معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1973
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ. (رواه الترمذى)
رسول اللہ ﷺ کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں تمام بنی آدم کا سید (سردار) ہوں گا اور یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا اور یہ بھی میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور تمام انبیاء علیہم سلام آدمؑ اور انکے سوا بھی سب انبیاء و مرسلین اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہونگے اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی قبرکی زمین اوپر سے شق ہو گئی اور یہ بھی میں فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (بلکہ اللہ تعالی کے حکم سے اس کے انعام و احسان کا بیان کر رہا ہوں) (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث کے اول و آخر میں اللہ تعالیٰ کے جن دو انعامات کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" اور دوسرا "وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تُنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ" ان دونوں کا ذکر حضرت ابوہریرہ ؓ کی مندرجہ بالا حدیث میں بھی کیا گیا ہے اور ان کی تشریح بھی کی جاچکی ہے حضرت ابوسعید ؓٗ کی اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے مزید اس خاص الخاص انعام و کرام کا ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے بن لواء الحمد (حمد کا جھنڈا) میرے ہاتھ میں دیا جائے گا اور تمام انبیاء ومرسلین میرے اس جھنڈے تلے ہوگے۔ یہ بات معلوم ومعروف ہیں کہ جھنڈا لشکر کے سپہ سالار اعظم کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور باقی لشکری اس کے ماتحت ہوتے ہیں پس قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے جھنڈا رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دیا جانا اور آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کا آپ ﷺ کے اس جھنڈے تلے ہونا اللہ تعالی کی طرف سے تمام مخلوقات اور تمام انبیاء پر رسول اللہ ﷺ کی سیادت و فضیلت کا ایسا ضرور ہوگا جس کو ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں بھی اللہ تعالی کا ہر انعام ذکر فرمانے کے ساتھ یہ بھی فرمایاکہ "ولا فخر" کہ اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا ذکر میں فخر کے طور پر نہیں کررہا ہوں بلکہ اس کے حکم کی تعمیل میں تحدیث نعمت اور اداء شکر کے طور نہ اور تمہاری واقفیت کے لئے کر رہا ہوں۔ یہ لواءالحمد (حمد کا جھنڈا) جو قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دیا جائے گا اس واقعی حقیقت کی علامت اور اس کا اعلان ہوگا جس برگزیدہ بندے کے ہاتھ میں حمد خداوندی کا یہ جھنڈا ہے اس کا حصہ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے عمل میں (جو کسی بندے کو اللہ کا محبوب و مقبول بنانے والا خاص الخاص عمل ہے) سب سے زیادہ ہے اللہ کی حمد خود اس کی زندگی کا ہمہ وقتی وظیفہ تھا دن رات کی نمازوں میں بار بار اللہ کی حمد، اٹھتے بیٹھتے اللہ کی حمد، کھاناکھانے کے بعد اللہ کی حمد، پانی پینے کے بعد اللہ کی حمد، سونے سے پہلے اور سو کر اٹھنے کے بعد اللہ کی حمد، لذت اور مسرت کے ہر موقع پر اللہ کی حمد، اللہ تعالی کی کسی بھی نعمت کے احساس کے وقت اس کی حمد، یہاں تک کہ چھینک آنے پر اللہ کی حمد، استنجے سے فراغت پر اللہ کی حمد (ان تمام ملکوں پر رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ثابت ہیں ان سب میں اللہ تعالی کی حمد ہی ہے) پھر آپ ﷺ نے اپنی امت کو بڑے اہتمام سے اسی طرز عمل کی ہدایت اور تلقین فرمائی جس کے نتیجہ میں بلاشبہ اللہ تعالی کی اتنی حمد ہوئی اور قیامت تک ہوگی جس کا حساب بس اللہ تعالی ہی کے علم میں ہے اس لیے بلاشبہ آپ ﷺ ہیں اس کے مستحق ہیں کہ لواءالحمد (حمد کا جھنڈا) قیامت کے دن آپ ﷺ کے ہاتھ میں دیا جائے اور اس کے ذریعہ آپ کی اس خصوصیت کا اعلان و اظہار کیا جائے۔ صلی اللہ علیہ و بارک وسلم۔
Top