معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1995
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى المِنْبَرِ فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ» فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا، فَعَجِبْنَا لَهُ، وَقَالَ النَّاسُ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ، يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ المُخَيَّرَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا. (رواه البخارى ومسلم)
وفات اور مرض وفات
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے (صحابہ کرامؓ کو خطاب کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی بہاروں اور نعمتوں میں سے جس قدر چاہے لے لے، یا (آخرت کی) جو نعمتیں اللہ کے پاس ہیں، ان کو لے لے ..... تو اس بندے نے (آخرت کی وہ نعمتیں) پسند کر لیں جو اللہ کےپاس ہیں ..... یہ سن کر ابو بکرؓ رونے لگے اور انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہم اور ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر سے قربان ہوں ..... (حدیث کے راوی ابو سعید خدری کہتے ہیں) کہ ہم کو ابو بکرؓ کے اس حال اور اس بات پر تعجب ہوا اور لوگوں نے آپس میں کہا کہ ان بزرگوار کو دیکھو! حضور ﷺ تو اس بات کی خبر دے رہے ہیں، کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا تا کہ یا تو وہ دنیا کی بہاروں نعمتوں میں سے جس قدر چاہے پسند کرے یا آخرت کی وہ نعمتیں جو اللہ کے پاس ہیں پسند کرے ..... اور یہ بزرگوار ابو بکر کہہ رہے ہیں کہ "ہم اور ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں" (آگے ابو سعید خدری فرماتے ہین کہ جب جلدی ہی حضور ﷺ وفات پا گئے تو معلوم ہو گیا کہ) آپ ﷺ ہی وہ بندے تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے وہ اختیار دیا تھا (اور معلوم ہو گیا کہ) ابو بکرؓ علم و دانش اور فرواست میں ہم سب سے فائق تھے (انہوں نے وہ حقیقت سمجھ لی جو ہم میں سے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر رونق افروز ہو کر یہ خطاب کب فرمایا تھا، صاحب مشکوٰۃ نے الفاظ کی کچھ کمی بیشی کے ساتھ سنن دارمی کے حوالہ سے۔ اس خطبہ کے متعلق حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت نقل کی ہے اس میں صراحت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ خطاب مرض وفات ہی میں فرمایا تھا اور یہ حضرت کا آخری خطاب تھا، اس کے بعد حض ﷺ ر ﷺ نے مسجد شریف میں کوئی خطاب نہیں فرمایا یہاں تک کہ وصال فرما گئے۔ اور صحیح مسلم کی ایک روایت سے (جس کے راوی حضرت جندب ہیں) معلوم ہوتا ہے کہ وفات سے دن پہلے (یعنی جمعرات کے دن) آپ نے یہ خطاب فرمایا تھا۔ صاحب مشکوٰۃنے "باب وفات النبی ﷺ " میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے یہ حدیث صرف اتنی ہی نقل کی ہے جو یہاں درج کی گئی، لیکن صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں یہ حدیث حضرت ابو بکر ؓ، کے فضائل کے باب میں بھی نقل کی گئی ہے اور دونوں میں یہ اضافہ ہے کہ حضور نے اسی خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ: «إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلًا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ - أَوْ مَوَدَّتُهُ - لَا يَبْقَى بَابٌ فِي الْمَسْجِدِ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ» ترجمہ: یہ حقیقت ہے کہ لوگوں میں سے جس شخص نے میرے ساتھ سب سے زیادہ حسن سلوک کیا اپنے مال سے اور اپنی صحت (یعنی خادمانہ رفاقت) سے وہ ابو بکر ہے اور اگر میں اپنے پروردگار کے سوا کسی کو خلیل (یعنی جانی دوست) بناتا تو ابو بکر کو بناتا۔ لیکن اسلامی اخوت و مودت کا خاص تعلق ابو بکرے سے ہے، (اسی کے ساتھ آپ نے ہدایت فرمائی کہ) مسجد میں کھلنے والے سب دروازے بند کر دئیے جائیں سوائے ابو بکر کے دروازے کے (بس اسی کو باقی رکھا جائے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اس خطاب میں (جو وفات سے صرف پانچ دن پہلے آپ ﷺ نے فرمایا تھا اور جو مسجد شریف میں آپ کی زندگی کا آخری خطاب تھا) اپنے سفر آخرت کے قریب ہونے کی طرف اشارہ فرمانے کے ساتھ یہ بھی واضح فرما دیا تھا کہ امت میں جو مقام و مرتبہ ابو بکر کاس ہے، وہ کسی دوسرے کا نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ فرما کر کہ مسجد میں سب دروازے دبند کر دئیے جائیں صرف ایک دروازہ ابو بکر کا باقی رہے یہ اشارہ بھی فرما دیا تھا کہ میرے بعد ابو بکر ہی کا وہ تعلق مسجد سے رہے گا جو میرا تھا (ملحوظ رہے کہ عہد نبوت کی مسجد نبوی ہماری مسجدوں کی طرح صرف نماز کی مسجد نہیں تھی بلکہ وہ تمام کارہائے نبوت کا مرکز تھا)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے اس خطاب میں اور بھی چند اہم ہدایات فرمائی تھیں۔
Top