معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2030
عَنِ المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ جَعَلَ يَأْلَمُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكَأَنَّهُ يُجَزِّعُهُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، وَلَئِنْ كَانَ ذَاكَ، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقَكَ وَهُوَ عَنْكَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَ أَبَا بَكْرٍ فَأَحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقَكَ وَهُوَ عَنْكَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَ الْمُسْلِمِيْنَ فَأَحْسَنْتَ صُحْبَتَهُمْ، وَلَئِنْ فَارَقْتَهُمْ لَتُفَارِقَنَّهُمْ وَهُمْ عَنْكَ رَاضُونَ، قَالَ: «أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَالِكَ مَنٌّ مِنَ اللَّهِ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ أَبِي بَكْرٍ وَرِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَالِكَ مَنٌّ مِنَ اللَّهِ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأَمَّا مَا تَرَى مِنْ جَزَعِي فَهُوَ مِنْ أَجْلِكَ وَأَجْلِ أَصْحَابِكَ، وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي طِلاَعَ الأَرْضِ ذَهَبًا لاَفْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أَرَاهُ» (رواه البخارى)
فضائل فاروق اعظمؓ حضرت عمر بن الخطاب ؓ
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ جب زخمی کئے گئے حضرت عمرؓ (ان کو خنجر سے زخمی کیا ابو لؤلؤ مجوسی نے)تو تکلیف اور دکھ کا اظہار فرمانے لگے تو حضرت ابن عباسؓ نے ان سے اس طرح کہا کہ گویا وہ سمجھتے تھے کہ تکلیف کا یہ اظہار صبر و برداشت کی کمی کی وجہ سے ہے (اور تسلی دینے کے لئے کہا) اے امیر المؤمنین درد و تکلیف کا یہ اظہار آپ کی طرف سے بالکل نہ ہونا چاہئے (آپ اس وقت اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد کیجئے کہ اس نے آپ کو کیسی عظیم نعمتوں سے نوازا) آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھی اور رفیق بن کر آپ کے ساتھ رہے اور آپ نے اس صحبت و رفاقت کا اچھا حق ادا کیا پھر حضور ﷺ اس حال میں آپ سے جدا ہوئے کہ وہ آپ سے راضی اور خوش تھے۔ پھر آپ ﷺ کے خلیفہ ابو بکرؓ کے خصوصی ساتھی اور رفیق بنے تو ان کی صحبت و رفاقت کا بھی آپ نے اچھا حق ادا کیا، پھر وہ بھی اس حال میں آپ سے جدا ہوئے کہ وہ آپ سے پوری طرح راضی اور خوش تھے (یہاں تک کہ آپ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ بنایا) پھر (اپنے دور خلافت میں) سب مسلمانوں کے ساتھ آپ کا اچھا معاملہ رہا (آپ نے سب کے حقوق ادا کئے) اور اگر آپ ان کو چھوڑ کر جائیں گے تو اس حال میں ان سے جدا ہوں گے کہ وہ سب آپ سے راضی خوش ہوں گے (حضرت ابن عباس کا یہ مطلب تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا اور پھر حضرت ابو بکرؓ کا اور پھر سب مسلمانوں کا آپ سے راضی خوش رہنا اس بات کی دلیل اور علامت ہے کہ اللہ بھی آپ سے راضی ہے اس لئے آپ کی طرف فسے تکلیف اور بےقراری کا جو اظہار ہو رہا ہے نہ ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو یاد کر کے مطمئن رہنا چاہئے)۔ حضرت عمرؓ نے ابن عباسؓ کی اس بات کے جواب میں فرمایا کہ (اے ابن عباس) تم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میری صحبت و رفاقت کا اور حضور ﷺ کی رضا کا جو ذکر کیا تو یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خاص احسان تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا اور اسی طرح ابو بکرؓ کے ساتھ صحبت و رفاقت اور ان کی رضا کا جو ذکر کیا وہ بھی خداوندی انعام و احسان تھا (یعنی یہ میرا ذاتی کمال نہیں تھا) اور میری طرف سے تکلیف اور پریشانی کا اظہار جو تم دیکھتے ہو وہ (زخم کی تکلیف کی وجہ سے نہیں بلکہ) تم لوگوں کی وجہ سے ہے (یعنی مجھے فکر اور ڈر ہے کہ تم لوگ میرے بعد فتنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤ)۔ اور جہاں تک اخروی انجام کی فکر کا تعلق ہے تو (میرا حال یہ ہے کہ اگر میرے پاس اتنا اسونا ہو کہ ساری زمین بھر جائے تو میں وہ سب عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے بطور فدیہ دے دوں قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب دیکھوں۔ (صحیح بخاری)

تشریح
حضرت فاروق اعظمؓ نے عبداللہ بن عباسؓ کو جواب دیتے ہوئے آخر میں جو یہ فرمایا کہ تم جو مجھے بےچینی اور بےقراری کی حالت میں دیکھ رہے ہو یہ زخم کی تکلیف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اس فکر اور اندیشہ کی وجہ سے ہے کہ میرے بعد تم لوگ فتنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤ ..... اس کی بنیاد یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ عمر فتنوں کے لئے بند دروازہ ہیں۔ جب تک وہ ہیں امت فتنوں سے محفوظ رہے گی، جب وہ نہ رہیں گے، تو فتنوں کے لئے دروازہ کھل جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ان کی شہادت کے بعد سے شیاطین الجن والانس کی طرف سے فتنوں کی تخم ریزی شروع ہوئی اور حضرت عثمانؓ کے آخری دور خلافت میں فتنہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اپنے کو مسلمان کہنے والوں ہی کے ہاتھوں وہ انتہائی مظلومیت کے ساتھ شہید ہوئے اور اس کے بعد خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں ہزارہا صحابہ و تابعین شہید ہوئے۔ یہی وہ فتنے تھے جن کی فکر اور اندیشہ سے اپنے زخم کی تکلیف کو بھلا کر فاروق اعظم بےچین اور مضطرب تھے اور آخر میں جو فرمایا "وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي طِلاَعَ الأَرْضِ ذَهَبًا الخ" (خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین بھر بھی سونا ہو تو میں اللہ کا عذاب دیکھنے سے پہلے ہی اس سے بچنے کے لئے وہ سارا سونا فدیہ میں دے دوں) اس کا مقصد حضرت ابن عباسؓ کو یہ بتلانا ہے کہ میں جو اضطراب اور بتےچینی محسوس کر رہا ہوں اس کا ایک دوسرا سبب جو زیادہ اہم ہے وہ عذاب الہی کا خوف بھی ہے ...... راقم سطور عرض کرتا ہے، فاروق اعظم کا یہ خوف ان کے کمال ایمان اور کمال معرفت کی دلیل ہے، جس کا ایمان اور عرفان جس قدر کامل ہو گا اس پر اسی قدر خوف خدا کا غلبہ ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے "انا اعلمكم بالله واخشاكم" مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم اور معرفت تم سب سے زیادہ، اور اس کا خوف ڈر بھی مجھے تم سب سے زیادہ ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی خاص رحمت اور جنت کے مستحق وہ بندے ہیں جو اس کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں سورہ "بينة" میں مومنین صالحین کا یہ انجام بیان فرما کر کہ وہ "خىر البرية" (اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر) ہیں، وہ آخرت میں ان غیر فانی جنتی باغات میں رہیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان کو رضائے خداوندی کی نعمت حاصل ہو گی؟ اور وہ اپنے اس خداوند سے راضی ہوں گے، آخر میں فرمایا گیا ہے "ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ" (یہ سب ان مومنین صالحین کے لئے ہے جو خداوند تعالیٰ سے (یعنی اس کی پکڑ اور اس کے عذاب سے) ڈرتے رہے ہیں) ..... الغرض حضرت فاروق اعظمؓ کا یہ ارشاد ان کے کمال ایمان اور کمال معرفت کی دلیل ہے۔ قریباں را بیش بود حیرانی۔ شہادت اس حدیث میں حضرت فاروق اعظمؓ کے جس زخمی کئے جانے کا ذکر ہے وہ وہی ہے، جس کے نتیجہ میں آپ کی شہادت ہوئی ..... مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اختصار کے ساتھ انتہائی المناک واقعہ کا ذکر کر دیا جائے۔ فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں ہی ایران فتح ہوا، ایران کے جو مجوسی جنگی قیدیوں کی حیثیت سے گرفتار کر کے لائے گئے وہ شرعی قانون کے مطابق مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے کہ ان سے غلام اور خادم کی حیثیت سے کام لیں اور ان کے کھانے پینے وغیرہ ضروریات زندگی کی کفالت کریں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ..... ایران سے آئے ہوئے ان اسیران جنت میں ایک بدبخت ابو لؤلؤ نامی مجوسی بھی تھا جو مشہور صحابی مغیرہ بن شعبہ کے حوالے کیا گیا تھا اس نے فاروق اعظم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ایک خنجر تیار کیا اور اس کو بار بار زہر میں بجھایا اور اس کے بعد رات میں مسجد شریف کے محراب میں چھپ کر بیٹھ گیا، فاروق اعظمؓ فجر کی نماز بہت سویرے اندھیرے میں شروع کرتے اور بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے، ذی الحجہ کی ستائیسویں تاریخ تھی وہ حسب معمول فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے اور محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھانی شروع کر دی ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ اس خبیث ایرانی مجوسی نے اپنے خنجر سے تین کاری زخم آپ کے شکم مبارک پر لگائے، آپ بےہوش ہو کر گر گئے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے جلدی سے آپ کی جگہ آ کر مختصر نماز پڑھائی، ابو لؤلؤ نے بھاگ کر مسجد سے نکل جانا چاہا نمازیوں کی صفیں دیواروں کی طرف حائل تھیں، پھر اس نے اور نمازیوں کو زخمی کر کے نکل جانا چاہا اس سلسلہ میں اس نے تیرہ صحابہ کرام کو زخمی کیا جن میں سے سات شہید ہو گئے اتنے میں نما زختم ہو گئی اور ابو لؤلؤ کو پکڑ لیا گیا، تو اس نے اسی خنجر سے خودکشی کر لی نماز ختم ہو جانے کے بعد حضرت فاروق اعظمؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا، تھوڑی دیر میں آپ کو ہوش آیا تو اسی حالت میں آپ نے نماز ادا کی ..... سب سے پہلے آپ نے پوچھا کہ میرا قاتل کون ہے بتلایا گیا کہ ابو لؤلؤ مجوسی آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک کافر کے ہاتھ سے شہادت عطا فرمائی۔ آپ کو یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبولیت اس طرح مقدر فرمائی۔ آپ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے شہادت نصیب فرما اور میری موت تیرے رسول پاک ﷺ کے شہر مدینہ میں ہو۔ ایک دفعہ آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت حفصہؓ نے آپ کی زبان سے یہ دعا سن کر عرض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ فی سبیل اللہ شہید ہوں اور آپ کی وفات مدینہ ہی میں ہو (ان کا خیال تھا کہ فی سبیل اللہ شہادت کی صورت تو یہی ہے کہ اللہ کا بندہ میدان جہاد میں کافروں کے ہاتھ سے شہید ہو) آپ نے فرمایا کہ اللہ قادر ہے اگر چاہے گا تو یہ دونوں نعمتیں مجھے نصیب فرما دے گا بہرحال آپ کو اپنی شہادت کا یقین ہو گیا، آپ نے حضرت صہیبؓ کو اپنی جگہ امام نماز مقرر کیا اور اکابر صحابہ سے چھ حضرات کو (جو سب عشری مبشرہ میں سے تھے) نامزد کیا کہ وہ میرے بعد تین دن کے اندر مشورہ سے اپنے ہی میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ پھر آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس جاؤ اور میری طرف سے سلام کے بعد عرض کرو کہ میری دلی خواہش یہ ہے کہ میں اپنے دونوں بزرگ ساتھیوں (یعنی آنحضرت ﷺ اور صدیق اکبرؓ) کے ساتھ دفن کیا جاؤں، اگر آپ اس کے لئے دل سے راضی نہ ہوں تو پھر جنت البقیع میرے لئے بہتر ہے ..... انہوں نے ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ پیام پہنچایا انہوں نے فرمایا کہ وہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی، لیکن اب میں اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب عبداللہ بن عمرؓ نے آپ کو یہ خبر پہنچائی تو فرمایا کہ میری سب سے بڑی تمنا یہی تھی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ بھی پوری فرما دی۔ ۲۷؍ ذی الحجہ بروز چہار شنبہ آپ زخمی کئے گئے تھے یکم محرم بروز یکشنبہ وفات پائی جب آپ کا جنازہ نماز کے لئے رکھا گیا تو حضرت علی مرتضیٰؓ نے آپ کے بارے میں وہ فرمایا جو ناظرین کرام آگے فضائل شیخین میں درج ہونے والی حدیث میں پڑھیں گے۔ نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی اور روضہ اقدس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں آپ دن کئے گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ۔
Top