معارف الحدیث - علاماتِ قیامت - حدیث نمبر 1967
عَنِ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ- قَالَ- فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا. فَيَقُولُ لاَ. إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ. تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الأُمَّةَ. (رواه مسلم)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت رہے گی جو حق کیلئے لڑتی رہے گی اور کامیاب رہے گی اسی سلسلہ کلام میں آگے آپ نے فرمایا پھر نازل ہوں گے عیسی بن مریم تو مسلمانوں کے اس وقت کے امیر و امام ان سے کہیں گے کہ آپ نماز پڑھائیے تو عیسی بن مریم فرمائیں گے نہیں (یعنی میں اس وقت امام بن کر نماز نہیں پڑھاوں گا) تمہارے امیر وامام تم ہی میں سے ہیں اللہ تعالی کی طرف سے اس امت کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث کے پہلے جز میں تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ طے ہو چکا ہے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت رہے گی جو حق پر ہو گی اور حق کے لیے حسب حالات و ضرورت دشمنانہ حق سے لڑتی رہے گی اور کامیاب رہے گی حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ دین حق کی حفاظت و بقا اور فروغ کے لئے یہ لڑائی مسلح جنگ کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور زبان و قلم اور دلائل و براہین سے بھی اوردین حق کی اس طرح حفاظت اور اس کے فروغ کی جدوجہد کرنے والے سب ہی باتوفیق بندے دین حق کے سپاہی اور مجاہد کی سبیل الحق ہیں اور بلاشبہ کوئی زمانہ ایسے بندگان خدا سے خالی نہیں رہا اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا یہ اللہ تعالی کی طرف سے مقدر ہوچکا ہے حدیث کے دوسرے جز میں رسول اللہ ﷺ نے بطور پیشن گوئی و آگاہی یہ اطلاع دی ہے کہ قیامت کے قریب آخری زمانے میں عیسی بن مریم نازل ہونگے وہ نماز کا وقت ہوگا تو اس وقت مسلمانوں کے جو امام و امیر ہونگے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کریں گے کہ آپ تشریف لے آئے اب آپ ہی نمازپڑھائیں اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز کی امامت کرنے سے انکار کر دیں گے اور فرمائینگے کہ نماز آپ ہی پڑھاؤ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو جو خواص اعزاز بخشا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کا امام انہی میں سے ہو۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوامامہ ؓ کی روایت سے خروج دجال اور نزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں ایک طویل حدیث ہے۔ اس میں یہ تفصیل ہے کہ مسلمان بیت المقدس میں جمع ہوں گے (یعنی دجال کے فتنہ سے حفاظت اور اس کے مقابلہ کیلئے مسلمان بیت المقدس میں جمع ہوں گے) فجر کی نماز کا وقت ہوگا اور لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ہوں گے ان کے امام جو ایک مرد صالح ہوں گے (ہو سکتا ہے کہ وہ جناب مہدی ہوں) نماز پڑھانے کے لئے امام کی جگہ کھڑے ہو جائیں گے اور اقامت کہی جا چکی ہوگی اس وقت اچانک عیسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئیں گے تو مسلمانوں کے جو امام و امیر نماز پڑھانے کے لئے آگے کھڑے ہو چکے ہونگے وہ پیچھے ہٹنے لگیں گے ان حضرت عیسی السلام سے عرض کریں گے کہ اب نماز پڑھائیں (کیوں کہ بہتر یہی ہے کہ جماعت میں جو سب سے افضل ہو وہی امامت کرے اور نماز پڑھائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو اگلے زمانے میں اللہ کے نبی و رسول تھے بلاشبہ سب سے افضل ہونگے اس لیے اس وقت کے مسلمانوں کے امام امامت کی مصلے سے پیچھے ہٹ کر ان سے درخواست کریں گے کہ اب جب کہ آپ تشریف لے آئے تو نماز آپ کی پڑھائیں) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت نماز پڑھانے سے انکار کر دیں گے اور فرمائیں گے کہ نماز آپ ہی پڑھائیں کیونکہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لئے اس وقت جماعت کھڑی ہوئی ہے اور اقامت کہی جاچکی ہے بہرحال حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد یہ پہلی نماز ہوگی اور وہ یہ نماز رسول اللہ ﷺ کے ایک امتی کے مقتدی بن کر ادا کریں گے اور خود امامت سے انکار فرما دیں گے وہ ایسا اس لئے کریں گے کہ ابتداء ہی میں عمل سے بھی یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ اگلے زمانے کے جلیل القدر نبی و رسول ہونے کے باوجود اس وقت وہ امت محمدیہ کے افراد کی طرح شریعت محمدی کے متبع ہیں اور اب دنیا کے خاتمہ تک شریعت محمدی ہی کا دور ہے۔
Top