معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2040
عَنْ أَنَسِ قَالَ: قَالَ لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ فَبَايَعَ النَّاسَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللهِ وَحَاجَةِ رَسُولِهِ. فَضَرَبَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الأُخْرَى، فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيهِمْ لأَنْفُسِهِمْ. (رواه الترمذى)
فضائل حضرت عثمان ذو النورین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب (حدیبیہ میں) رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان کے لئے ارشاد فرمایا تو اس وقت عثمانؓ رسول اللہ ﷺ کے قاصد اور سفیر کی حیثیت سے مکہ گئے ہوئے تھے۔ تو ان سب لوگوں نے (جو اس وقت موجود اور حاضر تھے) بیعت کر لی، تو رسول اللہ ﷺ نے (لوگوں سے) فرمایا کہ عثمان (اس وقت یہاں نہیں ہیں) اللہ کے اور اس کے رسول(ﷺ) کے کام سے مکہ گئے ہوئے ہیں (اگر وہ یہاں ہوتے تو تم سب کے ساتھ وہ بھی بیعت کرتے، اب میں خود ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں) پھر آپ نے (حضرت عثمانؓ کے قائم مقام کی حیثیت سے) اپنا ایک دست مبارک اپنے ہی دوسرے دست مبارک پر رکھا (جس طرح بیعت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھا جاتا ہے۔ آگے حدیث کے راوی حضرت انسؓ جو خود بیعت کرنے والوں میں تھے کہتے ہیں کہ) رسول اللہ ﷺ کا دست مبارک جس سے آپ نے عثمانؓ کی طرف سے بیعت کی وہ عثمانؓ کے حق میں ان دوسرے تمام لوگوں کے ہاتھوں سے بہتر تھا جنہوں نے خود اپنی طرف سے بیعت کی تھی۔ (جامع ترمذی)

تشریح
بیعت رضوان کا واقعہ معلوم و معروف ہے، قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، یہاں مختصراً صرف اتنا ذکر کیا جاتا ہے جتنا حدیث کا مفہوم سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ ہجرت کے چھٹے سال رسول اللہ ﷺ نے ایک خواب کی بنا پر بہت سے صحابہؓ کے شدید اصرار سے عمرہ کے لئے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ فرمایا جن لوگوں کو اس کا علم ہوا تو اس مبارک سفر میں حضور ﷺ کی رفاقت اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ساتھ ہو گئے، ان ساتھیوں کی تعداد چودہ سو ۱۴۰۰ کے قریب ہو گئی، چونکہ سفر عمرہ کی نیت سے کیا گیا تھا اور ذیقعدہ کے مہینہ میں کیا گیا تھا جو اشہر حرم میں سے ہے جن کا مشرکین مکہ بھی احترام کرتے اور جنگ و جدال سے پرہیز کرتے تھے۔ اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ پہلے سے کسی کو بھیج کر مکہ والوں کی رضامندی حاصل کی جائے۔ مشرکین مکہ اس وقت حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے دین کے سخت ترین دشمن تھے ..... جب ان کے علم میں یہ بات آئی کہ آپ ﷺ ایک بڑی جمیعت کے ساتھ آ رہے ہیں تو انہوں نے باہم مشورہ کر کے طے کر لیا کہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہم اپنے شہر مکہ میں نہیں داخل ہونے دیں گے، جب آپ ﷺ اور پورا قافلہ مکہ کی قریب مقام حدیبیہ پر پہنچ گیا (جہاں سے مکہ مکرمہ کی مسافت ۲۰ میل سے کچھ زیادہ ہے) تو مکہ والوں کے فیصلہ اور ارادے کا آپ ﷺ کو علم ہوا ..... آپ ﷺ نے پورے قافلہ کے ساتھ حدیبیہ میں قیام فرما لیا اور حضرت عثمان ؓ، کو سردارانِ قریش سے گفتگو کرنے کے لئے اپنا خاص قاصد اور سفیر بنا کر مکہ بھیج دیا، ان کا انتخاب آپ ﷺ نے اس لئے فرمایا کہ مخالفین کے لیڈروں میں ان کے بعض قریبی رشتہ دار تھے آپ ﷺ نے ان کو اس مقصد سے بھیجا کہ وہ بالخصوص قریش کے سرداروں کو اطمینان دلائیں کہ ہم لوگ صرف عمرہ کے لئے آئے ہیں، اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہے، ہم عمرہ کر کے مدینہ واپس ہو جائیں گے۔ حضرت عثمانؓ مکہ معظمہ چلے گئے لیکن حساب سے ان کو جس وقت تک واپس آ جانا چاہئے تھا واپس نہیں آئے اور حضور ﷺ کے قافلہ میں کسی طرح یہ خبر پہنچ گئی کہ عثمانؓ کو دشمنوں نے شہید کر دیا تو آپ کو بہت رنج اور دکھ ہوا اور آپ ﷺ نے طے فرما لیا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر جنگ ہو گی، تمام ساتھیوں میں بھی اس خبر سے سخت اشتعال تھا اس مرحلہ پر آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے جہاد فی سبیل اللہ اور اس میں شہادت تک ثابت قدمی پر خصوصی بیعت لی، یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی، قرآن مجید میں اس موقع پر بیعت کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رضا کا اعلان فرمایا گیا ہے، اسی لئے اس کا نام بیعت رضوان، معروف ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ بیعت جس وقت لی گئی حضرت عثمانؓ اس وقت موجود نہیں تھے، حضور ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے، تو جیسا کہ حدیث میں ذکر کیا گیا حدیبیہ میں موجود تمام صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے دست مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت کی۔ عثمانؓ موجود نہیں تھے، ان کی طرف سے حضور ﷺ نے خود بیعت کی اپنے دست مبارک کو حضرت عثمانؓ کے ہاتھ کے قائم مقام قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت فرمائی ..... بلا شبہ یہ حضرت عثمان ؓ کے خاص الخاص فضائل میں سے ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر صحیح نہیں تھی وہ گفتگو کر کے واپس آ گئے اس وقت اہل مکہ اور سردارانِ قریش کسی طرح اس پر آمادہ نہیں ہوئے کہ حضور ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو عمرہ کے لئے مکہ معظمہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔ اس کے بعد قریش کی طرف سے گفتگو کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے ان کے نمائندے آئے اور بالآخر وہ صلح ہوئی جو صلح حدیبیہ نام سے تاریخ اسلام کا مشہور ترین واقعہ ہے اور قرآن مجید میں اس کو "فتح مبین" فرمایا گیا ہے (تفصیلات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں)۔
Top