معارف الحدیث - علاماتِ قیامت - حدیث نمبر 1969
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَنْزِلُ عِيْسَى بْنِ مَرْيَمَ اِلَى الْاَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَاَرْبَعِيْنَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوْتُ فَيَدْفَنُ مَعِىَ فِىْ قَبْرِىْ فَأَقُوْمُ أَنَا وَعِيْسَى بْنِ مَرْيَمَ فِىْ قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبِىْ بَكْرٍ وَعُمَرَ. (رواه ابن الجوزى فى كتاب الوفا)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عیسی بن مریم زمین پر نازل ہونگے وہ یہاں آ کر نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی اور وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوجائے گی وفات کے بعد ان کو میرے ساتھ (اس جگہ جہاں میں دفن کیا جاؤں گا) دفن کیا جائے گا پھر جب قیامت قائم ہوگی تو میں اور عیسی بن مریم ابوبکر و عمر کے درمیان قبر کی اسی جگہ سے اٹھیں گے۔ (کتاب الوفا لابن الجوزی)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عیسی السلام کے نزول کی اطلاع کے ساتھ ان کی بعض ظاہری علامتیں بھی بیان فرمائیں ایک یہ کہ نی تو وہ زیادہ دراز قد ہونگے نہ پستہ قد بلکہ میانہ قد ہونگے دوسری یہ کہ ان کا رنگ سرخ و سفید ہوگا تیسری یہ کہ ان کا لباس ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے ہونگے چوتھی یہ کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں حالاں کہ ان کے سر پر پانی نہ پڑا ہو گا وہ تو اسی وقت آسمان سے اترے ہونگے مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے صاف شفاف ہوں گے اور ان کے سر کے بالوں کی کیفیت ایسی ہوگی کہ ابھی غسل فرما کے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ چند ظاہری علامتیں بتلانے کے بعد آپ ﷺ نے ان کے خاص اقدامات اور کارناموں کا ذکر فرمایا اس سلسلہ کی پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین حق اسلام کی دعوت دیں گے (جس کی دعوت اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے سب پیغمبروں نے دی ہے) اور ان کا آسمان سے نازل ہو کر دین اسلام کی دعوت دینا اس کے دین حق ہونے کی ایسی روشن دلیل ہوگی جس کے بعد اس کو قبول کرنے سے صرف وہی بدبخت اور سیاہ باطن لوگ انکار کریں گے جن کے دلوں میں حق سے عناد ہوگا اور اس کو قبول کرنے کی گنجائش ہی نہ ہوگی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو بھی دین حق اور اسلام کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے لیے بالآخر طاقت استعمال فرمائیں گے اور جہاد و قتال کریں گے اس کے علاوہ دو اقدام ان کے خاص طور سے ان کے نام لیوا عیسائیوں سے متعلق ہونگے ایک یہ کہ وہ صلیب کو پاش پاش کر دیں گے جس کو عیسائیوں نے اپنا شعار اور گویا معبود بنا لیا ہے اور جس پر ان کے انتہائی گمراہانہ عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے اس کے ذریعہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہوگا کہ وہ صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اس بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں دونوں فرقوں کا عقیدہ غلط باطل ہے حق وہ ہے جس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا ہے اور جو امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اپنے نام لیوا عیسائیوں سے ہی متعلق دوسرا اقدام ان کا یہ ہوگا کہ وہ خنزیروں کو نیست ونابود کرائیں گے جن کو عیسائیوں نے اپنے لئے حلال قرار دے دیا لیا ہے حالانکہ وہ تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے اس کے بعد حدیث شریف میں عیسی علیہ السلام کے اس اقدام کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ جزیہ لینا موقوف اور ختم کردیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرما کر ظاہر فرما دیا کہ ہماری شریعت میں جزیہ کا قانون نزول مسیح کے وقت تک کیلئے ہے جب وہ نازل ہو جائیں گے اور آپ کے خلیفہ کی حیثیت سے امت مسلمہ کے سربراہ اور حاکم ہونگے تو جزیہ کا قانون ختم ہو جائے گا (اس کا ایک ظاہری سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے نازل ہونے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے جو غیر معمولی برکات ہوگی تو حکومت کو جزیہ وصول کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی جو ایک طرح کا ٹیکس ہے) اس کے بعد حدیث شریف میں ان کے دو اہم کا ناموں کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین حق اسلام کے سوا دوسرے تمام باطل مذہبوں اور ملتوں کو ختم فرما دے گا سب ایمان لے آئینگے اور اسلام قبول کرلیں گے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالی انہی کے ہاتھ سے دجال کو ہلاک کرا کے جہنم واصل کرے گا اور دنیا دجال کے اس فتنہ سے نجات پائے گی جو اس دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا آخر میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام نازل ہونے کے بعد اس دنیا اور اس زمین میں چالیس سال رہیں گے اس کے بعد یہیں وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ حدیث جو سنن ابی داود کے حوالہ سے یہاں نقل کی گئی اور یہاں تک اسکی تشریح کی گئی یہ مسند امام احمد میں بھی ہے اور اس میں کچھ اضافہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اور ان کے زمانہ حکومت و خلافت میں اللہ تعالی کی طرف سے جو خارق عادت برکات ہوں گی ان میں سے ایک یہ بھی ہوگی کہ شیر بھیڑئیے وغیرہ درندوں کی فطرت بدل جائے گی بجائے درندگی کے ان میں سلامتی آجائیگی شیر، چیتے، اونٹوں، گایوں، بیلوں کے ساتھ اسی طرح بھیڑئیے، بکریوں کے ساتھ گھومیں گے، کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا اسی طرح چھوٹے بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور سانپ کسی کو نہیں ڈسے گا اور کسی سے کسی کو ایذا نہیں پہنچے گی یہ خوارق اور درندوں کی فطرت تک میں یہ انقلاب اسکی علامت ہوگا کہ یہ دنیا اب تک جن نظام کے ساتھ چل رہی تھی اب وہ ختم ہونے والا ہے اور قیامت قریب ہے اور اس کے بعد آخرت والا نظام چلنے والا ہے جیسا کہ راقم سطور نے تمہیدی اصولوں کے ضمن میں عرض کیا تھا اس وقت کو روزقیامت کی صبح صادق سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت پر جس کا ایمان ہو اس کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ناقابل فہم اور ناقابل یقین نہیں۔ تشریح ..... یہ مسلمات میں سے ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب ہماری دنیا میں تھے تو انہوں نے یہاں پوری زندگی تجرد کی گزاری، نکاح نہیں کیا، حالانکہ نکاح اور تزوج انسان کی فطری ضروریات میں سے ہیں اور اس میں بڑی حکمتیں ہیں اسی لیے جہاں تک معلوم ہے ان سے پہلے اللہ کے تمام پیغمبروں نے اور ان کے بعد آنے والے خاتم النبیین ﷺ نے بھی نکاح کیا ہے ابن الجوزی کی کتاب الوفاء کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے آخر زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ نزول کے بعد کی یہاں کی زندگی میں وہ نکاح بھی کریں گے اور اولاد بھی ہو گی اگے اس روایت میں ان کے قیام کی مدت پینتالیس سال بیان کی گئی ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓٗ کی مندرجہ بالا روایت (جو سنن ابی داود کے حوالہ سے اوپر نقل کی گئی ہے) نزول کے بعد ان کی مدت قیام چالیس سال بتلائی گئی بعض اور روایات میں بھی ان کی مدت قیام چالیس سال ہی بیان فرمائی گئی ہے بعض شارحین نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ چالیس والی روایات میں اوپر کا عدد حذف کر دیا گیا ہے اور عربی محاورات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قصر حذف کر دی جاتی ہے، واللہ اعلم۔ روایت کے آخری حصہ میں یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہیں وفات پائیں گے اور جہاں میں دفن کیا جاؤں گا وہیں وہ بھی دفن کیے جائیں گے اور جب قیامت قائم ہوگی تو میں اور وہ ساتھ ہی اٹھیں گےاور ابوبکروعمر بھی دائیں بائیں ہمارے ساتھ ہوں گے اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر مستقبل کی جو بہت سی باتیں منکشف کی گئی تھی جن کی آپ ﷺ نے امت کو اطلاع دی، ان میں سے یہ بھی تھی کہ جس جگہ میں دفن کیا جاؤں گا، میرے بعد میرے دونوں خاص رفیق ابوبکر و عمر بھی دفن کئے جائیں گے۔ اور آخری زمانے میں جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور یہیں وفات پائیں گے تو ان کو بھی اس جگہ میرے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اور جب قیامت قائم ہو گی تو ہم دونوں ساتھ اٹھیں گے اور ابوبکر و عمر ہمارے دائیں بائیں ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حجرہ شریفہ میں ہوئی تھی اور آپ کے ایک ارشاد کے مطابق اسی جگہ آپ دفن کیے گئے اس کے بعد جب حضرت صدیق اکبر ؓٗ کی وفات ہوئی تو وہ بھی وہیں برابر میں دفن کیے گئے۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ نہ شہید کئے گئے تو حضرت صدیقہ ؓ کی رضا اور اجازت سے وہ بھی وہیں صدیق اکبرؓ کے برابر میں دفن کیے گئے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حجرہ شریفہ میں ایک قبر کی جگہ اس کے بعد بھی باقی رہی پھر سبط اکبر حضرت حسن بن علی ؓ کی وفات ہوئی تو لوگوں نے چاہا کہ ان کو وہاں دفن کیا جائے۔ ام المومنین حضرت صدیقہ ؓ نے رضامندی اور اجازت دے دی لیکن اس وقت اموی حکومت کے جو حکام مدینہ منورہ میں تھے وہ مانع ہوئے (غالبا اس وجہ سے کہ حضرت عثمان ؓٗ کو وہاں دفن نہیں کیا گیا) پھر جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی وفات ہوئی (جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے) تب بھی یہی ہوا کہ حضرت صدیقہ ؓ نے ان کی تدفین کی اجازت دے دی لیکن وہ بھی وہاں دفن نہیں کئے جا سکے۔ پھر جب خود ام المومنین حضرت صدیقہ ؓ کے مرض وفات پر ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کو اس جگہ دفن کیا جائے تو انہوں نے فرمایا کہ بقیع میں جہاں حضور ﷺ کی دوسری ازواج مطہرات مدفون ہیں مجھے بھی ان کے ساتھ بقیع ہی میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن کی گئیں بہرحال حضرت عمر ؓ کے بعد روضہ اقدس میں ایک قبر کی جو خالی جگہ رہی تھی وہ خالی ہی ہے اور مندرجہ بالا روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہونے کے بعد وفات پائیں گے تو وہیں دفن کئے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ رسول اللہ ﷺ کے مشہور صحابی ہیں۔ یہ پہلے یہودی تھے اور تورات اور قدیم آسمانی صحیفوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ امام ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ جامع ترمذی میں ان کا یہ بیان روایات کیا ہے جس کو صاحب مشکوة نے بھی ترمذی ہی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
Top