معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1999
عَنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَبَا حَسَنٍ، " كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا "، فَأَخَذَ بِيَدِهِ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ العَصَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّي لَأَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ المَوْتِ، اذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْهُ فِيمَنْ هَذَا الأَمْرُ، إِنْ كَانَ فِينَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا عَلِمْنَاهُ، فَأَوْصَى بِنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّا وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَاهَا لاَ يُعْطِينَاهَا النَّاسُ بَعْدَهُ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه البخارى)
وفات اور مرض وفات
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات کے ایام میں (ایک دن) حضرت علی مرتضیٰ ؓ، حضور ﷺ کے پاس سے باہر نکل کر آئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آج رسول اللہ ﷺ کا حال کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ الحمدللہ آج حالت اچھی ہے (مرض میں افاقہ ہے) تو (ان کے چچا) حضرت عباس ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ کے ان سے کہا کہ خدا کی قسم تین دن کے بعد تم دوسروں کے تابع اور محکوم ہو جاؤ گے، میں محسوس کر رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ جلد ہی وفات پا جائیں گے ..... موت کے قریبی وقت میں عبدالمطلب کی اولاد کے چہروں کی جو کیفیت ہوتی ہے میں اس کو پہنچانتا ہوں (اس پہچان اور تجربہ کی بنا پر میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ کا وقت قریب ہی ہے) تم ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو، ہم آپ ﷺ سے دریافت کریں کہ (آپ ﷺ کے بعد) یہ کام (یعنی کار خلافت و نیابت) کس کے پاس رہے گا؟ .... اگر ہمارے (یعنی اہل خاندان) کے سپرد ہونے والا ہو گا تو ہم کو معلوم ہو جائے گا اور اگر ہمارے علاوہ کسی کے سپرد ہونے والا ہو گا تو ہم کو اس کا علم ہو جائے گا اور آپ ہمارے بارے میں وصیت فرما دیں گے ..... تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر ہم نے خلافت کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا اور آپ ﷺ نے ہم کو منع فرمایا دیا (یعنی خلافت ہم کو سپرد نہ کرنے کا فیصلہ فرما دیا) تو خدا کی قسم (آپ کے منع فرما دینے کے بعد) لوگ ہم کو خلافت نہ دیں گے تو میں تو خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ سے خلافت کا سوال نہیں کروں گا۔ (صحیح بخاری)

تشریح
یہ بات تو حدیث کے مضمون ہی سے معلوم ہو جاتی ہے کہ جو واقعہ اس میں بیان ہوا، وہ آنحضرت ﷺ کے مرض وفات کے آخری ایام کا ہے ..... اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے "فتح الباری" میں اس حدٰث کی شرح میں ابن اسحاقؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ امام زہری جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان کا بیان ہے کہ یہ خاص اسی دن صبح کا واقعہ ہے جس دن سہ پہر کو آپ ﷺ نے وفات فرمائی۔ یہ بات بھی حدیث ہی سے معلوم ہو جاتی ہے کہ جس دن کا واقعہ اس میں بیان ہوا ہے اس کی صبح کو حضور ﷺ کی حالت بہ ظاہر ایسی اچھی تھی کہ حضرت علی ؓ نے (جو آپ کے خاص تیمار داروں میں تھے) اپنے احساس اور اندازہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے ساتھ آپ ﷺ کے بارے میں اپنے اطمینان کا اطہار کیا تھا اور دوسرے لوگوں کو مطمئن کرنا چاہا تھا .... لیکن ان کے (اور خود حضور ﷺ کے بھی چچا) حضرت عباس ؓ (جو خاندان کے بوڑھے بزرگ اور زیادہ تجربہ کار تھے) اس کے برعکس حضور ﷺ کے چہرہ انور میں وہ آثار محسوس کر لئے تھے، جن سے ان کو اندازہ اور گویا یقین ہو گیا تھا کہ آپ جلدی ہی اس دنیا دار فانی سے دار البقاء آخرت کی طرف رحلت فرمانے والے ہیں، اسی بنا پر انہوں نے حضرت علیؓ سے (جو حضور ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ داماد بھی تھے) وہ بات کہی جو حدیث میں صراحت اور صفائی کے ساتھ ذکر کی گئی ہے اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے .... ہمارے زمانے کے ان لوگوں کو جو خلافت نبوت کو بھی بادشاہت اور حکومت ہی سمجھتے ہیں حضرت علیؓ کے اس جواب اور طرز عمل سے شبہ ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں بادشاہت اور حکومت کی طمع تھی (اور بعض ناآشنا یا ان حقیقت نے اس کا اظہار بھی کیا ہے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلافت نبوت دنیوی بادشاہت اور حکومت سے بالکل مختلف چیز ہے (ان دونوں میں ویسا ہی فرق ہے جیسا کہ دین اور دنیا میں فرق ہے) خلافت نبوت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ دین حق کی دعوت و اشاعت، امت کی تعلیم و تربیت، اعلاء کلمۃ الحق، جہاد و قربانی، اور نظام عدل کے قیام کا جو کام وحی الہٰی کی رہنمائی میں نبی و رسول ہونے کی حیثیت سے جس طریق و منہاج پر اور جن اخلاقی اصولوں کی پابندی کے ساتھ انجام دے رہے تھے، وہی کام آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے جانشین اور قائم مقام کی حیثیت سے، اسی طریقہ و منہاج پر اور انہی اصولوں کی پابندی کے ساتھ کتاب و سنت اور اسوہ نبوی کی رہنمائی میں انجام دیا جائے ..... اسی کو خلافت نبوت اور خلافت راشدہ کہا جاتا ہے .... ظاہر ہے کہ یہ "دنیوی بادشاہت" کی طرح پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں بھرا بستر ہے ..... اس کی طمع اور طلب اور بندہ خدا کے لئے جو امید رکھتا ہو کہ اللہ کی مدد و توفیق سے وہ اس کا حق ادا کر سکے گا، ہرگز مذموم نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی سعادت ہے ..... حضرت علی مرتضیٰ ؓ، کو توقع تھی کہ اگر قردہ فال میرے نام پر آیا اور یہ خدمت عظمیٰ میرے سپرد ہوئی تو ان شاء اللہ بتوفیق خداوندی میں اس کو کما حقہ، انجام دے سکوں گا، اس لئے اس کی طمع اور طلب ایک اعلیٰ درجہ کی سعادت کی طلب تھی ..... چنانچہ ازل سے طے شدہ ترتیب کے مطابق جب پہلے تین خلفائے راشدین کے بعد آپ رسول اللہ ﷺ کے چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ نے کتاب و سنت کی رہنمائی میں اور رسول اللہ ﷺ کے قائم کئے ہوئے اصولوں کی پابندی کے ساتھ کار خلافت انجام دیا، لیکن چونکہ آپ کا پورا دور خلافت فتنوں کا زمانہ تھا، (جن میں امت حضرت عثمانؓ کی انتہائی مظلومانہ شہادت کی پاداش میں مبتلا کر دی گئی تھی) اس لئے آپ کا پورا وقت اور تمام تر قوت و صلاحیت فتنوں کی آگ بجھانے میں صرف بنوئی اور مثبت تعمیر کا آپ کو وقت ہی نہ ملا۔ وكان ذالك قدرا مقدورا
Top