معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1972
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ. (رواه مسلم)
رسول اللہ ﷺ کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سید (سردار) ہوں گا اور میں پہلا وہ شخص ہوگا جس کی قبر شق ہوگی (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالی کے حکم سے سب سے پہلے میری قبر شق ہوگئی اور میں سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا) اور میں شفاعت کرنے والا پہلا شخص ہوگا (یعنی اللہ تعالی کی طرف سے سب سے پہلے شفاعت کی اجازت مجھے ملے گی اور سب سے پہلے میں ہی اس کی بارگاہ میں شفاعت کروں گا) اور میں ہی وہ شخص ہوں جس کی شفاعت سب سے پہلے قبول فرمائی جائے گی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو جو علم و معارف عطا ہوئے اور آپ کے ذریعے امت کو ملے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ابواب میں منقسم ہیں ان میں سے ایک مناقب و فضائل کا باب بھی ہے حدیث کی قریبا سبھی کتابوں میں "کتاب المناقب" یا "ابواب المناقب" جیسے عنوانات کے تحت رسول اللہ ﷺ کے وہ ارشادات روایت کئے گئے ہیں جن میں آپ نے بعض خاص اشخاص و افراد یا خاص طبقات کے وہ مناقب و فضائل بیان فرمائے ہیں جو اللہ تعالی نے آپ ﷺ پر منکشف فرمائے یہ باب بعض پہلوؤں سے حدیث کے اہم ابواب میں سے ہیں اس میں امت کے لیے ہدایت کا بہت بڑا سامان ہے اج بنام خدا اس باب کی احادیث کی تشریح کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے اور اس کا آغاز چند ان حدیثوں کی تشریح سے کیا جارہا ہے جن میں رسول اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد " وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ" کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے رب کریم کے خصوصی انعامات کا اور ان کے مقامات عالیہ کا ذکر فرمایا ہے جن پر آپ کو فائز کیا گیا تھا ساتھ ہی انشاءاللہ آپ ﷺ کے شمائل و خصائل اور خاص احوال سے متعلق احادیث بھی تشریح کے ساتھ نظر ناظرین کی جائیں گی۔ تشریح ..... رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر ایک خاص انعام یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پوری نسل میں (جس میں تمام انبیاء علیہم السلام بھی شامل ہیں) مجھے سب سے اعلی مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے مجھے سب کا سید و آقا بنایا ہے اس کا پورا ظہور جس کو سب آنکھوں سے دیکھیں گے قیامت کے دن ہو گا اور اسی دن اللہ تعالی کے ان خصوصی انعام کا بھی ظہور ہوگا کہ جب مردوں کے قبر سے اٹھنے کا وقت آئے گا تو بحکم خداوند سب سے پہلے میری قبر اوپر سے شق ہو گی اور میں سب سے پہلے قبر سے باہر آؤں گا اور پھر جب شفاعت کا دروازہ کھلنے کا وقت آئے گا تو باذن خداوندی سب سے پہلے میں ہی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میں ہی پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی شفاعت کو اللہ تعالی کی طرف سے شرف قبول حاصل ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ اس طرح کے عظیم خداوندی انعامات کا اظہار اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اس لیے بھی فرماتے تھے کہ امت آپ ﷺ کے مقام عالی سے واقف ہو اور اس کے قلب میں آپ ﷺ کی وہ عظمت اور محبت پیدا ہو جو ہونی چاہیے اور پھر دل میں آپ ﷺ کی اتباع کا جذبہ اور داعیہ ابھرے نیز اللہ تعالی کی اس نعمت عظمیٰ کے شکر کی توفیق ہو کہ اس نے ایسے عظیم المرتبت پیغمبر کا امتی بنایا الغرض آپ ﷺ کے اس طرح ارشادات تحدیث نعمت اور شکر نعمت کے علاوہ امت کی ہدایت و تربیت کے اسباب بھی ہیں۔ یہاں ایک یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے متعدد حدیثیں اس مضمون کی مروی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں پیغمبر پر مجھے فضیلت نہ دی جائے آپ کے اس طرح کے ارشادات کا مطلب (جو شارحین نے لکھا ہے اور خود ان حدیثوں کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے) یہ ہے کہ اللہ تعالی کہ کسی بھی پیغمبر کے ساتھ مقابلہ اور موازنہ کرکے ان کو کمتر ثابت کرنے کی بات نہ کی جائے اس میں ان کی کسر شان اور سوء ادب کا اندیشہ ہے ورنہ االلہ تعالی نے اپنی کتاب پاک قرآن مجید میں فرمایا ہے " تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ" (یہ ہمارے رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت اور برتری دی ہے) اور قرآن مجید میں متعدد آیتیں ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ کا تمام انبیاء و مرسلین سے افضل ہونا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے مثلا "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ" اور "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ ..... الاية" وغيرها
Top