معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2027
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّاِب فَأَصْبَحَ عُمَرُ فَغَدَا عَلَى النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ ثُمَّ صَلَّى فِى الْمَسْجِدِ ظَاهِرًا. (رواه احمد والترمذى)
فضائل فاروق اعظمؓ حضرت عمر بن الخطاب ؓ
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی (رات میں) کہ اے میرے اللہ اسلام کو عزت اور قوت عطا فرما ابو جہل ابن ہشام کے ذریعہ یا عمر بن الخطاب کے ذریعہ پس صبح کو اٹھے عمرؓ اور آئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اور اسلام لے آئے اور مسجد حرام میں علانیہ نماز پڑھی۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے، یہاں ہر بڑے کام اور ہر عظیم مقصد کے لئے اس کے مطابق تدبیر اور عملی جدوجہد اور خاص صلاحیت رکھنے والے جانباز کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے، ابو جہل بن ہشام اور عمر بن الخطاب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین کے درجہ اول کے دشمن تھے، اسی کے ساتھ ان دونوں میں وہ صلاحیتیں جو کسی بڑے کام کے لئے درکار ہوتی ہیں، (راقم سطور کا خیال ہے کہ غالباً حضور ﷺ پر منکشف کر دیا گیا تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ہدایت دی جا سکتی ہے) تو آپ ﷺ نے ایک رات کو یہ دعا فرمائی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ تقدیر الہی میں یہ سعادت حضرت عمرؓ کے لئے مقدر ہو چکی تھی، ان کے حق میں دعا قبول ہو گئی اور ان کو توفیق مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے جو کام لیا خاص کر خلافت کے دس سالوں میں وہ بلا شبہ امت میں ان کا اور صرف ان کا حصہ ہے۔ مسند احمد اور جامع ترمذی کی مندرجہ بالا روایت میں حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح کے بعض شارحین نے ابو عبداللہ حاکم کی "دلائل النبوۃ" کے حوالہ سے حضرت ابن عباسؓ ہی کی روایت سے یہ واقعہ مفصل روایت کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابو جہل جو مشرکین مکہ کا سردار اور بڑا سرمایہ دار بھی تھا اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی محمد ﷺ کو قتل کر دے میں اس کو سو اونٹنیاں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی بطور انعام دینے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ عمرؓ نے ابو جہل سے کہا کہ تمہاری یہ بات پکی ہے؟ ابو جہل نے کہا بالکل پکی، فوراً ادا کروں گا۔ اس کے بعد عمر تلوار لے کر اس ناپاک ارادہ سے نکلے، راستہ میں ایک شخص نے ان کو اس حال میں دیکھا تو پوچھا کہ عمر کہاں اور کس ارادہ سے جا رہے ہو ..... عمرؓ نے کہا محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں ...... اس شخص نے کہا کیا تم ان کے کنبہ بنی ہاشم سے بےخوف ہو (وہ ان کی حمایت میں میدان میں آ جائیں گے اور پھر خونریز جنگ ہو گی) عمرؓ نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تو نے بھی باپ دادا کا دین چھوڑ کے محمد کا دین قبول کر لیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ میں تم کو بتلاتا ہوں کہ تمہاری بہن (فاطمہ) اور بہنوئی (سعید بن زید) نے بھی محمد ﷺ کا دین قبول کر لیا ہے۔ یہ سن کر عمرؓ سیدھے بہن کے گھر کی طرف گئے۔ وہ اس وقت سورہ طہ تلاوت کر رہی تھیں، عمرؓ نے دروازہ پر کھڑے ہو کر سنا، پھر دروازہ کھلوایا اور کہا کہ تم کیا پڑھ رہی تھیں؟ ان کی بہن نے بتایا کہ ہم لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس میں قرآن کی آیتیں پڑھ رہی تھی؟ عمرؓ نے کہا مجھے بھی پڑھ کر سناؤ! چنانچہ ان کی بہن نے سورہ طہ پڑھنی شروع کی ...... جب یہ آیت تلاوت کی "اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ" تو عمر کے دل کی دنیا میں انقلاب آ گیا اور بول اٹھے کہ بیشک وہی اور صرف وہی الٰہ اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اور کلمہ شہادت پڑھا پھر بہن ہی کے گھر میں رات گزاری اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی تڑپ دل میں پیدا ہو گئی۔ بار بار کہتے تھے "وَا شَوْقَاهُ اِلَى مُحَمَّدٍ" اسی حال میں خباب بن الارت ان کے پاس آئے اور ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ آج رات برابر دعا کرتے رہے کہ اے اللہ عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعہ اسلام کو عزت اور قوت عطا فرما! اور میرا خیال ہے کہ حضور ﷺ کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی۔ اس کے بعد صبح کو عمر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اسلام قبول کیا۔ اور اسی وقت کہا کہ ہم لات اور عزیٰ کی پرستش کرتے تھے وادیوں کے نشیب میں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور خدا کی عبادت کریں ہم چھپ چھپا کر؟ ...... یہ نہیں ہو گا ..... خدا کی قسم ہم اللہ کی عبادت اعلانیہ خانہ کعبہ کے صحن میں کریں گے۔ (اس وقت تک مسلمان علانیہ مسجد حرام میں نماز ادا نہیں کرتے تھے)۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ابو جعفر بن ابی شیبہ کی تاریخ کے حوالہ سے ابن عباسؓ ہی کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد طے کیا کہ ہم ابھی چل کر اعلانیہ مسجد حرام میں نماز پڑھیں گے اور ایسا ہی کیا گیا ..... فتح الباری ہی میں ابن ابی شیبہ اور طبرانی کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان نقل کیا گیا ہے۔ وَاللَّهِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُصَلِّيَ حَوْلَ الْبَيْتِ ظَاهِرِينَ حَتَّى أَسْلَمَ عُمَرُ ترجمہ ..... خدا کی قسم عمر کے اسلام لانے سے پہلے ہماری طاقت نہ تھی کہ ہم بیت اللہ کے قریب میں علانیہ نماز پڑھ سکتے (عمر کے اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہی ہمارے لئے یہ ہوا)۔ حافظ ابن حجرؒ نے حضرت عمر ؓ کی قبول اسلام کی بہت سی روایات مختلف صحابہ کرامؓ کی روایت سے حدیث کی مختلف کتابوں کے حوالوں سے نقل کی ہیں جن میں حضرتے عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت انسؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ابن عمرؓ کے علاوہ حضرت علی مرتضیٰ بھی ہیں۔ (فتح الباری باب مناقب عمر پارہ نمبر ۱۴، ص ۳۷۳)
Top