معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2043
عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ؟ فَقَالَ: " مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلُ فِيهَا دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَجَعَلْتُ دَلْوِي فِيهَا مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي مِنَ الشُّرْبِ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟» فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَزِدْتُهَا فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عَلَى ثَبِيرٍ ثَبِيرِ مَكَّةَ، وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا، فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ فَرَكَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «اسْكُنْ ثَبِيرُ، فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ» قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ - يَعْنِي أَنِّي شَهِيدٌ ثَلَاثًا. (رواه الترمذى والنسائى والدار قطنى)
فضائل حضرت عثمان ذو النورین
ثمامہ بن حزم قشیری ؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمانؓ کے گھر پر اس وقت حاضر تھا جب انہوں نے بالا خانے کے اوپر سے (اپنے گھر کا محاصرہ کرنے والے باغیوں بلوائیوں سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا: کہ میں تمہیں اللہ کا اور اس کے دین حق اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں، کیا تم یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہاں بیر رومہ کے علاوہ شیرین پانی کا کنواں نہ تھا (اور وہ ایک یہودی کی ملکیت تھا وہ اس کا پانی جس قیمت پر چاہتا بیچتا تھا) تو رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) ارشاد فرمایا کہ "کون اللہ کا بندہ ہے جو بیر رومہ کو خرید کر سب مسلمانوں کو اس سے پانی لینے کی اجازت دے دے (یعنی عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دے) تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کو اس سے بہتر عطا فرمائے گا" تو میں نے اس کو اپنے ذاتی مال سے خرید لیا (اور قف کر دیا) اور آج تم لوگ مجھے اس کا پانی پینے سے روکتے ہو؟ جس کی وجہ سے میں سمندر کا (کھاری) پانی پینے پر مجبور ہوں، تو اس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا اللھم نعم (یعنی اے اللہ ہم جانتے ہیں کہ عثمان کی یہ بات صحیح ہے)۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کا اور اس کے دین حق اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم یہ بات جانتے ہو کہ حضور ﷺ کی بنوائی ہوئی مسجد نمازیوں کے لئے تنگ ہو گئی تھی تو حضور ﷺ نے (ایک دن) ارشاد فرمایا "کون اللہ کا بندہ ہے جو فلاں گھرانے کے قطعہ زمین کو (جو مسجد کے برابر میں تھا) خرید کر ہماری مسجد میں شامل کر دے تو اللہ اس کو جنت میں اس سے بہتر قطعہ عطا فرمائے گا" تو میں نے اس کو اپنے ذاتی مال سے خرید لیا (اور مسجد میں شامل کر دیا) اور آج تم لوگ مجھے اس بات سے روکتے ہو کہ میں اس میں دو رکعت نماز پڑھ سکوں؟ ...... تو ان لوگوں نے کہا اللھم نعم (اے اللہ بےشک ہم یہ بات جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کے فرمانے پر عثمانؓ نے وہ قطعہ زمین خرید کر مسجد میں شامل کیا تھا) ..... اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے غزوہ تبوک کے لشکر کے لئے اپنے مال سے ساز و سامان کیا تھا؟ ان لوگوں نے کہا اللھم نعم (اے اللہ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں) اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے ان سے فرمایا کہ میں اللہ کا اور اس کے دین حق اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں یہ بات ہے کہ (ایک دن)رسول اللہ ﷺ مکہ کے جبل ثبیر پر تھے، اور آپ ﷺ کے ساتھ ابو بکرؓ و عمرؓ تھے اور میں بھی تھا تو پہاڑ حرکت کرنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر اوپر سے نیچے کی جانب نشیب میں گرنے لگے، تو آپ ﷺ نے ثبیر پہاڑ پر اپنا قدم مبارک زور سے مارا اور فرمایا "اسْكُنْ ثَبِيرُ" (اے ثبیر ساکن ہو جا) کیوں کہ اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ہے اور ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں ..... تو ان لوگوں نے کہا اللهم نعم (خداوندا یہ واقعہ بھی ہمارے علم میں ہے) اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے فرمایا اللہ اکبر! ان لوگوں نے بھی گواہی دی، اسی کے ساتھ حضرت عثمانؓ نے فرمایا) قسم ہے رب کعبہ کی کہ میں شہید (ہونے والا) ہوں، یہ آپؓ نے تین دفعہ فرمایا۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، دار قطنی)

تشریح
حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد انتخاب خلیفہ کے لئے ان کی بنائی ہوئی مجلس شوریٰ نے حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب فرمایا تھا تمام صحابہ مہاجرین و انصارؓ نے ان کو اسی طرح خلیفہ تسلیم کر لیا جس طرح حضرت عمرؓ کو اور اس سے پہلے حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا ...... قریباً بارہ برس تک آپؓ خلیفہ رہے آپؓ کی خلافت کے آخری سالوں میں آپؓ کے خلاف وہ فتنہ برپا ہوا جس کی پیشن گوئی رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر فرمائی تھی۔ یہ محاصرہ جس کا اس حدیث میں ذکر ہے اس فتنہ کے سلسلہ کی آخری کڑی تھا، محاصرہ کرنے والے مصر اور عراق کے بعض شہروں کے باغی اور بلوائی تھے جن کو فتنہ پردازی کے ماہر ایک منافق یہودی عبداللہ بن سبا نے خفیہ سازشی تحریک کے ذریعہ حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا تھا (اس فتنے اور عبداللہ بن سبا کی خفیہ تحریک کی تفصیلات سیر و تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں)۔ جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا باغی بلوائیوں کا یہ محاصرہ اتنا شدید ہو گیا تھا کہ حضرت عثمانؓ مسجد شریف آ کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتے تھے اور آپؓ کو اور آپ کے گھر والوں کو پینے کا پانی نہیں پہنچ سکتا تھا، ان بلوائیوں کا مطالبہ تھا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہو جائیں یعنی خود اپنے آپ کو معزول کر دیں۔ حضرت عثمانؓ رسول اللہ ﷺ کی ایک تاکیدی ہدایت کی بنیاد پر (جس کا ذکر آگے ایک حدیث میں آئے گا) ان لوگوں کے مطالبہ پر خلافت سے از خود دستبردار ہونے کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اس کے مقابلہ میں ان باغیوں، بلوائیوں کے ہاتھوں مظلومیت کے ساتھ جان دے دینا اور شہید ہو جانا بہتر سمجھتے تھے۔ معلوم ہے کہ حضرت عثمانؓ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور حکومت کے فرمانروا تھے، اگر ان باغیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کرنے کا فیصلہ فرماتے یا اس کی اجازت چاہنے والوں کو اجازت ہی دے دیتے تو یہ بغاوت پوری طرح کچھ دی جاتی لیکن آپ کی فطرت اور طبیعت پر حیا کی طرح حلم کا بھی غلبہ تھا، نیز آپؓ اس کے لئے کسی طرح تیار نہیں تھے کہ آپؓ کی جان کی حفاظت کے لئے کسی کلمہ گو کے خون کا قطرہ زمین پر گرے اس لئے آپؓ نے آخری حد تک افہام و تفہیم کی کوشش کی اور آخر میں اتمام حجت کے طور پر وہ خطاب فرمایا جسے اس حدیث کے راوی ثمامہ ابن حزم قشیریؓ نے بیان فرمایا ہے جنہوں نے یہ خطاب خود اپنے کانوں سے سنا تھا اور محاصرہ کا وہ منظر آنکھوں سے دیکھا تھا ...... آخر میں حدیث کے الفاظ "وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَعْنِي أَنِّي شَهِيدٌ ثَلَاثًا" (رب کعبہ کی قسم! میں شہید ہونے والا ہوں یہ بات آپ نے تین دفعہ فرمائی) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کو خداداد ایمانی فراست اور کچھ غیبی اشارات سے (جن کا ذکر بعض روایات میں کیا گیا ہے) یقین ہو گیا تھا کہ یہ فتنہ میری شہادت کا تکوینی انتظام ہے جس کی پیشن گوئی رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر فرمائی تھی، اس لئے آپ نے مظلومانہ شہید ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جانے کا فیصلہ فرمایا اور مظلومانہ شہادت اور قربانی کی ایک لاثانی مثال قائم کر دی۔ اسی سلسلہ میں وہ حدیث ناظرین کرام عنقریب پڑھیں گے جس سے معلوم ہوگا کہ حضرت عثمان ؓ نے شہید ہونے کے لئے کس طرح تیاری کی تھی۔ حدیث میں حضرت عثمان ؓ کا جو خطاب ذکر فرمایا گیا ہے، اس کے آخر یہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپؓ کے ساتھ حضرت ابو بکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ مکہ کے قریب کے پہاڑ ثبیر پر ایک دن تشریف لے گئے تو پہاڑ میں ایک خاص قسم کی حرکت پیدا ہوئی تو حضور ﷺ نے زور سے قدم مبارک مارا اور فرمایا "اسْكُنْ ثَبِيرُ، فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ" (اے ثبیر ساکن ہو جا اس وقت تیرے اوپر اللہ کا ایک نبی ہے، اور ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں) ..... اسی طرح کا واقعہ مدینہ منورہ میں احد پہاڑ پر بھی پیش آیا، جو حضرت انسؓ کی روایت سے صحیح بخاری مین ذکر کیا گیا ہے حدیث کا متن یہ ہے۔
Top