معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2026
عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاَثٍ فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ وَفِي الْحِجَابِ وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ. (رواه البخارى ومسلم)
فضائل فاروق اعظمؓ حضرت عمر بن الخطاب ؓ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ: میں نے تین باتوں میں اپنے خداوند تعالیٰ سے موافقت کی (یعنی میری رائے وہ ہوئی جو خدا وند تعالیٰ کا حکم آنے والا تھا) مقام ابراہیم کے بارے میں اور پردے کے مسئلہ میں اور غزوہ بدر کے قیدیوں کے مسئلہ میں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
واقعہ یہ ہے کہ ذخیرہ حدیث میں کم از کم پندرہ ایسے واقعات کا ذکر ملتا ہے، کہ کسی مسئلہ میں حضرت عمرؓ کی ایک رائے ہوئی یا ان کے قلب میں داعیہ پیدا ہوا کہ کاش اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آ جاتا تو وہی حکم وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ گیا اس حدیث میں ان میں سے صرف تین کا ذکر کیا گیا ہے ..... ایک مقام ابراہیم سے متعلق حکم کا، دوسرے پردے کے بارے میں، تیسرے غزوہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں حکم کا ...... جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ "مقام ابراہیم" سفید رنگ کا ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی (اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشانات معجزانہ طور پر پڑ گئے تھے جو اب تک باقی ہیں) وہ اسی زمانہ سے محفوظ چلا آ رہا ہے، رسول اللہ ﷺ کے زمانے تک خانہ کعبہ کی قریب ہی میں ایک جگہ کھلا رکھا رہتا تھا (بعد میں اس کو عمارت میں محفوظ کر دیا گیا) حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ کاش ایسا ہوتا کہ مقام ابراہیم کو خصوصیت سے نماز کی جگہ قرار دے دیا جائے، تو سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۵ نازل ہوئی اور اس میں حکم آ گیا "وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى" (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیا کرو) آیت کا سہل الفہم مطلب یہ ہے کہ طواف کے بعد جو دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں وہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں، فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ حکم استحبابی ہے، اگر سہولت سے مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جا سکیں تو وہیں پڑھی جائیں، ورنہ مسجد حرام میں کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ حجاب یعنی پردے سے متعلق ہے، جب تک مستورات کے لئے حجاب یعنی پردے کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں بھی بضرورت صحابہ کرامؓ کی آمدورفت ہوتی تھی، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے داعیہ پیدا فرمایا کہ خاص کر ازواج مطہرات کے لئے حجاب کا خصوصی حکم آ جائے چنانچہ اس بارے میں آیت نازل ہو گئی "وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ" (سورہ احزاب آیت ۵۴) تیسری بات یہ کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور مشرکین کی شکست کے بعد ان کے جو آدمی گرفتار کر کے قیدی بنائے گئے، ان کے متعلق میری رائے یہ تھی کہ یہ سب اسلام، رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے جانی دشمن اور اکابر مجرمین ہیں، ان سب کو قتل کر دیا جائے، ان کو زندہ چھوڑ دینا ایسا ہی ہے، جیسے زہریلے سانپوں کو زندہ چھوڑنا لیکن ابو بکر صدیقؓ اور رسول اللہ ﷺ پر رحم دلی کا غلبہ تھا ان کی رائے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کی ہوئی اور اسی پر عمل کیا گیا ...... بعد میں سورہ انفال کی وہ آیات نازل ہوئیں جو میری رائے کے مطابق تھیں۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ واقعہ یہ تھا کہ ان تینوں مسئلوں میں وحی الہی نے حضرت عمرؓ کی موافقت کی تھی، لیکن حضرت عمرؓ نے از راہِ ادب اس کو اس طرح تعبیر کیا کہ میں نے حکم خداوندی کی موافقت کی تین مسئلوں میں۔ بلاشبہ یہ حسن ادب رسول اللہ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت اور فیض صحبت ہی کا نتیجہ تھا۔
Top