معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1978
عَنْ أَبِىْ اُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأُخْبِرُكُمْ بِاَوَّلِ اَمْرِىْ دَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسَى، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْنِىْ نُورًا أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ. (رواه احمد)
رسول اللہ ﷺ کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو اپنے اول امر (اپنی ابتداء) کے بارے میں بتلاتا ہوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں (یعنی انکی دعا کی قبولیت کا ظہور ہو) اور عیسی (علیہ السلام) کی بشارت ہوں (یعنی وہ نبی ہوں جسکی آمد کی بشارت انہوں نے دی تھی) اور اپنی والدہ کا خواب ہو (یعنی ان کے اس خواب کی تعبیر ہو) جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے میری والدہ کے لیے ملک شام کے محل بھی روشن ہو گئے۔ (مسند احمد)

تشریح
قرآن مجید سورہ بقرہ کی آیت نمبر 127 اور نمبر 128 میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر کعبۃ اللہ کی تعمیر کر رہے تھے تو انہوں نے یہ دعا بھی کی تھی کہ اے ہمارے پروردگار ہماری نسل میں سے ایک ایسی امت پیدا فرمانا جو تیری فرمانبردار ہوں اور ان میں انہیں میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرمانا جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک صاف کرے۔ اور سورج صف کی آیت نمبر 6 میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر ان کی قوم بنی اسرائیل کے پاس بھیجا تو آپؑ نے ان لوگوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے لیے بھیجا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں اس عظیم الشان پیغمبر کی آمد کی بشارت سناوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں قرآن مجید کی انہی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ اور ظہور ہو اور میں عیسی بن مریم کی بشارت کا مصداق ہوں آگے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس خواب کی تعبیر ہوں جو میری والدہ ماجدہ نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ایک ایسا غیر معمولی نور ظاہر ہوا جس کی روشنی نے میری والدہ صاحبہ کے لئے ملک شام کی عالی شان عمارتیں اور محل روشن کر دیئے اور میری والدہ نے اس نور کے اجالے میں انکو دیکھ لیا۔ یہ خواب رسول اللہ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ ﷺ کی ولادت کے قریبی وقت میں غالبا اسی رات میں دیکھا تھا جس کی صبح آپ کی ولادت ہوئی ملک شام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سرزمین انبیاء ہیں اور اسی میں وہ بیت المقدس ہے جو تمام انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ رہا ہے۔ راقم سطور نے حدیث کے لفظ رویا کا ترجمہ خواب کیا ہے اور اسی کی بنیاد پر تشریح کی ہے لیکن یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے اس نور کا ظہور اور اس کی روشنی میں ملک شام کے محلات عین ولادت کے وقت بیداری میں دیکھے بعض دوسری روایات سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ولادت سے پہلے سونے کی حالت میں خواب دیکھا ہو اور پھر ولادت کے وقت بیداری میں بھی آنکھوں نے یہ دیکھا ہو بہرحال یہ نور کا ظہور اور اس کے اجالے میں ملک شام کے محلات کا نظر آنا اس کی علامت تھی کہ اللہ تعالی اس مولود مسعود کے ذریعہ ہدایت کا نور ملک شام تک بھی پہنچ جائے گا جو ہزاروں برس تک خود ہدایت کا مرکز رہا ہے اور بیت المقدس کو قبلہ ماننے والی قوم بھی اس نور ہدایت سے فیضیاب ہوں گی جیسا کہ ظہور میں آیا اور قیامت تک آتا رہے گا۔
Top