معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2002
عَنْ عَائِشَةُ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ، اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ فِي أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلاَهُ فِي الأَرْضِ، بَيْنَ عَبَّاسٍ وَآخَرَ، فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا دَخَلَ بَيْتَهَا، وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ: «هَرِيقُوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنَّ، لَعَلِّي أَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ» قَالَتْ: فَأَجْلَسْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ طَفِقْنَا نَصُبُّ عَلَيْهِ مِنْ تِلْكَ القِرَبِ، حَتَّى جَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا: «أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ» قَالَتْ: وَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ، فَصَلَّى لَهُمْ وَخَطَبَهُمْ. (رواه البخارى)
وفات اور مرض وفات
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا مرض بڑھ گیا اور تکلیف میں شدت زیادہ ہو گئی تو آپ نے ازواج مطہرات سے اجازت چاہی کہ اب آپ کا علاج اور تیمارداری میرے ہی گھر میں ہو (یعنی مستقل قیام میرے ہی گھر میں رہے) تو سب ازواج مطہرات نے اس کی اجازت دے دی (اور سب اس پر راضی ہو گئیں) تو آپ کو دو آدمی اس طرح لے کر میرے گھر آئے کہ آپ ﷺ کے پائے مبارک (کے گھسٹنے سے) زمین پر لکیر بن رہی تھی (آپ کو لانے والے یہ دو آدمی) ایک ان میں سے عباس بن عبدالمطلب تھے اور دوسرے ایک اور صاحب تھے ..... آگے حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف لے آئے تو (ایک دن) آپ کو تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپ نے ہم سے (یعنی ازواج مطہرات سے) فرمایا کہ مجھ پر سات ایسی مشکوں سے پانی چھوڑو جن کے بند کھولے نہ گئے ہوں، تا کہ (میری حالت بہتر اور پر سکون ہو جائے تو) میں (مسجد جا کر) لوگوں سے بہ طور وصیت کچھ ضروری باتیں کر سکوں (حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں) کہ ہم نے آپ کو ایک ٹب میں بٹھایا جو آپ کی زوجہ مطہرہ حفصہؓ کا تھا، پھر ہم نے (آپ کی ہدایت کے مطابق) آپ پر مشکوں سے پانی چھوڑنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم نے کام پورا کر دیا۔ (حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آپ کو سکون ہو گیا) چنانچہ آپ مسجد تشریف لے گئے پھر آپ نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد خطاب بھی فرمایا (جس کا آپ کے دل میں خاص تقاضا تھا)۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث کا مضمون صحیح طور پر سمجھنے کے لئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ حضور ﷺ کی نو ازواج مطہرات تھیں جن کے حجرات (چھوٹے چھوٹے گھر) الگ الگ تھے، اور آپ ﷺ کا دستور و معمول تھا کہ عدل و انصاف کے تقاضے کے مطابق باری باری ان سب کے ہاں ایک ایک رات قیام فرماتے، آپ اس کی ایسی پابندی فرماتے تھے کہ بعض علمائے کرام نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ ایسا کرنا آپ کے حق میں فرض و واجب تھا۔ بہرحال ماہ صفر ۱۱؁ھ کی کسی تاریخ کو (جس کے بارے میں روایات مختلف ہیں) آپ کے اس مرض کا سلسلہ شروع ہوا جس کا اختتام وفات ہی پر ہوا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن حضرت میمونہ ؓ کے ہاں قیام تھا پھر اگلے دن جن زوجہ مطہرہ کے ہاں قیام کی باری تھی، آپ ان کے ہاں منتقل ہو جائے۔ بیماری کی حالت میں روزانہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقلی آپ ﷺ کے لئے سخت تکلیف کا باعث تھی، آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ اب آپ ﷺ ایک ہی گھر میں قیام فرمائیں اور مختلف وجوہ سے اس کے لئے آپ ﷺ کے دل میں حضرت عائشہؓ کے گھر کو ترجیح تھی۔ صحیح بخاری کو جو حدیث اوپر درج کی گئی ہے، اس کے الفاظ کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ حضور ﷺ نے خود ازواج مطہرات سے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا اور ان سے اس کی اجازت چاہی لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ابن سعد نے صحیح سند سے امام زہری سے نقل کیا ہے کہ امہات المومنین سے یہ اجازت حضور ﷺ کی طرف سے حضرت کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ نے لی تھی (1) بہرحال سب ازواج مطہرات اس پر راضی ہو گئیں اور رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حجرے میں پہنچا دئیے گئے۔ خود حضرت صدیقہؓ کی روایت ہے کہ یہ دو شنبہ کا دن تھا، یعنی وفات سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے ..... آپ مرض کے اثر سے اس وقت تک اتنے ضعیف و نحیف ہو گئے تھے کہ آپ خود نہیں چل سکتے تھے، بلکہ دو آدمی اس طرح آپ ﷺ کو لا رہے تھے کہ آپ ﷺ کے پائے مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے .... حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ان دو (۲) آدمیوں میں سے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کا تو نام لیا اور دوسرے صاحب کا نام نہیں لیا، شارحین نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ حضرت عباسؓ تو ایک طرف سے مستقل آپ کو اٹھائے ہوئے تھے اور دوسری جانب سے اٹھانے والے تبدیل ہوتے رہتے تھے، کبھی حضرت علیؓ اور کبھی حضرت عباسؓ کے صاحبزادے فضل بن عباسؓ اور کبھی حضرت اسامہؓ .... بہرحال اس طرح آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں پہنچا دیا گیا جس کو ہمیشہ کے لئے آپ کی آرام گاہ بننا مقدر ہو چکا تھا .... اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا یہ دو شنبہ کا دن تھا۔ آگے حدیث میں حضرت عائشہؓ کا جو بیان ہے کہ میرے گھر میں تشریف لانے کے بعد حضور ﷺ کی تکلیف میں شدت ہو گئی اور آپ ﷺ کی ہدایت کے مطابق آپ ﷺ کو غسل کرایا گیا اور سات مشکوں سے آپ پر پانی چھوڑا گیا جس کے بعد آپ ﷺ کی حالت بہتر اور طبیعت ہلکی ہو گئی پھر آپ ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی اور نماز کے بعد صحابہ کرامؓ سے خطاب فرمایا ..... تو یہ واقعہ اس دن کا نہیں ہے جس دن آپ ﷺ حضرت صدیقہؓ کے گھر میں تشریف لائے بلکہ یہ تین دن کے بعد جمعرات کے دن کا واقعہ ہے جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔ اور یہ ظہر کی نماز تھی، اور یہ حضور ﷺ کی زندگی کی آخری نماز تھی جو حضور ﷺ نے مسجد شریف میں پڑھائی اور اس کے بعد جو خطاب فرمایا وہ مسجد شریف میں آپ ﷺ کی زندگی کا آخری خطاب تھا اور یہ حضور ﷺ کی وہی نماز اور وہی آخری خطاب تھا جس کا ذکر حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری جزو سوم "إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ" میں اس واقعہ سے متعلق حضرت عائشہ صدیقہؓ کی جوا روایت ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ یہ ظہر کا وقت تھا اور حضور ﷺ کی ہدایت کے مطابق حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اقتدا میں نماز شروع ہو چکی تھی، تو اس حالت میں حضور ﷺ نے سکون اور طبیعت میں ہلکا پن محسوس کیا اور آپ دو صاحبوں کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے، حضرت ابو بکرؓ جو نماز پڑھا رہے تھے، ان کی نظر حضور ﷺ پر پڑی تو وہ اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے لگے۔ حضور ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹو اپنی جگہ پر رہو اور جو دو حضرات آپ ﷺ کو لے کر گئے تھے، ان سے فرمایا کہ مجھے ابو بکر کے برابر میں بٹھا دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اب اصل امام خود حضور ﷺ ہو گئے اور حضرت ابو بکر مقتدی .... اس نماز کے بعد آپ ﷺ نے وہ خطاب فرمایا جو حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت سے گزر چکا ہے اور وہیں صحیح مسلم کی روایت کے حوالے سے ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ جمعرات کا دن تھا۔ یہ وہی جمعرات تھی جس میں وہ واقعہ ہوا تھا جس کا ذکر حدیث قرطاس میں گزر چکا ہے۔ اس سلسلہ کی مختلف روایات سامنے رکھنے کے بعد واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ وفات سے پانچ (۵) دن پہلے جمعرات کے دن ظہر سے پہلے کسی وقت حضور ﷺ کے مرض اور تکلیف میں شدت ہو گئی، اس وقت آپ ﷺ نے بطور وصیت کچھ لکھوانے کا ارادہ فرمایا اور لکھنے کا سامان لانے کے لئے ارشاد فرمایا۔ پھر آپ کی رائے لکھوانے کی نہیں رہی (جیسا کہ حدیث قرطاس کی تشریح میں تفصیل سے بیان کیاجا چکا ہے) ..... لیکن آپ ﷺ کے دل میں تقاضا رہا کہ وصیت کے طور پر کچھ ضروری باتیں صحابہ کرامؓ سے فرما دی جائیں۔ چنانچہ جب ظہر کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے ازواج مطہرات سے فرمایا کہ مجھے غسل کراؤ اور سات ایسی مشکوں سے جن کے بند کھولے نہ گئے ہوں مجھ پر پانی چھوڑ دو، (1) ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کو ایک بڑے ٹب میں بٹھلا کر آپ ﷺ کی ہدایت کے مطابق غسل کرایا۔ اس سے آپ ﷺ کی حالت بہتر اور طبیعت ہلکی ہوئی تو آپ ﷺ دو (۲) آدمیوں کے سہارے مسجد تشریف لے گئے اور جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے نماز بھی پڑھائی اور اس کے بعد منبر پر رونق افروز ہو کر خطاب بھی فرمایا۔ اس خطاب میں جو کچھ آپ ﷺ نے فرمایا وہ حضرت ابو سعید خدری کی روایت اور اس کی تشریح میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ اس خطاب میں حضور ﷺ نے سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ امت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے امتیازی مقام کا ذخر فرمایا ہے اور یہ کہ امت میں جو مرتبہ ابو بکرؓ کا ہے وہ کسی دوسرے کا نہیں ہے اور اپنی جگہ نماز کا امام تو آپ ﷺ نے ان کو پہلے ہی بنا دیا تھا ..... ان سب چیزوں کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو ایک حد تک یقین ہو جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اسی دن ظہر سے پہلے تکلیف کی شدت کی حالت میں بہ طور وصیت لکھوانے کا جو ارادہ فرمایا تھا وہ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت و امامت ہی کا مسئلہ تھا۔ اگرچہ بعد میں خود آپ ﷺ کی رائے مبارک لکھوانے کی نہیں رہی، لیکن آپ ﷺ نے ان کو اپنی جگہ امام نماز بنا کر اور مسجد شریف کے آخری خطاب میں ان کا امتیاز اور امت میں ان کا بلند ترین مقام بیان فرما کر ان کی خلافت و امامت کے مسئلہ کی طرف پوری رہنمائی فرما دی اور صحابہ کرامؓ کے لئے وہ رہنمائی کافی ہوئی۔
Top