معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2025
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: مَا كُنَّا تَبعِدُ أَنَّ السَّكِينَةَ تَنْطِقُ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ. (رواه البيهقى فى دلائل النبوة)
فضائل فاروق اعظمؓ حضرت عمر بن الخطاب ؓ
حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ اس بات کو بعید نہیں جانتے تھے کہ عمرؓ کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی)

تشریح
حضرت علی مرتضیٰ کی اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمرؓ جب خطاب فرماتے یا بات کرتے تو دلوں میں ایک خاص قسم کا سکون و اطمینان پیدا ہوتا تھا، ہم اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی زبان و بیان میں یہ خاص تاثیر اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے۔ یہ مطلب لیا جائے تو حضرت علیؓ کے اس کلام میں "السكينة" سے مراد یہی خداداد تاثیر ہے ........ شارحین نے لکھا ہے کہ "السكينه" سے مراد خاص فرشتہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں حضرت علیؓ کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم یہ بات بعید نہیں سمجھتے تھے کہ حضرت عمرؓ خطاب اور بات فرماتے ہیں تو ان کی زبان سے اللہ کا ایک خاص فرشتہ کلام کرتا ہے جس کا نام یہ لقب "السكينه" ہے۔
Top