معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2001
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى. قُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ: «ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا» . فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ. فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ. فَقَالَ: «دَعُونِي ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ» . فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ: فَقَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» . وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا مِنْ قَول سُلَيْمَان. (رواه البخارى ومسلم)
وفات اور مرض وفات
(سعید بن جبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ (مائے) جمعرات کا دن اور کیسا تھا جمعرات کا وہ دن (یہ کہہ کر) وہ ایساے روئے کہ ان کے آنسوؤں سے فرش زمین کے سنگریزے تر ہو گئے۔ میں نے عرض کیا کہ اے ابن عباسؓ کیا تھا وہ جمعرات کا دن؟ (جس کو آپ اس طرح یاد کر رہے ہیں) تو انہوں نے بیان کیا کہ (جمعرات کا دن تھا) کہ رسول اللہ ﷺ کی بیماری بڑھ گئی تو (اس حالت میں) آپ نے فرمایا کہ کتف (شانہ کی ہڈی) لے آؤم میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھا دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے، تو اس معاملہ میں (ان لوگوں میں جو اس وقت آپ ﷺ کے پاس حاضر تھے) اختلاف رائے ہو گیا ..... اور نبی کے پاس تنازعہ اور اختلاف نہ ہونا چاہئے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ﷺ ہم کو چھوڑ رہے ہیں (داغ مفارقت دے رہے ہیں) آپ سے دریافت کرو (کیا فرماتے ہیں اور کیا عرض ہے؟) پھر لوگ آپ ﷺ سے بار بار اس بارے میں عرض کرنے لگے تو اپ ﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو، میں جس شغل اور جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے، جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ..... پھر آپ ﷺ نے تین باتوں کا حکم فرمایا ایک یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دیا جائے اور (حکومتوں یا قبیلوں کی طرف سے آنے والے) وفود یا قاصدوں کے ساتھ اسی طرح حسن سلوک کیا جائے جس طرح میں کیا کرتا تھا ..... سعید بن جبیرؓ سے اس حدیث کے روایت کرنے والے راوی سلیمان کہتے ہیں کہ سعید بن جبیر نے تو تیسری بات بیان ہی نہیں کی یا میں بھول گیا .... (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ایک ہی واقعہ سے متعلق حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے یہ دو بیان ہیں ان میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے صرف بعض اجزا کی کمی زیادتی کا فرق ہے، بظاہر اس کا سبب یہ ہے کہ جب حضرت ابن عباسؓ نے یہ واقعہ عبیداللہ بن عبداللہ کے سامنے بیان کیا تو صرف وہ اجزاء بیان کئے جو پہلی روایت میں ذکر کئے گئے ہیں اور اس وقت حضور ﷺ کے پاس حضرت عمرؓ کا ہونا اور انہوں نے جو فرمایا تھا اس کا بھی ذکر کیا اور جب سعید بن جبیرؓ کے سامنے بیان کیا تو اس میں حضرت عمرؓ کا تو کوئی ذخر نہیں کیا لیکن کئی باتیں وہ بیان کیں جو پہلے بیان میں ذکر نہیں کی تھیں .... اور ایسا بکثرت ہوتا ہے۔ دونوں روایتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو پورا واقعہ اس طرح سامنے آتا ہے .... کہ جمعرات کا دن تھا، (یعنی وفات سے پانچ دن پہلے، کیوں کہ یہ بات قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہے کہ حضور ﷺ کی وفات دو شنبہ کو ہوئی) تو اس جمعرات کو آنحضرت ﷺ کے مرض میں شدت ہو گئی، بخار بہت تیز ہو گیا اور تکلیف بہت بڑھ گئی، اس وقت آپ ﷺ کے پاس چند حضرات تھے ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے، اسی حالت میں حض ﷺ ر ﷺ نے فرمایا کہ لکھنے کا سامان لے آؤ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے لئے ایک تحریر لکھوا دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ (صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ "اِيْتُوْنِىْ بِالْكَتَفِ وَالدَّاوَاةِ" یعنی شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ) (1) اس موقع پر حضرت عمرؓ نے وہاں موجود دوسرے لوگوں سے کہا کہ اس وقت حضور ﷺ کو بہت تکلیف ہے، آپ ﷺ ہی کے ذریعہ آیا ہوا قرآن مجید تمہارے پاس موجود ہے، ہماری تمہارے ہدایت کے لئے اور ہر طرح کی ضلالت اور گمراہی سے بچانے کے لئے اللہ کی وہ کتاب کافی ہے (جیسا کہ خود قرآن میں بارہا فرمایا گیا ہے) حاضرین میں اس بارے میں اختلاف رائے ہو گیا، کچھ حضرات نے کہا کہ لکھنے کا سامان لانا چاہئے تا کہ حضور ﷺ جو لکھوانا چاہتے ہیں وہ لکھا جائے اور کچھ حضرات نے وہ کہا جو حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ اص سخت تکلیف کی حالت میں حضور ﷺ کو کچھ لکھوانے کی زحمت نہ دی جائے، اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت قرآن مجید کافی ہے..... اسی موقع پر بعض حضرات نے کہا "مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ" (حضور ﷺ کا کیا حال ہے، کیا آپ ﷺ جدائی اختیار فرما رہے ہیں ہم کو چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ سے دریافت کرو) پھر لوگ اس بارے میں بار بار آپ سے عرض کرتے رہے، اس سے آپ کی توجہ الی اللہ اور اس وقت کی خاص قلبی کیفیت میں خلل پڑا، آپ نے فرمایا اس وقت تم لوگ مجھے چھوڑ دو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہ کرو میں جس شغل اور جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔ (یعنی میں اس وقت اپنے رب کریم کی طرف متوجہ ہوں اس کے حضور میں حاضر ہونے کی تیاری کر رہا ہوں اور تم مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو مجھے چھوڑ دو .... حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (کہ اس کے بعد آہپ نے اسی مجلس میں تین باتوں کا حکم فرمایا۔ ایک یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ حکومتوں یا قبیلوں کی طرف سے آنے والے وفود اور قاصدوں کے ساتھ اسی طرح حسن سلوک کیا جائے (ان کو مناسب تحائف دئیے جائیں) جیسا کہ میرا طرز عمل رہا ہے .... حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس حدیث کے روایت کرنے والے سعید بن جبیر کے شاگرد سلیمان نے تین باتوں میں سے یہی دو باتیں بیان کیں، اور تیسری بات کے بارے میں کہا کہ یا تو سعید بن جبیر نے وہ بیان ہی نہیں کی تھی یا میں بھول گیا ہوں۔ یہ ہے پورا واقعہ جو "حدیث قرطاس" کے نام سے معروف ہے، اس میں چند باتیں خاص طور سے قابل لحاظ اور وضاحت طلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ واقعہ جمعرات کے دن کا ہے، اس کے پانچویں دن دوشنبہ تک آنحضرت ﷺ اس دنیا میں رہے، ان دنوں میں آپ نے وہ تحریر نہیں لکھوائی بلکہ اس کے لکھوانے کا کسی دن ذکر بھی نہیں فرمایا، یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس تحریر کے لکھانے کا آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہیں ہوا تھا، بلکہ آپ ﷺ کو بطور خود ہی اس کا خیال ہوا تھا اور بعد میں خود آپ کی رائے اس کے لکھانے کی نہیں رہی .... اگر اس کے لکھوانے کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہوتا یا آپ کی رائے میں تبدیلی نہ ہوئی ہوتی اور آپ کے نزدیک گمراہی سے امت کی حفاظت کے لئے اس کا لکھانا ضروری ہوتا تو ان پانچ دنوں میں آپ ﷺ اس کو ضرور لکھواتے اور اس کا نہ لکھوانا (معاذ اللہ) فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی (حاشا، ثم حاشا) اور یہ بالکل اسی طرح ہوا جس طرح آپ ﷺ نے اسی مرض وفات کے بالکل ابتدا میں (1) حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے بارے میں تحریر لکھوانے کا اور اس کے لئے حضرت ابو بکرؓ اور ان کے صاحب زادے عبدالرحمن کو بلوانے کا بھی ارادہ فرمایا تھا۔ لیکن بعد میں خود آپ نے اس کو غیر ضروری سمجھ کر اس کے لکھانے کا خیال چھوڑ دیا ..... اور فرمایا کہ "يَابَى اللهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلَّا اَبَا بَكْرٍ" تو سمجھنا چاہئے کہ جمعرات کے دن کے اس واقعہ میں بھی ایسا ہوا اور خود حضور ﷺ نے اس تحریر کا لکھانا غیر ضروری سمجھ کر اس کے لکھانے کا ارادہ ترک فرما دیا۔ اس حدیث قرطاس کے بارے میں ایک دوسری قابل لحاظ بات یہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے تیز بخار اور شدید تکلیف کی حالت میں تحریر لکھوانے کے لئے لکھنے کا سامان لانے کے لئے فرمایا، تو حضرت عمرؓ نے جو اس وقت حاضر خدمت تھے، حضور ﷺ سے تو کچھ عرض نہیں کیا البتہ حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے ان کو رسول اللہ ﷺ کی اس وقت کی غیر معمولی حالت اور تکلیف کی شدت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان سے کہا کہ اس وقت حضور ﷺ کو سخت تکلیف ہے اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس حالت میں ہم لوگوں کو کچھ لکھوانے کی زحمت حضور ﷺ کو نہیں دینا چاہئے، خود قرآن مجید کے نصوص اور حضور ﷺ کی تعلیم و تربیت سے یہ یقین ان کے اندر پیدا ہو گیا تھا کہ انسانی دنیا کی ہدایت اور ہر قسم گمراہی اور ضلالت سے حفاظت کے لئے رسول اللہ ﷺ ہی کے ذریعہ آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت قرآن مجید کافی ہے، اس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ" اور "تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ" اور "تَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ" اور ابھی"حجة الوداع" میں یہ آیت نازل ہو چکی ہے"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي" ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان فرما دیا ہے کہ انسانی دنیا کی ہدایت کے لیے جو کچھ بتلانا ضروری تھا وہ قرآن میں بیان فرما دیا گیا، اس سلسلہ کی کوئی ضروری بات بیان کرنے سے نہیں چھوڑی گئی ہے۔ دین یعنی ضابطہ حیات و ہدایت بالکل مکمل ہو گیا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو حضور ﷺ کو کچھ لکھانے کی زحمت اس تکلیف کی حالت نہ دینی چاہئے قرآن آپ لوگوں کے پاس موجود ہے، اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہماری آپ کی ہدایت کے لئے اور ہر قسم کی ضلالت اور گمراہی سے حفاظت کے لئے کافی ہے (عِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُكُمْ كِتَابُ اللهِ) جیسا کہ عرض کیا گیا اس مجلسی گفتگو کے بعد حضور ﷺ پانچ دن تک اس دنیا میں رہے اور وہ تحریر نہیں لکھوائی، بلکہ اس کے بعد کبھی اس کا ذکر بھی نہیں فرمایا ..... آپ کے اس طرز عمل نے حضرت عمرؓ کی اس رائے کی تصویب و تائید فرما دی۔ بلاشبہ یہ واقعہ حضرت عمرؓ کے عظیم فضائل و مناقب میں سے ہے۔ شارحین حدیث نے عام طور سے یہی سمجھا اور یہی لکھا ہے۔ اس حدیث قرطاس کے سلسلہ میں ایک تیسری قابل لحاظ بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کی اس روایت میں (جو صحیحین کے حوالہ سے یہاں درج کی گئی ہے) اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضور ﷺ نے لکھنے کا سامان لانے کا حکم کس کو دیا تھا۔ لیکن اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں مسند احمد کے حوالہ سے خود حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی روایت نقل کی ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لکھنے کا سامان لانے کا حکم انہی کو دیا تھا خود حضرت علی مرتضی کا بیان ہے کہ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ آتِيَهُ بِطَبَقٍ (اَىْ كَتْفٍ) يَكْتُبُ فِيهِ مَا لَا تَضِلُّ أُمَّتُهُ مِنْ بَعْدِهِ. (فتح البارى جز اول ص 106 طبع انصارى دهلى 1304ه) ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو حکم فرمایا تھا کہ میں طبق (یعنی کتف) لے آؤں تا کہ آپ ایسی تحریر لکھوا دیں جس کے بعد آپ کی امت گمراہ نہ ہو۔ یہ معلوم ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ، لکھنا جانتے تھے، ان کو لکھنے کا سامان لانے کے لئے حکم فرمانے کا مطلب بظاہر یہی تھا کہ وہ لکھنے کا سامان لے آئیں اور حضور ﷺ جو لکھوانا چاہتے ہیں وہ اس کو لکھیں ..... اور یہ بات بطور واقعہ معلوم اور مسلم ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ نے بھی وہ تحریر نہیں لکھی ..... یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ حضرت عمرؓ کی طرح انہوں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ حضور ﷺ اس شدید تکلیف کی حالت میں کچھ لکھوانے کی زحمت نہ فرمائیں اور غالباً ان کی رائے بھی یہی ہوئی کہ امت کی ہدایت اور ہر قسم کی ضلالت سے حفاظت کے لئے کتاب اللہ کافی ہے۔ اس حدیث میں ایک اور وضاحت طلب بات یہ ہے کہ سعید بن جبیر کی مندرجہ بالا روایت کے مطابق جب حضور ﷺ نے لکھنے کا سامان لانے کا حکم فرمایا تو بعض لوگوں نے کہا "مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ" اس کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے یہ صورت حال پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب حضور ﷺ نے بیماری کی شدت اور سخت تکلیف کی حالت میں بطور وصیت ایسی تحریر لکھوانے کا ارادہ ظاہر فرمایا جس کے بعد آپ کی امت کبھی گمراہ نہ ہو تو بعض حضرات کو محسوس ہوا کہ شاید حضور ﷺ کا سفر آخرت کا وقت قریب آ گیا ہے، اس وجہ سے بطور وصیت ایسی تحریر لکھوانے کا ارادہ فرما رہے ہیں، یہ لوگ اس احساس سے سخت مضطرب اور بےچین ہو گئے اور انہوں نے اس اضطراب اور بےچینی کی ھالت میں کہا "مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ" (حضور ﷺ کا کیا حال ہے، کیا آپ ﷺ جدائی اختیار فرما رہے ہیں، ہم کو چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ ﷺ سے دریافت کیا جائے) اس میں لفظ هجر ہجر سے مشتق ہے جس کے معنی جدائی اختیار کرنے اور چھوڑ کے جانے کے ہیں ..... یہ لفظ اسی معنی میں اردو میں بھی مستعمل ہے، "وصل" کے مقابلہ میں "هجر" بولا جاتا ہے اور ہجرت کے معنی ترک وطن کے ہیں .... بعض حضرات نے اس کو هجر سے مشتق سمجھا۔ جس کے معنی ہیں بیمار آدمی کا بےہوشی کی حالت میں بہکی بہکی باتیں کرنا۔ جس کو ہذیان کہا جاتا ہے، اس صورت میں حدیث کے اس جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ حضور ﷺ کچھ لکھوانے کے لئے جو فرما رہے ہیں کیا یہ ہذیان ہے؟ آپ سے دریافت کرو ..... ظاہر ہے کہ یہ مطلب کسی طرح درست نہیں ہو سکتا، کیوں کہ جو مریض بےہوشی کی حالت میں بہکی بہکی باتیں کرتا ہو وہ ایسے حال میں نہیں ہوتا کہ اس سے کچھ دریافت کیا جائے .... الغرض "اسْتَفْهِمُوهُ" کا لفظ اس کا قرینہ ہے کہ ہجر کا لفظ هُجر سے مشتق نہیں ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ "لکھنے کا سامان لے آؤ میں ایک تحریر لکھوا دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے، یہ ہرگز ایسی بات نہیں تھی جس کے بارے میں کسی کو ہذیان کا شبہ بھی ہو۔ اگرچہ أَهَجر کو استفہام انکاری قرار دے کر یہ معنی بھی بن سکتے ہیں، لیکن واقعہ یہی ہے کہ یہاں اس لفظ کا ہذیان کے معنی میں ہونا بہت مستبعد ہے۔ حدیث کے اس جملہ "أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ" کے بارے میں یہ بات بھی خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ اس کے کہنے والے حضرت عمرؓ نہیں ہیں، یہ بات کچھ دوسرے حضرات نے کہی تھی جن کے نام بھی حدیث میں مذکور نہیں ہیں بلکہ فقالوا کا لفظ ہے (یعنی کچھ لوگوں نے کہا) شیعہ مصنفین حضرت عمرؓ کو لعن طعن کا نشانہ بنانے کے لئے یہ جملہ زبردستی ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ کے اس ارشاد کو ہذیان کہا (معاذ اللہ) حالانکہ اہل سنت کی حدیث کے کسی معتبر کتاب میں کوئی روایت نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ بات حضرت عمرؓ نے فرمائی تھی .... انہوں نے اس موقع پر وہی فرمایا تھا جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مندرجہ پہلی روایت میں ذکر کیا گیا ہے (عِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُكُمْ كِتَابُ اللهِ) ہاں "أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ" بھی بعض صحابہ کرامؓ ہی نے کہا تھا، لیکن اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا اور وہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے عشق و محبت کی دلیل ہے۔ شارحین حدیث نے اس حدیث کی شرح میں اس پر بھی گفتگو کی ہے کہ آپ نے جو فرمایا تھا کہ "لکھنے کا سامان لے آؤ میں تمہارے لئے ایسی تحریر لکھوا دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے" ..... تو آپ کیا لکھوانا چاہتے تھے؟ اس سلسلہ میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ سب قیاسات میں ..... شیعہ حضرات کا دعویٰ ہے کہ حضور ﷺ حضرت علیؓ کے لئے خلافت نامہ لکھوانا چاہتے تھے؟ جو حضرت عمرؓ کی مداخلت کی وجہ سے نہیں لکھا جا سکا لیکن واقعہ یہ ہے کہ شیعوں کے لئے اس کے کہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے اور اسی پر ان کے بنیادی عقیدہ امامت کی بلکہ ان کے پورے مذہب کی بنیاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع سے واپسی میں وفات سے صرف ستر (۷۰) بہتر (۷۲) دن پہلے غدیر خم کے مقام پر سفر حج کے تمام رفقاء ہزاروں مہاجرین و انصار کو خاص اہتمام سے جمع کرا کے منبر پر کھڑے ہو کر (جو خاص اسی کام کے لئے تیار کرایا گیا تھا) اپنے بعد کے لئے حضرت علیؓ کی خلافت و امامت کا اعلان فرمایا تھا، اور صرف اعلان ہی نہیں فرمایا تھا بلکہ حضرت علیؓ کے لئے سب سے بیعت بھی لی تھی (اگرچہ ہمارے نزدیک یہ صرف گھڑا ہوا افسانہ ہے، لیکن شیعہ حضرات کا تو اس پر ایمان ہے اور ان کی مستند ترین کتابوں "الجامع الکافی" اور "احتجاج طبرسی" وغیرہ میں اس کی پوری تفصیلات ہیں) تو جب ایک کام ہو چکا اور ہزاروں کے مجمع میں اس شان اور اس دھوم دھام سے ہو چکا تو اس کے لئے بطور وصیت کچھ لکھوانے کی کیا ضرورت رہی ..... ہاں اس حدیث کی شرح میں جن حضرات نے یہ خیال ظاہر فرمایا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے بعد کے لئے حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے باتے میں تحریر لکھوانے کا ارادہ فرمایا تھا، لیکن بعد میں جب آپ ﷺ کویہ اطمینان ہو گیا کہ تقدیر الٰہی میں یہ طے ہو چکا ہے تو آپ ﷺ نے تحریر لکھوانے کا ارادہ ترک فرما دیا تو یہ بات قابل فہم ہے علامہ بدرالدین عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اسی حدیث قرطاس کی شرح میں لکھا ہے: قَالَ الْبَيْهَقِيّ: وَقد حكى سُفْيَان بن عُيَيْنَة عَن أهل الْعلم، قيل: إِن النَّبِي، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، أَرَادَ أَن يكْتب اسْتِخْلَاف أبي بكر، رَضِي الله عَنهُ، ثمَّ ترك ذَلِك اعْتِمَادًا على مَا علم من تَقْدِير الله تَعَالَى. وَذَلِكَ كَمَا همَّ فِي أول مَرضه حِين قَالَ: وارأساه، ثمَّ ترك الْكتاب، وَقَالَ: يأبي الله والمؤمنون إِلَّا أَبَا بكر، ثمَّ قدمه فِي الصَّلَاة. (عمدة القارى ج 2 ص 171 طبع مصر) ترجمہ: امام بیہقی نے بیان کیا ہے کہ سفیان بن عیینہ نے (جو اس حدیث قرطاس کے ایک راوی ہیں) اہل علم سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا تھا کہ حضرت ابو بکر ؓ کو خلیفہ مقرر فرما دیں (اور اس کے لئے تحریر لکھوا دیں) پھر آپ نے یہ معلوم ہونے پر کہ تقدیر الٰہی میں یہ طے ہو چکا ہے اس کے لکھانے کا خیال ترک فرما دیا جیسا کہ اسی مرض کے ابتدا میں (جب آپ نے فرمایا تھا وا رأساہ) حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے بارے میں تحریر لکھوانے کا خیال فرمایا تھا پھر لکھوانے کا خیال ترک فرما دیا تھا اور فرمایا تھا "يابى الله والمؤمنون الال ابا بكر" (اور بجائے کچھ لکھوانے کے) آپ نے ان کو نماز کی امامت کرنے کا حکم فرما دیا۔ (یہ گویا عملی استخلاف تھا) ملحوظ رہے کہ سفیان بن عیینہ تابعین میں سے ہیں، انہوں نے جن "اہل علم" سے نقل کیا ہے ان میں غالباً حضرات تابعین بھی ہوں گے، اس سے معلوم ہوا کہ اس حدیث قرطاس کے بارے میں یہ رائے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ، کی خلافت کے بارے میں تحریر لکھوانے کا ارادہ فرمایا تھا حضرات تابعین کی بھی رہی ہے۔ اس حدیث قرطاس کی تشریح کے سلسلہ میں یہاں تک جو کچھ لکھا گیا وہ اس کو تسلیم کر کے لکھا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لکھنے کا سامان لانے کے لئے جو فرمایا تھا وہ کچھ لکھوانے کی نیت ہی سے فرمایا تھا اور آپ کا ارادہ اس وقت کوئی تحریر لکھوانے کا تھا۔ (جو بعد میں نہیں رہا اور آپ نے کچھ نہیں لکھوایا) لیکن حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اسی حدیث قرطاس کی تشریح کے سلسلہ میں ایک احتمال یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ دراصل حضور ﷺ کا ارادہ کچھ تحریر کرانے کا تھا ہی نہیں بلکہ آپ اپنے صحابہ کا امتحان لینا چاہتے تھے اور دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے قلوب میں یہ بات پوری طرح راسخ ہو گئی یا نہیں کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید امت کی ہدایت کے لئے کافی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت عمرؓ، نے جو کہا "عِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُكُمْ كِتَابُ اللهِ" اور حاضرین مجلس میں سے اور لوگوں نے بھی اس کی تائید کی تو حضور ﷺ کو اطمینان ہو گیا۔ (فتح الباری جز ۱۸ ص ۱۰۱ طبع انصاری دہلی ۱۳۰۷؁ھ) ملحوظ رہے کہ قرآن مجید میں جا بجا "اطيعوا الله" کے ساتھ اطیعوا الرسول فرما کر اور دوسرے عنوانات سے بھی رسول اللہ ﷺ کے احکام و ارشادات کی تعمیل اور آپ کے طریقہ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اس لئے وہ بھی قرآن کی ہدایت میں شامل ہے اور قرآن مجید کو بھی حاوی ہے، اس لئے یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ "حسبكم كتاب الله" میں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور ہدایت سے استغنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اس حدیث کا آخری جز یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی مجلس میں تین باتوں کا حکم خاص طور سے دیا (ﷺ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں "واوصاهم بثلاث" یعنی آپ نے اس موقع پر زبانی ہی تین باتوں کی وصیت فرمائی) ایک یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے (واضح رہے کہ یہاں مشرکین سے مراد عام کفار ہیں خواہ مشرکین ہوں یا اہل کتاب، دوسری روایات میں "اخرجوا اليهود والنصارى" بھی ہے، مطلب یہ ہے کہ "جزیرہ عرب" اسلام کا مرکز اور خاص قلعہ ہے اس میں صرف اہل اسلام کی آبادی ہونی چاہئے اہل کفر کو آبادی کی اجازت نہ دی جائے اور جو ابھی تک آباد ہیں ان کو اس علاقہ سے باہر بسا دیا جائے(حضور ﷺ کے اس حکم اور وصیت کی تعمیل کی سعادت حضرت فاروق اعظم ؓ کے حصہ میں آئی، انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کی تکمیل فرما دی) جزیرہ عرب کے حدود اور رقبہ کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، راجح یہ ہے کہ اس حدیث میں جزیرہ عرب سے مراد مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ یمامہ اور ان سے متصل علاقے ہیں۔ دوسری وصیت آپ نے یہ فرمائی تھی کہ حکومتوں یا قبیلوں یا علاقوں کے جو وفود اور قاصد آئیں (اگرچہ وہ غیر مسلم ہوں) ان کے ساتھ حسن سلوک کا ویسا ہی معاملہ کیا جائے جو میرا معمول ہے۔ آپ ﷺ ان کو مناسب تحائف بھی عطا فرماتے تھے، حضور ﷺ کا یہ حسن سلوک قدرتی طور پر ان کو متاثر کرتا تھا ..... یہ دو باتیں ہوئیں۔ تیسری وصیت کے بارے میں حدیث کے ایک راوی سفیان بن عیینہ نے فرمایا کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے ہمارے شیخ سلیمان نے یہی دو باتیں بیان کیں اور تیسری بات کے بارے میں کہا کہ یا تو حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد سعید بن جبیرؓ نے وہ بیان ہی نہیں کی تھی یا میں بھول گیا ہوں .... شارحین نے مختلف قرینوں کی بنیاد پر اس تیسری وصیت کو بھی متعین کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ بعض حضرات نے کہا کہ آپ ﷺ کی وہ تیسری وصیت یہ تھی کہ اللہ کی کتاب قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔ بعض دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ وہ تیسری وصیت یہ تھی کہ " ا تتخذوا قبرى " (یعنی ایسا نہ ہو کہ میری قبر کو بت بنا کر اس کی پرستش کی جائے)۔ مؤطا امام مالک میں "اخرجوا اليهود" کے ساتھ حضور ﷺ کی یہ وصیت بھی روایت کی گئی ہے، بہرحال یہ سب قیاسات ہیں، تاہم یہ سب ہی حضور ﷺ کے ارشادات اور آپ کی ہدایت ہیں۔
Top