین کے سارے ملکوں، ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، جاپان، امیریکہ، افریقہ، انگلینڈ، فرانس، ترکی، روس وغیرہ وغیرہ دنیا کے تمام ملکوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں، حیوانوں، چرندوں، پرندوں، چونٹیوں، مکھیوں، مچھروں، کیڑے مکوڑوں اور سمندر میں پیدا ہونے والی مخلوقات کے سبھی تمام حالات آپ ﷺ نے بیان فرمائے تھے کہ یہ سب بھی "ماکان ومایکون" میں شامل ہے اسی طرح مختلف ملکوں کے ریڈیو سے مختلف زبانوں میں جو خبریں اور جو گانابجانا نشر ہوتا ہے اور مختلف ملکوں کے ہزاروں اخبارات میں مختلف زبانوں میں جوکچھ چھپتا رہا ہے اور چھپتا ہے اور قیامت تک چھپے گا وہ سب بھی آپ ﷺ نے مسجد نبوی کے خطبہ میں صحابہ کرام کوبتلایا تھا کیونکہ یہ سب بھی "ماکان ومایکون" میں داخل ہے۔ جس آدمی کو اللہ نے ذرا برابر بھی عقل دی ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب بیان کرنا اور ایسا دعویٰ کرنا اس قدر جاہلانا اور احمقانہ بات ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلہ میں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں ان لوگوں کے دعوے کے مطابق تمام "ما کان وما یکون" اور ہر طرح کے جزوی حوادث و واقعات بیان فرمائے تھے تو اس کا تو ضرور ہی ذکر فرمایا ہوگا کہ میرے بعد پہلے خلیفہ ابو بکر ہونگے اور ان کے زمانہ خلافت میں یہ یہ ہو گا ان کے بعد دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب اور ان کے بعد تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان ہونگے اور انکے دور میں اور اس کے بعد یہ یہ واقعات پیش آئیں گے تو اگر حضور ﷺ نے خطبہ میں "جمیع ما کان وما یکون" اور اس سلسلہ میں یہ سبھی بیان فرمادیا تھا تو حضور صلی اللّہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انتخاب خلیفہ کے سلسلہ میں کسی غوروفکر اور کسی مشاورت کی ضرورت نہ ہوتی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جو کچھ ہوا کچھ بھی نہ ہوتا ہر شخص کو یاد ہوتا کہ حضور ﷺ نے چند ہی روز پہلے تو فرمایا تھا کہ میرے بعد خلیفہ ابو بکر ؓ ہوں گے .... اسی طرح حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد انتخاب خلیفہ کے سلسلہ میں کسی غور و فکر اور کسی مشاورت کی ضرورت نہ ہوتی، خود حضرت عمرؓ کو اور ان چھٹوں حضرات کو جن کے سپرد آپ ﷺ نے انتخاب خلیفہ کا مسئلہ فرمایا تھا، ضرور یاد ہوتا کہ حضور ﷺ نے بتلا دیا تھا کہ عمرؓ بن الخطاب کے بعد میرے تیسرے خلیفہ عثمانؓ بن عفان ہوں گے ..... یہ سب حضرات اس وقت امت میں سے سے افضل سابقین اولین اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے اس خطہ میں بیان تو یہ سب کچھ فرما دیا تھا، لیکن یہ سب اس کو بھول گئے .... تو دین کی کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں رہتی ..... امت کو سارا دین صحابہ کرامؓ ہی کے ذریعہ اور انہی کی نقل و روایت سے ملا ہے، جب ان کے درجہ اول کے حضرات، سابقین اولین اور عشرہ مبشرہ کے بارے میں یہ مان لیا جائے کہ خود ان ہی سے متعلق حضور ﷺ کی فرمائی ہوئی اتنی اہم باتوں کو بھول گئے اور کسی ایک کو بھی حضور ﷺ کا وہ بیان یاد نہیں رہا، تو ان کی نقل و روایت پر قطعاً اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث کے کسی راوی کے متعلق بھی ثابت ہو جائے کہ وہ ایسا بھولنے والا تھا تو محدثین اس کی کسی بھی روایت کا اعتبار نہیں کرتے وہ روایت میں ساقط الاعتبار اور ناقابل اعتماد قرار دے دیا جاتا ہے۔ بہرحال حضرت حذیفہ کی اس حدیث اور اس مضمون کی دوسری حدیثوں کی بنا پر ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ حضور ﷺ نے مسجد نبوی کے اپنے اس بیان اور خطبہ میں ان کی اصطلاح کے مطابق "جمیع ما کان وما یکون" بیان فرمایا تھا، مذکورہ بالا وجوہ سے انتہائی احمقانہ اور جاہلانہ دعویٰ ہے ..... ان سب حدیثوں کا مطلب و مفاد صرف یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس بیان اور خطبہ میں قیامت تک واقع ہونے والے ان غیر معمولی واقعات و حوادث اور ان اہم فتنوں کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر منکشف فرمائے تھے اور ان کے بارے میں امت کو آگاہی دینا آپ ﷺ نے ضروری سمجھا .... یہی منصب نبوت کا تقاضا اور آپ ﷺ کے شایان شان ہے۔
Top