معارف الحدیث - علاماتِ قیامت - حدیث نمبر 1955
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ الآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا. (رواه مسلم)
قیامت کی علامات کبریٰ: آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع، دابۃ الارض کا خروج، دجال کا فتنہ، حضرت مہدی کی آمد، حضرت مسیحؑ کا نزول
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ قیامت کی نشانیوں سے سب سے پہلے جس کا ظہور ہوگا وہ آفتاب کا طلوع ہونا ہے مغرب کی طرف سے اور لوگوں کے سامنے چاشت کے وقت دابۃ الارض کا برآمد ہونا اور دونوں میں سے جو بھی پہلے ہو دوسری اس کے بعد متصلا ہوگی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ظاہر ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر اتنا ہی منکشف کیا گیا تھا کہ قیامت کی علامات کبریٰ میں سے سب سے پہلے ان دو غیر معمولی اور خارق عادت واقعات کا ظہور ہوگا ایک یہ کہ آفتاب جو ہمیشہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے وہ ایک دن جانب مغرب سے طلوع ہوگا اور دوسرے یہ کہ ایک عجیب و غریب جانور (دابۃ الارض) کا خارق عادت سے ظہور ہوگا اس وقت تک آپ ﷺ پر یہ منکشف نہیں فرمایا گیا تھا کہ ان میں سے کون سا واقعہ پہلے ہوگا اور کون بعد میں اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے جو بھی پہلے ہو دوسرا اس کے بعد متصلا ہی ہوگا گویا یہ دونوں واقعے ساتھ ساتھ ہوں گے۔ "دابۃ الارض" کے خروج کا ذکر قرآن مجید (سورہ نحل کی آیت نمبر 82) میں بھی فرمایا گیا ہے اس کے بارے میں بہت سی بے اصل باتیں عوام میں مشہور ہیں اور تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی اس سے متعلق رطب ویابس روایتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن قرآن پاک کے ظاہری الفاظ اور قابل اعتبار روایات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین پر چلنے اور دوڑنے والا جانور ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ خارق عادت طریقہ سے زمین سے پیدا فرمائے گا (جس طرح حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اللہ تعالی نے پہاڑ کی ایک چٹان سے پیدا فرمائی تھی) اور وہ بحکم خداوندی انسانوں کی طرح کلام کرے گا اور ان پر اللہ تعالی کی حجت قائم کرے گا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی صفا پہاڑی سے برآمد ہوگا۔ یہ دونوں واقعات جن کا اس حدیث میں ذکر ہے (آفتاب کا بجائے مشرق کے جانب مغرب سے طلوع ہو جانا اور کسی جانور (‏دابۃ الارض) کا توالدوتناسل کے عام معروف طریقہ کے بجائے زمین سے برآمد ہونا) بظاہر اس نظام قدرت کے خلاف ہے جو اس دنیا کا عام نظام ہے اس لئے ایسے کم فہموں کو جو اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت سے آشنا نہیں ہیں ان کے بارے میں شک شبہ ہوسکتا ہے لیکن ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سب اس وقت ہوگا جب دنیا کا وہ نظام جس پر یہ دنیا چل رہی ہے ختم کیا جائے گا اور قیامت کا دور شروع ہوگا اور زمین و آسمان بھی فنا کر دیے جائیں گے اور دوسرا عالم برپا ہوگا پھر تو وہ سب کچھ سامنے آئے گا جو ہماری اس دنیا کے نظام سے بالکل مختلف ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قیامت کی "علامات خاصہ" اور "علامات کبری" بھی دو طرح کی ہیں بعض وہ ہیں جن کا ظہور قیامت کے بالکل قریب میں ہوگا گویا ان علامات کے ظہور ہی سے قیامت کی شروعات ہو جائے گی جس طرح صبح صادق کی نمودن کی آمد کی علامت ہوتی ہے اور اسی سے دن کی آمد شروع ہوجاتی ہے یہ دونوں علامتیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے اسی قبیل سے ہیں اور اس قبیل کی علامتوں میں سب سے پہلے انہی کا ظہور ہوگا اور ان کا ظہور گویا اس کا اعلان ہوگا کہ یہ دنیا اللہ تعالی کے حکم سے اب تک جس نظام پر چل رہی تھیں اب وہ ختم ہوگیا اور قیامت کا دور اور دوسرا نظام شروع ہوگیا ..... اور قیامت کی "علامات کبریٰ" میں سے بعض وہ ہیں جن کا ظہور قیامت سے کچھ مدت پہلے ہوگا اور وہ قرب قیامت کی علامات ہوں گے دجال کا خروج اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول (جن کا ذکر آگے درج ہونے والی حدیثوں میں آرہا ہے) قیامت کی اس قسم کی علامات میں سے ہے۔
Top