معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1982
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ - اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ العَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ المَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: «مَا أَنَا بِقَارِئٍ»، قَالَ: " فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ} [العلق: 2] " فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الخَبَرَ: «لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ العُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الكِتَابَ العِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ»، قَالَ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ، وَفَتَرَ الوَحْيُ. (رواه البخارى ومسلم)
رسول اللہ ﷺ کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ وہ پہلی چیز جس سے رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء ہوئی رویا صادقہ تھے جو آپ سونے کی حالت میں دیکھتے تھے چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح سامنے آجاتا۔۔۔۔ پھر آپ کے دل میں خلوت گزینی کی محبت ڈال دی گئی تو آپ غار حرا میں جا کر خلوت گزینی کرنے لگے۔ وہاں آپ (اپنے اہل خانہ کی طرف اشتیاق سے پہلے) کئی کئی رات تک عبادت فرماتے اور اس کے لئے خورد و نوش کا ضروری سامان ساتھ لے جاتے پھر (اپنی زوجہ محترمہ) حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لاتے، اور اتنی ہی راتوں کے لئے پھر سامان خورد و نوش ساتھ لے جاتے ..... یہاں تک کہ اس حال میں کہ آپ غار حرا میں تھے، آپ کے پاس حق آ گیا (یعنی وحی حق آ گئی) چنانچہ (خدا کا فرستادہ) فرشتہ (جبرائیل) آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اقرا (پڑھئے!) آپ نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ نے بیان فرمایا کہ پھر اس فرشتے نے مجھے زور سے دبایا (بھینچا) یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ اقرا (پڑھئے!) پھر میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر اس نے مجھے پکڑا اور پھر دوسری دفعہ زور سے دبایا، یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا اقرا (پڑھئے!) پھر میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس کے بعد پھر اس فرشتہ نے مجھے پکڑا اور تیسری مرتبہ زور سے دبایا، یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾ (اپنے اس پروردگار کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا کیا، انسان کو جس نے جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھیئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، وہ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا، انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا) پھر رسول اللہ ﷺ ان آیتوں کو لے کر اس حال میں لوٹے کہ آپ ﷺ کا دل لرز رہا تھا .... تو آپ (اپنی زوجہ محترمہ) حضرت خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو، مجھے کپڑا اڑھا دو، تو گھر والوں نے آپ کو کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ گھبراہٹ اور دہشت کی وہ کیفیت ختم ہو گئی تو آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے بات کی اور پورا واقعہ بتلایا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہو گیا تھا حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ ہرگز ایسے خطرہ کی بات نہیں، قسم بخدا اللہ تعالیٰ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا، آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں اور ہمیشہ حق اور سچی بات کہتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کے لئے کماتے ہیں، اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں ان حادثوں پر جو حق ہوتے ہیں ..... پھر حضرت خدیجہؓ آپ کو لے گئیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس اور ان سے کہا کہ اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات (اور واردات) سنیئے! تو ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ اے بھتیجے بتلاؤ تم کیا دیکھتے ہو؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو وہ سب بتلایا جو مشاہدہ رمایا تھا تو ورقہ نے کہا کہ یہ وہ خاص راز داں فرشتہ (جبرائیل) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر بھیجا تھا۔(پھر ورقہ نے کہا کہ) کاش میں اس وقت جوان پٹھا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب تمہاری قوم تم کو نکالے گی۔‘‘ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (تعجب سے) کہا: ’’ کیا میری قوم کے لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا کہ ہاں! (تمہاری قوم تم کو دیس سے نکال دے گی) کوئی آدمی بھی اس طرح کی دعوت لے کر نہیں آیا جیسی تم لائے ہو مگر یہ کہ لوگوں نے اس کے ساتھ دشمنی کا برتاؤ کیا اور اگرمیں ان دنوں تک زندہ رہا تو تمہاری بھر پور مددکروں گا۔پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی ابتداء اور نزول وحی کے آغاز کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس کی راوی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہین، جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں، لیکن حدیث کے مستند ہونے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، کیوں کہ یا تو انہوں نے یہ واقعہ اس تفصیل کے ساتھ خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو گا (اور غالب گمان یہی ہے) یا اپنے والد ماجد حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے یا کسی دوسرے بزرگوار صحابی سے جنہوں نے خود حضور ﷺ سے سنا ہو گا اور اہل سنت کا مسلمہ ہے (جو گویا ان کے عقائد میں شامل ہے) کہ "اَلصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُوْلٌ" (یعنی تمام صحابہ کرام عادل اور ثقہ ہیں) جس صدیقہ نے اس کی ضرورت نہیں سمجھے کہ وہ یہ بتلائیں کہ انہوں نے یہ کس سے سنا تھا، ہمارے یقین کے لئے ان کا بیان فرمانا کافی ہے، اگر اس بارے میں ان کو پورا اطمینان و یقین نہ ہوتا تو وہ ہرگز اس طرح بیان نہ فرماتیں۔ یقیناً حضور ﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں وہ یہ جانتی تھیں کہ حضور ﷺ سے متعلق اس طرح کے اہم اور غیر معمولی واقعہ کا بیان کتنی بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔ حدیث میں سب سے پہلے بات یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ آپ کو "رویائے صادقہ" (سچے خواب) آنے شروع ہوئے، آگے خود حدیث میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ آپ سونے کی حالت میں جو خواب دیکھتے وہ صبح کے اجالے کی طرح بیداری میں آنکھوں کے سامنے آ جاتا، سمجھنا چاہئے کہ وحی نبوت کے لئے آپ کی روحانی تربیت کا سلسلہ اس طرح کے خوابوؓ سے شروع ہوا، یہ پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے قلب میں سب سے یکسوئی اور خلوت گزینی کی محبت اور اس کا شوق و جذبہ پیدا فرما دیا گیا، آگے حدیث میں جو بیان فرمایا گیاہے، اس سے معلوم ہو جاتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب میں مجرد خلوت گزینی اور سب سے الگ تھلگ رہنے کا جذبہ اور داعیہ ہی پیدا نہیں فرمایا گیا تھا، بلکہ سب سے یکسو رہ کر خلوت میں عبادت کا (گویا ایک طرح کے اعتکاف کا) جذبہ اور شوق پیدا فرمایا گیا تھا، پھر اس کے لئے آپ ﷺ نے غار حرا کا انتخاب فرمایا۔ حراء ایک پہاڑ کا نام ہے، مکہ مکرمہ کے ہر طرف پہاڑیاں ہی پہاڑیاں ہیں، کچھ کم بلند ہیں، کچھ زیادہ بلند ہیں (جہاں تک خیال ہے) ان میں سب سے بلند یہی حراء ہے، جس کو لوگ اب جبل النور کہتے ہیں، یہ مکہ مکرمہ کی آبادی سے قریباً دو ڈھائی میل کے فاصلے پر ہے، اس کی چوٹی پر پتھر کی بڑی بڑی چٹانیں باہم اس طرح مل گئی ہیں کہ ان کے درمیان ایک چھوٹا سا مثلث نما (تکونہ) حجرہ سا بن گیا ہے، اسی کو غار حراء کہا جاتا ہے، اور اس میں بس اتنی جگہ ہے کہ ایک آدمی کسی طرح داؒ ہو کر گزارہ کر سکتا ہے، چونکہ یہ پہاڑ بہت بلند ہے اور غار اس کی بالکل چوٹی پر ہے اور اس تک چڑھائی میں بڑی مشقت اٹھانی پڑتی ہے، اس لئے اچھے تندرست و توانا آدمی بھی بہ مشکل ہی وہاں پہنچ پاتے ہیں، اب تو اس مبارک واقعہ کی وجہ سے جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ہر مسلمان کا دل چاہتا ہے کہ اگر وہ پہنچ سکے تو اس کی زیارت کی سعادت ضرور حاصل کرے لیکن ظاہر ہے، کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خلوت میں یکسوئی سے عبادت کے لئے اس کا انتخاب فرمایا تھا تو کسی آدمی کے لئے اس گار میں ایسی کوئی کشش نہیں تھی کہ اس تک پہنچنے کے لئے وہ پہاڑ کی اتنی لمبی چڑھائی کی مشقت برداشت کرے (چنانچہ کہیں اس کا ذکر نہیں ملتا جن ایام میں حضور ﷺ اس غار میں خلوت گزیں (گویا معتکف) رہے، آپ ﷺ کا کوئی عزیز قریب بھی آپ ﷺ کے پاس پہنچا ہو) اس لئے خلوت میں یکسوئی سے عبادت کے لئے اس سے بہتر جگہ کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا تھا اور آگے جو ظہور میں آنے والا تھا (جس کا اس حدیث میں بھی ذکر ہے) اس کے لئے ازل سے یہی مبارک غار مقدر ہو چکا تھا۔ آگے حدیث شریف میں جو فرمایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ غار حرا کی اس خلوت گزینی اور عبادت کے سلسلہ میں آپ کا معمول یہ تھا کہ چند دن رات کے لئے خورد و نوش کا ضروری سامان لے کر آپ غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں پوری یکسوئی سے عبادت میں مشغوک رہتے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کے دل میں گھر والوں کی دیکھ بھال اور ملاقات کا داعیہ پیدا ہوتا تو گھر زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لاتے اور پھر اتنے ہی دنوں کے لئے خود و نوش کا ضروری سامان لے کر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں عبادت میں مشغول رہتے۔ حضرت صدیقہؓ نے غار حرا میں آپ ﷺ کی مشغولیت کے لئے فَيَتَحَنَّثُ کا لفظ استعمال فرمایا ہے حدیث کے ایک راوی امام زہری نے تعبد کے لفظ سے اس کا حاصل مطلب بیان کیا ہے ..... لیکن کسی روایت سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ غار حرا کے اس قیام میں حضور ﷺ کی عبادت کا طریقہ کیا تھا شارحین حدیث نے اس بارے میں حضرات علمائے کرام کے مختلف اقوال نقل کئے ہیں، لیکن وہ سب قیاسات ہیں ..... اس عاجز کا خیال ہے کہ نبوت و رسالت کے منصب کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی مسلسل تربیت ہو رہی تھی جس کا پہلا مرحلہ روؤیائے صادقہ کا سلسلہ تھا، وہ بھی ایک طرح کا الہام تھا، اس کے بعد خلوت گزینی اور خلوت میں عبادت کا داعیہ آپ ﷺ کے قلب میں پیدا کیا گیا یہ بھی جاذبہ الٰہیہ اور ایک طرح کے الہام ربانی کا نتیجہ تھا۔ پھر غار میں آپ ﷺ جو عبادت فرماتے تھے جس کو حضرت صدیقہؓ نے فيتحنث کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، سمجھنا چاہئے کہ وہ بھی الہام ربانی کی رہنمائی میں تھی، ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے لئے نور ہدایت کی دعا کرتے ہوں اور آپ ﷺ کی قوم شرک و بت پرستی اور شدید مظالم و معاصی کی جس نجاست و غلاظت میں غرق تھی، جس سے آپ ﷺ کی فطرت سلیمہ صالحہ کو سخت اذیت تھی، اس سے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بیزاری کا اظہار اور قوم کے لئے بھی اصلاح و ہدایت کی دعا فرماتے ہوں (دعا کو حضور ﷺ نے عبادت کا مغز اور جوہر فرمایا ہے) ..... بہرحال راقم الحروف کا خیال ہے کہ آپ ﷺ کو عبادت کی اس مشغولیت میں الہام خداوندی کی رہنمائی حاصل تھی اور اس کے ذریعہ آپ ﷺ کی روحانیت کو آگے کی منزلوں کے لئے تیار کیا جا رہا تھا، واللہ اعلم۔ آگے حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے کہ غار حرا میں آپ ﷺ کی خلوت گزینی اور عبادت کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک (ایک رات (1) میں) آپ ﷺ کے پاس فرشتہ وحی لے کر آ گیا اور اس نے آپ ﷺ سے کہا اقرا (پڑھئے) آپ ﷺ کا بیان ہے کہ میں نے کہا کہ مَا أَنَا بِقَارِئٍ (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس لئے پڑھ نہیں سکتا) .... آپ ﷺ کا بیان ہے کہ اس جواب کے بعد اس نے مجھے پکڑ کے اتنے زور سے دبایا کہ اس کا دباؤ میری حد برداشت کی آخری حد تک پہنچ گیا یعنی اس حد تک کہ اس سے آگے میں برداشت نہیں کر سکتا تھا (بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فرشتہ نے آپ ﷺ کا گلوئے مبارک پکڑ کے (2) اس قدر زور سے دبایا تھا) حدیث شریف میں بیان فرمایا گیا ہے کہ تین (۳) دفعہ ایسا ہی ہوا کہ اس نے مجھ سے کہا اقرأ (پڑھئے) میں نے کہا کہ مَا أَنَا بِقَارِئٍ (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس لئے پڑھ نہیں سکتا) اور میرے اس جواب کے بعد ہر دفعہ اس نے مجھے پکڑ کے اس قدر زور سے دبایا کہ میری حد برداشت کی آخری حد تک پہنچ گیا، تیسری دفعہ کے بعد اس نے سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں پڑھیں (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ سےعَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ تک) حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ فرشتہ سے یہ آیتیں سن کر آپ ﷺ نے خود بھی ان کی تلاوت فرمائی، لیکن آگے جو بیان فرمایا گیا ہے، اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ ﷺ کو یہ آیتیں محفوظ ہو گئیں اور آپ ﷺ ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے غار سے گھر تشریف لائے اور آپ ﷺ کی اس وقت جو حالت تھی وہ حدیث میں آگے ذکر کی گئی ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ یوں تو پورا قرآن مجید معجزہ ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں اور اس طرح بعض چھوٹی چھوٹی آیتوں میں اعجاز کی شان ایسی واضح اور نمایاں ہے کہ عربی زبان سے واقفیت اور اس کا ذوق رکھنے والا ہر شخص ان کو صرف سن کر یہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ بشر کا کلام نہیں بلکہ خالق بشر کا کلا ہے ..... راقم سطور بغیر ادنیٰ انکسار کے عرض کرتا ہے کہ میں عربی زبان کا ادیب نہیں ہوں بس اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کا مقدس کلام قرآن مجید اور اس کے رسول پاک ﷺ کی احادیث پڑھ لیتا اور کچھ سمجھ لیتا ہوں اپنے اس حال میں بھی سورہ علق کی ان ابتدائی پانچ آیتوں کے بارے میں الحمدللہ دن میں سورج کی روشنی کی طرح یقین رکھتا ہوں کہ یہ بشر کا یا فرشتہ کا کلام نہیں ہو سکتا ہے یہ بلا شبہ رب ذو الجلال ہی کا کلام ہے ..... چھوٹی چھوٹی ان پانچ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کا جو دفتر اور علوم کا جو سمندر اس کی شان ربوبیت، قدرت و حکمت، کرم و احسان اور صفات و افعال کا جو بیان ہے، اس پر ایک پورا مقالہ بلکہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ..... رسول اللہ ﷺ نے صرف یہ کہ آپ ﷺ کی مادری زبان عربی تھی بلکہ آپ ﷺ افصح العرب) تھے، اس لئے اس میں شک شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے کہ جیسے ہی آپ ﷺ نے فرشتہ (جبرائیل) سے یہ آٰتیں سنی ہوں گی آپ ﷺ نے یقین فرما لیا ہو گا کہ یہ میرے خالق و مالک رب کریم کا کلام ہے اس نے مجھے اپنے فضل خاص سے نوازا ہے۔ حدیث میں غار حرا کے مذکورہ بالا واقعہ کے ذکر کے بعد بیان فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورۃ العلق کی ان ابتدائی پانچ آیتوں کو لے کر غارِ حرا سے اس حال میں گھر تشریف لائے کہ آپ ﷺ دہشت زدہ سے تھے، آپ ﷺ کا دل لرز رہا تھا، جسم مبارک پر بھی اس کا اثر تھا آپ ﷺ نے آتے ہی اپنے اہل خانہ سر فرمایا کہ مجھ پر کپڑا ڈال دو مجھے کپڑا اڑھا دو، (ایسی حاولت میں کپڑا اوڑھنے کا طبعی تقاضا ہوتا ہے اور اس سے سکون ملتا ہے) چنانچہ گھر والوں نے آپ ﷺ کو کپڑا اڑھا دیا، پھر وہ دہشت زدگی اور دل کے لرزنے کی کیفیت ختم ہو گئی اور حالت معمول پر آ گئی تو آپ ﷺ نے زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کو وہ سب بتلایا جو پیش آیا تھو، اس سلسلہ میں یہ بھی فرمایا (لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي) اے خدیجہؓ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ ہو گیا تھا) مطلب یہ ہے کہ فرشتہ نے گلا پکڑ کے تین دفعہ ایسے زور زور سے دبایا تھا کہ مجھے خطرہ تھا کہ میری جان ہی نکل جائے گی۔ آگے حدیث میں جو بیان فرمایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے غار حرا کی ساری واردات حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر آپ ﷺ کو تسلی اور بشارت دینے کے لئے بڑے اعتماد کے ساتھ اور قسم کھا کے اپنے اس یقین کا اظہار فرمایا کہ ہرگز کوئی خطرہ اور اندیشہ کی بات نہیں تھی اور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اعلیٰ درجہ کے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال سے نوازا ہے، آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں یعنی قرابت داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، ہمیشہ حق اور سچی بات کرتے ہیں، صداقت اور راست بازی آپ ﷺ کا شعار ہے، آپ ﷺ ایسے صعیفوں، اپاہجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں جو بےچارے خود اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے یعنی ان کی کفالت کرتے ہیں اور آپ ﷺ کا حال یہ ہے کہ خود محنت کر کے کمائی کرتے ہیں (تا کہ غریبوں حاجت مندوں کی مدد کریں) اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور جو لوگ بغیر کسی جرم و قصور کے کسی حادثہ کا شکار ہو جاتے ہیں آپ ان کی امداد و اعانت کرتے ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ کا مقصد اس گفتگو سے یہی تھا کہ آپ ﷺ کے یہ مکارم اخلاق اور مبارک احوال اس بات کی علامت اور دلیل ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اور آپ ﷺ پر اس کا خاص فضل و کرم ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ یہ جو کچھ ہوا یہ بھی اس کے کرم ہی کا ایک خاص ظہور ہے۔ آگے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ پھر حضرت خدیجہؓ حضور ﷺ کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل (1) کے پاس پہنچیں ...... حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اسی حدیث کی صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ورقہ بن نوفل کے تعارف میں یہ بھی ہے کہ: وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ، فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ. ترجمہ: یہ ورقہ بن نوفل ایسے آدمی تھے جو زمانہ جاہلیت میں (یعنی رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے) نصرانیت اختیار کر چکے تھے اور یہ عبرانی زبان لکھتے تھے، چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے اور یہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ تشریح ..... اور صحیح مسلم کی روایت میں عبرانی کے بجائے عربی ہے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ورقہ بن نوفل انجیل کے مضامین عربی زبان میں لکھا کرتے تھے اور بظاہر یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ ورقہ بن نوفل کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ شرک و بت پرستی سے بیزار تھے، دین حق کی تلاش میں ملکوں ملکوں پھرے بالآخر ملک شام میں بتوفیق الٰہی نصرانی مذہب کے ایک ایسے راہب یعنی عیسوی مذہب کے درویش عالم سے ملاقات ہو گئی جو صحیح عیسوی مذہب پر تھے (یعنی عیسائیت میں الوہیت مسیح، تثلیت اور کفارہ وغیرہ جیسے جو مشرکانہ اور گمراہانہ عقیدے بعد میں شامل کر لئے گئے وہ ان سے بیزار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی صحیح تعلیم و ہدایت پر قائم تھے) ورقہ نے ان کے ہاتھ پر نصرانی مذہب قبول کر لیا اور اس کی تعلیم بھی حاصل کر لی، عبرانی زبان بھی سیکھ لی جس میں توراۃ نازل ہوئی تھی (اور بعض محققین کی تحقیق کے مطابق انجیل بھی عبرانی زبان ہی میں تھی)۔ بہرحال ورقہ بن نوفل صحیح عیسوی مذہب پر تھے اور کتب قدیمہ کے عالم تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب "الاصابہ" میں ان ورقہ بن نوفل کے بارے میں ایک رویت نقل کی ہے۔ وَكَانَ وَرَقَةُ قَدْ كَرهَ عِبَادَةَ الْأَوْثَانِ وَطَلَبَ الدِّينَ فِى الْآفَاقِ وَقَرَأَ الْكُتُبَ وَكَانَتْ خَدِيْجَةُ تَسْئَلُهُ عَنْ أَمْرِ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ مَا أَرَاهُ إِلاَّ نَبِىّ هَذِه الَّذِى بَشَّرَ بِهِ مُوسَى وَعِيسَى . ترجمہ: ورقہ بتوں کی پوجا کو برا اور غلط سمجھتے تھے اور دین حق کی تلاش میں یہ مختلف علاقوں اور ملکوں میں پھرے اور انہوں نے کتابوں کا (یعنی ان کتابوں کا جو آسمانی کہی اور سمجھی جاتی تھی) مطالعہ کیا تھا، اور خدیجہؓ ان سے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھا کرتی تھیں تو وہ کہتے تھے کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس امت کے نبی ہوں گے جن کی بشارت حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؓ نے دی ہے۔ (الاصابہ ج ۶، ص ۳۱۸) اس سے معلوم ہوا کہ ورقہ بن نوفل کی اس خصوصیت کی وجہ سے کہ انہوں نے اپنی قوم کے شرک و بت پرستی والے مذہب سے بیزار ہو کر وعیسوی مذہب اختیار کر لیا تھا (اور اس طرح نبوت و رسالت کے پورے سلسلہ پر وہ ایمان لے آئے تھے) اور تورات انجیل وغیرہ کتب سماویہ کے عالم تھے اور ظاہر ہے کہ ان کی زندگی بھی عام اہل مکہ کی زندگی سے الگ قسم کی عائدانہ، زاہدانہ درویشانہ زندگی رہی ہو گی۔ (الغرض ان کی ان صفات و خصوصیات کی وجہ سے) ان کی چچا زاد بہن حضرت خدیجہؓ جو ایک نہایت سلیم الفطرت اور عاقلہ خاتون تھیں، ان کو ایک روحانی بزرگ سمجھتی تھیں اور ان سے ایک طرح کی عقیدت رکھتی تھیں اور غارحراء کے اس واقعہ سے پہلے بھی حضور ﷺ کے غیرم معمولی احوال (1) کا تذکرہ کر کے آپ ﷺ کے بارے میں ان کا خیال اور ان کی رائے دریافت کیا کرتی تھیں اور وہ جواب میں کہا کرتے تھے ما اراه الا نبى هذه الامة الذى بشر به موسى وعيسى (یعنی میرا گمان ہے کہ یہ اس امت کے وہ نبی ہوں گے جن کی بشارت حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ نے دی ہے)۔ پھر جب غار حرا کا یہ واقعہ ظہور میں آیا جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور حضور ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو بتلایا تو ان کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ وہ یہ پورا واقعہ حضور کی زبان مبارک سے ورقہ بن نوفل کو سنوائیں۔ ٍجوپہلے ہی سے آپ ﷺ کے نبی و رسول ہونے کا خیال ظاہر کرتے تھے .... یہاں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ کسی روایت میں اس کا ذکر بلکہ اشارہ بھی نہیں ہے کہ حضور نے ورقہ کے پاس جانے کی خواہش کی ہو بلکہ جیسا کہ حدیث میں صراحۃً بیان کیا گیا ہے حضرت خدیجہؓ ہی آپ ﷺ کو ان کے پاس لے کر گئیں۔ آگے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے پاس پہنچ کر حضرت خدیجہؓ ہی نے ان سے کہا کہ آپ اپنے ان بھتیجے (2) سے ان کی بات اور واردات سنئے! تو ورقہ نے حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے بھتیجے مجھے بتلاؤ کہ تم کیا دیکھتے ہو؟ تو آپ نے وہ سب بیان فرمایا جو غار حرا میں آپ ﷺ نے مشاہدہ فرمایا اور آپ ﷺ پر گزرا تھا، تو ورقہ ابن نوفل نے بغیر کسی تاویل اور تردد کے کہا کہ یہ فرشتہ جو غار حرا میں تمہارے پاس آیا اور جس کا پورا واقعہ تم نے ذکر کیا یہ وہی "ناموس" (یعنی وحی لانے والا خاص فرشتہ) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام و پیام لے کر اپنے پیغمبر موسیٰؑ پر بھی بھیجا تھا۔ یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ورقہ بن نوفل تو نصرانی یعنی عیسوی مذہب کے پیرو تھے پھر اس موقع پر انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کا نام چھوڑ کے حضرت موسیٰؑ کا نام کیوں لیا حالانکہ جبرائیل جس طرح موسیٰ علیہ السلام کی طرف بھیجے گئے تھے اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بھی بھیجے گئے تھے؟ ..... شارحین حدیث نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے اور جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی طرف بھی بھیجے جاتے تھے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مستقل شریعت نہیں لائے تھے، ان کی شریعت وہی تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ آئی تھی عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعض احکام میں جزوی تبدیلیاں فرمائی تھیں اور رسول اللہ ﷺ مستقل اور کامل شریعت لانے والے نبی و رسول تھے، اس لئے آپ کو موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ مشابہت تھی ..... قرآن مجید سورہ مزمل میں بھی فرمایا گیا ہے۔ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا..... بہرحال اس خاص وجہ سے ورقہ بن نوفل نے اس موقع پر جبرائیل امینؑ کے تعارف میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ آگے حدیث میں ہے کہ ورقہ بن نوفل نے پورے یقین کے ساتھ یہ بتلا کر کہ غار حرا میں آنے والے یہ فرشتے جبرائیل امینؑ تھے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر موسیٰ علیہ السلام (اور دوسرے نبیوں رسولوں) کے پاس بھی آیا کرتے تھے، حضور ﷺ کی نبوت کی واضح الفاظ میں تصدیق فرمائی اور ساتھ میں بڑی حسرت سے کہا کہ کاش میں اس وقت طاقتور پٹھا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو اس شہر مکہ سے نکالے گی (تو میں آپ ﷺ کا ساتھ دیتا اور جان کی بازی لگا کر آپ ﷺ کی مدد کرتا) ..... حضور ﷺ نے ورقہ سے یہ سن کر ازراہ تعجب پوچھا کہ کیا میری قوم مجھے اس شہر سے نکال دے گی؟ (آپ ﷺ کو تعجب اس لئے ہوا کہ اب تک اپنے کریمانہ اخلاق اور معصومانہ زندگی کی وجہ سے آپ ﷺ قوم میں انتہائی درجہ ہر دلعزیز تھے، آپ ﷺ کو الصادق الامین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اس لئے یہ بات فی الحقیقت قابل تعجب تھی کہ یہی قوم آپ کو کبھی شہر مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دے گی) ورقہ نے آپ ﷺ کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی وہ دعوت و تعلیم لے کر آیا ہے، جو تم لائے ہو (اور لاؤ گے) تو اس کی قوم اس کی دشمن ہو گئی ہے، تمہارے ساتھ بھی یہی ہو گا، تمہاری قوم کے لوگ تمہارے جانی دشمن ہو جائیں گے اور تم کو شہر چھوڑ کے نکل جانا ہو گا ..... غالب گمان یہ ہے کہ ورقہ بن نوفل نے یہ جو کچھ کہا قدیم آسمانی کتابوں کی پیشن گوئیوں اور اللہ کی طرف سے آنے والے نبیوں رسولوں کی تاریخ کی روشنی میں کہا۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو واقعات بیان فرمائے گئے ہیں، ان کی شہادت بھی یہی ہے۔ حدیث کے آخر میں ہے کہ ورقہ بن نوفل نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے مکرر کہا کہ اگر میں نے آپ ﷺ کا وہ زمانہ پایا جب آپ ﷺ قو م کو دین حق کی دعوت دیں گے اور قوم آپ ﷺ کی مخالف اور دشمن ہو جائے گی تو میں اپنے اس بڑھاپے اور معذوری کے باوجود آپ ﷺ کی اپنے امکان بھر مدد کروں گا ..... اس کے آگے روایت میں ہے کہ پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد یہ ورقہ بن نوفل وفات پا گئے ..... اور غار حرا کے اس واقعہ کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد کا سلسلہ بند رہا۔ (حدیث کے اصل مضمون کی توضیح و تشریح ختم ہوئی) حدیث سے متعلق چند امور کی وضاحت ۱۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے اور ایمان لانے والے ورقہ بن نوفل اور حضرت خدیجہؓ ہیں، لیکن یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ ﷺ کو دین حق کی طرف دعوت دینے کا حکم نہیں ہوا تھا اور ورقہ بن نوفل اسی زمانے میں اس حال میں انتقال فرما گئے کہ وہ صحیح عیسوی دین پر قائم تھے اور رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کر کے آپ ﷺ پر بھی ایمان لا چکے تھے، اس لحاظ سے ان کو اس امت کا اول مومن بھی کہا جا سکتا ہے ......پھر جب آپ ﷺ کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو جیسا کہ روایات سے معلوم سے معلوم ہوتا ہے، سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ، حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا جو آپ ﷺ کی نبوت پر پہلے بھی ایمان لا چکی تھیں۔ ۲۔ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے تین دفعہ انتہائی زور زور سے حضور ﷺ کا گلوئے مبارک دبایا (جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے) شارحین اور علمائے کرام نے اس کی مختلف توجیہیں بیان فرمائی ہیں۔ اس عاجز راقم سطور کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ اس طرح انتہائی زور سے گلا دبانے سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ کچھ دیر کے لئے آپ کی توجہ ہر طرف سے اپنی ذات کی طرف سے بھی ہٹ کر صرف اپنے رب کریم کی طرف ہو جائے جب کسی عارف باللہ اور خدا آشنا بندے کا اس طرح گلا گھونٹا جائے گا تو یقیناً اس کی تمام تر توجہ صرف اپنے پروردگار کی طرف ہو جائے گی اور اس کا احساس و شعور بڑی حد تک اس عالم سے کٹ کر ملا اعلیٰ سے جڑ جائے گا، اس وقت حضور ﷺ پر جو وحی پہلی دفعہ القا کی جانے والی تھی، اس کے لئے اس کی ضرورت تھی، بالفاظ دیگر اس عمل کے ذریعہ حضور کی روح و قلب میں وہ قوت پیدا کرنی تھی، جو اس وحی الہی کا تحمل کر سکے جس کو قرآن پاک میں قولاً ثقیلاً فرمایا گیا ہے ..... بعد میں بھی نزول وحی کے وقت حضور کا جو حال ہوتا تھا، وہ حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے، سخت سردی کے موسم میں جب آپ ﷺ پر وحی کا نزول ہوتا تو آپ کو پسینہ پھوٹ پڑتا۔ روایات میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اونٹنی پر سوار ہونے کی حالت میں اگر وحی نازل ہوئی تو اونٹنی بیٹھ گئی ..... الغرض اس عاجز کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس سخت دباؤ کا مقصد یہی تھا کہ آپ ﷺ اس وحی کا تحمل فرما سکیں جو پہلی دفعہ القا کی جا رہی تھی۔ واللہ اعلم۔ ۳۔ حدیث میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ غار حرا سے جب گھر واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ کا دل لرز رہا تھا اور جسم مبارک پر بھی اس کا اثر تھا اور حضرت خدیجہؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا "لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي" (مجھے تو اپنی جان کا خطرہ ہو گیا تھا) آپ ﷺ کا یہ حال بھی حضرت جبرائیل کے اس گلا دبانے کا اور کلام الہی کے بار گراں کا بھی نتیجہ تھا، یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و حکمت ہے کہ ہم پر قرآن پاک کی تلاوت کا کوئی بوجھ نہیں پڑتا ورنہ اس کی شان تو خود اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے: لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ (سورۃ الحشر آیت نمبر: ۲۱) ترجمہ: اگر یہ قرآ ہم پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔
Top