معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1983
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ، وَلاَ: لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلاَ: أَلَّا صَنَعْتَ " (رواه البخارى ومسلم)
آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، آپ ﷺ نے کبھی مجھے اف کا کلمہ بھی نہیں فرمایا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خود آپ ﷺ کے اور ساری کائنات کے حالق و پروردگار نے اپنی کتاب مبین قرآن مجید میں فرمایا ہے "إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (1) یعنی اے ہمارے پیغمبر (ﷺ) آپ اخلاق کے بلند و برتر مقام پر ہیں، احادیث و سیرت کی روایات میں آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا جو بیان ہے، وہ اسی مختصر قرآنی بیان کی گویا تشریح و تفسیر ہے "معارف الحدیث جلد دوم" میں کتاب الاخلاق قریباً دو سو صفحات پر ہے اس میں اخلاق سے متعلق آنحضرتص کی تعلیمات و ارشادات اور باب اخلاق کے سلسلہ کے آپ ﷺ کے بعض اہم واقعات بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ شروع میں وہ حدیثیں بھی درج کی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں اور اللہ کے نزدیک اخلاق کا کیا درجہ اور مقام ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے آنحضرت ﷺ کے چند مختصر ارشادات یہاں بھی ناظرین کی یاد دہانی کے لئے ذکر کر دئیے جائیں ..... ارشاد فرمایا: إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا (2) ترجمہ: تم لوگوں میں اچھے اور بہتر وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: إِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مكارمَ الْأَخْلَاقِ (3) ترجمہ: میں خاص اس کام کے لئے بھیجا گیا ہوں کہ اپنی تعلیم اور عمل سے کریمانہ اخلاق کی تکمیل کر دوں۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: إِنَّ أَثْقَلَ شَيْءٍ يُوضَعُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُلُقٌ حَسَنٌ. ترجمہ: قیامت کے دن مومن کی میزان اعمال میں جو سب سے زیادہ وزنی چیز رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔ آپ ﷺ نے عمر شریف کے آخری دور میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کو داعی و معلم اور حاکم بنا کر یمن بھیجا تو آخری نصیحت فرمائی: أَحْسِنْ خُلُقَكَ لِلنَّاسِ. (1) ترجمہ: دیکھو سب لوگوں سے اچھے اخلاق کا برتاؤ کرنا۔ اس تمہید کے بعد ذیل میں چند وہ حدیثیں پڑھئے جن میں صحابہ کرام نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان فرمایا ہے ..... اللہ تعالیٰ ہم سب کو زندگی کے اس شعبہ میں بھی آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا کامل اتباع نصیب فرمائے۔ تشریح ..... عربی زبان میں اف کا کلمہ کسی بات پر ناگواری و ناراضی اور غصہ کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے ..... رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو حضرت انسؓ کی عمر آٹھ (۸) سال (اور ایک دوسری روایت کے مطابق دس (۱۰) سال) تھی، ان کی والدہ ام سلیم ؓ نے جو بڑی مخلص مومنہ صالحہ تھیں اپنے ان بیٹے کو حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا اور گویا آپ ﷺ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور پھر یہ حضور ﷺ کی وفات تک پورے دس (۱۰) سال آپ ﷺ کی خدمت میں رہے، اس حدیث میں انہوں نے حضور کے حسن اخلاق اور نرم مزاجی کے بارے میں اپنا یہ ذاتی تجربہ بیان فرمایا ہے کہ دس (۱۰) سال کی خادمانہ مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے ناراضی اور غصہ کے اظہار کے لئے اف کا کلمہ بھی فرمایا ہو، اسی طرح کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کام کے کرنے پر آپ ﷺ نے ڈانٹا ہو کہ یہ کام تم نے کیوں کیا، یا کسی کام کے نہ کرنے پر ڈانٹا ہو کہ تم نے یہ کام کیاں نہیں کیا ..... مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی عادت شریف اور آپ ﷺ کا عام رویہ عفو و درگزر کا تھا ..... حضرت انس ؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے جس کو بیہقی نے "شعب الایمان" میں روایت کیا ہے کہ: خَدَمْتُهُ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا لَامَنِي عَلَى شَيْءٍ أَتَى فِيهِ عَلَى يَدَيَّ فَإِنْ لَامَنِي لَائِمٌ مِنْ أَهْلِهِ قَالَ: «دَعُوهُ فَإِنَّهُ لَوْ قُضِيَ شَيْءٌ كَانَ» (مشكوة المصابيح) ترجمہ: میں نے دس (۱۰) سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، اگر کبھی میرے ہاتھ سے کوئی چیز ضائع یا خراب ہو گئی تو آپ ﷺ نے اس پر بھی مجھے ملامت نہیں فرمائی، اور اگر میری اس غلطی پر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی ملامت کرتا تو آپ فرما دیتے تھے کہ جب بات مقدر ہو چکی تھی وہ ہونی ہی تھیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آپ کا یہ رویہ ذاتی معاملات میں تھا، لیکن جیسا کہ دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود کے بارے میں آپ ﷺ کوئی رو رعایت نہیں فرماتے تھے۔
Top