معارف الحدیث - علاماتِ قیامت - حدیث نمبر 1950
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: «إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: «إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» (رواه البخارى)
علامات قیامت: قیامت کی عمومی نشانیاں
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہیں کہ اس اثناءمیں کے رسول اللہ ﷺ بیان فرما رہے تھے ایک اعرابی (بدوی) آیا اور اس نے آپ ﷺ سے پوچھا کے قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب (وہ وقت آ جائے گے) امانت ضائع کی جانے لگے تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو اس اعرابی نے عرض کیا کہ امانت کیسے ضائع کی جائے گی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب معاملات نااہلوں کے سپرد کئے جانے لگیں تو انتظار کرو قیامت کا۔ (صحیح بخاری)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کی اطلاع دی ہے اسی طرح کچھ چیزوں کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت سے پہلے ان کا ظہور ہوگا ان میں سے کچھ بہت غیر معمولی قسم کی ہیں جو بظاہر اس عام قانون قدرت کے خلاف ہیں جن پر اس دنیا کا نظام چل رہا ھے جیسے سورج کا مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونا اور دابۃ الارض کا خروج اور دجال کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول وغیرہ ان غیر معمولی علامات کا ظہور اس وقت ہوگا جب کہ ہم بہت قریب ہوگی یہ چیزیں گویا قیامت کا پیش خیمہ اور اس کی تمہید ہوں گی۔ ان کو قیامت کی علامات خاصہ اور علامات کو کبری بھی کہا جاسکتا ہے ان کی علاوہ آنحضرت ﷺ نے قیامت سے پہلے کچھ ایسی چیزیں ایسے واقعات اور ایسے تغیرات کے ظہور کی اطلاع دی ہے جو اس طرح کی غیر معمولی تو نہیں ہیں لیکن خود آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک اور زمانہ خیرالقرون کے لحاظ سے مستبعد اور غیر معمولی ہیں اور امت میں ان کا ظہور شر و فساد کی علامت ہے انکو قیامت کی عمومی علامات کہاجا سکتا ہے ذیل میں پہلے رسول اللہ ﷺ کے وہ ارشادات پیش کئے جارہے ہیں جن میں آپ نے دوسری قسم کی چیزوں کا یعنی قیامت کی عمومی علامات کا ذکر فرمایا ہے پہلی قسم یعنی علامات کبری سے متعلق حدیثیں بعد میں پیش کی جائینگی۔ تشریح ..... ہماری اردو زبان میں امانت کا مفہوم بہت محدود ہے لیکن قرآن وحدیث کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اپنے اندر عظمت اور اہمیت بھی لیے ہوئے ہیں ہر عظیم اور اہم ذمہ داری کو امانت سے تعبیر کیا جاتا ہے امانت کے مفہوم کی وسعت اور عظمت کو سمجھنے کے لئے آخر سورہ احزاب کی آیت "إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ ..... الاية" پر غور کر لیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓٗ کی اس حدیث میں امانت کے ضائع کیے جانے کی وضاحت خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے کہ ذمہ داریاں ایسے لوگوں کو سپرد کی جائیں جو ان کے اہل نہ ہوں اس میں درجہ بدرجہ ہر طرح کی ذمہ داری شامل ہے حکومت حکومتی مناصب اور عہدے حکومتی اختیارات اسی طرح دینی قیادت و امانت افتاء و قضاء اوقاف کی تولیت اور انکے انتظام وغیرہ کی ذمہ داری اس طرح کی جو بھی بڑی یا چھوٹی ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کی جائے گی تو یہ امانت کی اضاعت اور اجتماعی زندگی کی شدید معصیت ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی نشانی بتلایا ہے۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا جو ارشاد ہے اگرچہ وہ ایک اعرابی سائل کے جواب میں ہے لیکن عام امتیوں کے لئے اس کا یہ پیغام اور سبق ہے کہ امانت کی حفاظت کی اہمیت کو محسوس کرو اس کا حق ادا کرو ہر درجہ کی ہر نوع کی ذمہ داریاں ان افراد کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں اس کے خلاف کرو گے تو امانت کی اضاعت کے مجرم ہو گے اور خدا کے سامنے اس کی جواب دہی کرنی ہوگی۔
Top