معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1975
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ قَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً. وَقَالَ آخَرُ مُوسَى كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ عِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ. وَقَالَ آخَرُ آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كَلاَمَكُمْ وَعَجَبَكُمْ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ أَلاَ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِيَ فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَكْرَمُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ وَلاَ فَخْرَ. (رواه الترمذى والدارمى)
رسول اللہ ﷺ کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے اسی حال میں رسول اللہ ﷺ اندر سے تشریف لے آئے جب آپ ﷺ ان لوگوں کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے سنا کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں ان میں سے ایک نے (حضرت ابراہیمؑ کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے) کہا کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا ایک دوسرے صاحب نے کہا کہ اور حضرت موسیؑ کو ہم کلامی کا شرف بخشا پھر ایک اور صاحب نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ مقام ہے کہ وہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں پھر ایک اور صاحب نے کہا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالی نے برگزیدہ کیا (کہ ان کو براہ راست اپنے دست قدرت سے بنایا اور ان کو سجدہ کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا وہ صحابہ یہ باتیں کررہے تھے) کہ اچانک رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہار تعجب سنا، بےشک ابراہیمؑ اللہ کے خلیل ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں (ان کو اللہ تعالی نے اپنا خلیل بنایا ہے) اور بےشک موسیؑ نجی اللہ (اللہ کے ہمراز و ہم سخن) ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور بے شک عیسی روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور بےشک آدم صفی اللہ (اللہ کے برگزیدہ) ہیں اور فی الحقیقت وہ ایسے ہی ہیں اور تم کو معلوم رہنا چاہیے کہ میں حبیب اللہ (اللہ کا محبوب) ہوں اور یہ میں بطور فخر نہیں کہتا اور قیامت کے دن میں ہی لواءالحمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوگا، آدم اور ان کے سوا بھی سب (انبیاء و مرسلین) میرے اس جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلا وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول فرمائی جائے گی اور میں پہلا وہ شخص ہوگا جو (جنت کا دروازہ کھلوانے کے لیے) اس کے حلقہ کو ہلائے گا تو اللہ تعالی میرے لیے اس کو کھلوا دے گا اور مجھے جنت میں داخل فرمائے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہونگے اور یہ بات بھی میں فخر سے نہیں کہتا اور بارگاہ خداوندی میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ میرا اکرام و اعزاز ہوگا اور یہ بھی فخر سے نہیں کہتا۔ (جامع ترمذی و مسند دارمی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کا مزاج مبارک اور عام رویہ تواضع اور انکساری کا تھا لیکن ضرورت محسوس ہوتی تو اللہ تعالی کے ارشاد "وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ" کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کے ان خصوصی انعامات اور اعلی کمالات و مقامات کا بھی ذکر فرماتے جن سے آپ سرفراز فرمائے گئے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی یہ حدیث اور جو حدیثیں اوپر درج کی گئیں یہ سب آپ ﷺ کے اسی سلسلہ کے بیانات ہے وہ صحابہ کرامؓ جن کی گفتگو کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے حضرت ابراہیمؑ حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ اور حضرت آدم (علیہم السلام) پر ہونے والے اللہ تعالیٰ کے ان خصوصی انعامات سے تو واقف تھے جن کا وہ تذکرہ کررہے تھے ان کو یہ سب کچھ خود حضور ﷺ ہی کی تعلیم سے قرآن مجید سے معلوم ہو چکا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے مقام عظمت کے بارے میں غالبا ان کی معلومات ناقص تھی اس لیے یہ خود ان کی ضرورت اور حاجت تھی کہ رسول اللہ ﷺ اس بارے میں ان کو بتلائیں چنانچہ آپ ﷺ نے ان کو بتلایا اور اس طرح بتلایا کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیؑ و عیسیؑ اور حضرت آدمؑ پر ہونے والے جن انعامات الہیہ اور ان کے جن فضائل ومناقب کا وہ ذکر کر رہے تھے، پہلے آپ ﷺ نے ان سب کی تصدیق فرمائی اس کے بعد اپنے بارے میں بتلایا کہ مجھ پر اللہ تعالی کا یہ خاص الخاص انعام ہے کہ مجھ کو مقام محبوبیت عطا فرمایا گیا ہے اور میں اللہ کا حبیب ہوں (ملحوظ رہے کہ جن اصحاب کرام سے آپ ﷺ نے یہ فرمایا وہ جانتے تھے کہ محبوبیت کا مقام سب سے اعلی و بالا ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس سلسلے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی) اس کے بعد آپ ﷺ نے بعض ان انعامات الہیہ کا ذکر فرمایا ہے جس کا ظہور اس دنیا کے خاتمہ کے بعد قیامت میں ہوگا ان میں سے لواءالحمد ہاتھ میں ہونے اور اولین شافع اور اولین مقبول الشفاعۃ ہونے کا ذکر مندرجہ بالا حدیثوں میں بھی آچکا ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے دو خصوصی انعامات خداوندی کا اور ذکر فرمایا ایک یہ کہ جنت کا دروازہ کھلوانے کے لیے سب سے پہلے میں ہی اس کے حلقوں کو حرکت دوں گا (جس طرح کسی مکان کا دروازہ کھلوانے کے لیے دستک دی جاتی ہے) تو اللہ تعالی فورا دروازہ کھلوا دیں گے اور مجھ کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور وہ بھی میرے ساتھ ہی جنت میں داخل کر لیے جائیں گے (یہ سب آنحضرت ﷺ کی مقام محبوبیت پر فائز ہونے کا ظہور ہوگا) آخری بات آپ صلی اللہ وسلم نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمائی کہ "وانا اکرم الاولین و الآخرین علی اللہ" یعنی یہ بھی مجھ پر اللہ تعالی کا خاص الخاص انعام ہے کہ اس کی بارگاہ میں تمام اولین و آخرین میں سب سے زیادہ اکرم و اعزاز میرا ہی ہے اور جو مقام عزت مجھے عطا فرمایاگیا ہے وہ اولین و آخرین میں سے کسی اور کو عطا نہیں فرمایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں جن خصوصی انعامات الہیہ کا ذکر فرمایا ان میں سے ہر ایک کے ساتھ یہ بھی فرمایا "ولا فخر" جیسا کہ عرض کیا جاچکا اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالی کے ان خصوصی انعامات کا ذکر محض از راہ فخر اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے نہیں کر رہا ہوں بلکہ محض اللہ کے حکم کی تعمیل میں تحدیث نعمت اور اداء شکر کے لیے اور تم لوگوں کو واقف کرنے کے لئے کر رہا ہوں تاکہ تم بھی اس رب کریم کا شکر ادا کرو کیونکہ یہ انعامات تمہارے حق میں بھی وسیلہ خیر و سعادت ہیں۔
Top