معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2049
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَوَّلَ مَنْ هَاجَرَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إلَى الْحَبَشَةِ بِأَهْلِه عُثْمَانُ بْنِ عَفَّانَ فَخَرَجَ وَخَرَجَ مَعَه بِابْنِةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سَلَّم فَاحْتَبَسَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سَلَّم خَبَرُهُمَا فَجَعَل يَخْرُج يَتَوَكَّف الْأَخْبَارَ فَقَدِمْتْ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَسَأَلَهَا فَقَالَت: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! رَأَيْتُهُمَا قَالَ عَلَى أَيِّ حَالٍ رَأَيْتُهُمَا؟ قَالَتْ : رَأَيْتهُ وَقَد حَمَلَهَا عَلَى حِمَارٍ مِنْ هَذِه لدَّبَّابَةِ وَهُوَ يَسُوقُ بِهَا يَمْشِيْ خَلْفَهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سَلَّم صَحِبَهُمَا اللَّهُ إنْ كَانَ عُثْمَانُ بْنِ عَفَّانَ لأَوَّلَ مَنْ هَاجَرَ إلَى اللَّهِ بِأَهْلِهِ بَعْدَ لُوطٍ (رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِير و الْبَيْهَقِيّ و ابْنُ عَسَاكِرَ)
فضائل حضرت عثمان ذو النورین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے جس شخص نے سب سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی وہ عثمان بن عفان تھے وہ اپنی اہلیہ محترمہ (رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ) کو ساتھ لے کر حبشہ کے لئے روانہ ہو گئے (پھر طویل مدت تک) رسول اللہ ﷺ کو ان دونوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی تو آپ ﷺ باہر تشریف لے جاتے اور خبر معلوم ہونے کا انتظار فرماتے اور کہیں سے خبر حاصل ہونے کی کوشش فرماتے تو قبیلہ قریش کی ایک خاتون ملک حبشہ سے (مکہ) آئی تو آپ ﷺ نے اس سے (ان کے بارے میں) دریافت فرمایا تو اس نے کہا اے ابو القاسم! میں نے ان دونوں کو دیکھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا تم نے ان کو کس حال میں دیکھا تو خاتون نے کہا کہ میں نے عثمانؓ کو دیکھا انہوں نے (آپ ﷺ کی صاحبزادی) رقیہ کو آہستہ چلنے والے ایک حمار پر سوار کر دیا تھا اور وہ خود پیدل پیچھے چل رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ رہے (اور ان کی حفاظت فرمائے) اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اللہ کے پیغمبر) لوط (علیہ السلام) کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف ہجرت کی ہے۔(معجم کبیر طبرانی، بیہقی ابن عساکر)

تشریح
حدیث اور سیر و تاریخ کی روایات کی روشنی میں یہ معلوم و مسلم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے (باختلاف روایات دو یا تین صاحبزادوں کے علاوہ جو صغر سنی ہی میں وفات پا گئے) آپ کی چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم، حضرت فاطمہ۔ (ؓن) حضرت زینب جو سب سے بڑی تھیں ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ نے ابو العاص بن الربیع سے کر دیا تھا اور وہ انہی کے ساتھ رہیں (یہاں ان کے بارے میں اس سے زیادہ لکھنا ضروری ہے) اور حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کا رشتہ آپ ﷺ کےچچا ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہو گیا تھا، لیکن رخصتی کی نوبت نہیں آئی تھی کہ ابو لہب اور اس کی بیوی (ام جمیل) کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی دعوت توحید کی شدید ترین مخالفت اور آپ ﷺ کی ایذا رسانی پر سورہ لہب نازل ہوئی جس میں ان دونوں میاں بیوی کی بدانجامی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان فرمایا گیا اس سے طیش میں آ کر ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ پر دباؤ ڈالا کہ رقیہ اور ام کلثوم سے تمہارا جو رشتہ ہو چکا ہے اس کو ختم کر دو، انہوں نے ایسا ہی کیا فی الحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام تھا کہ یہ پاک صاحبزادیاں اس ناپاک گھرانے میں نہ جا سکیں۔ (ان ربی) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں میں سے بڑی بہن رقیہ کا نکاح بحکم خداوندی (جیسا کہ دوسری روایات میں بصراحت موجود ہے) حضرت عثمان بن عفانؓ سے کر دیا جو دعوت اسلام کے ابتدائی دور ہی میں ایمان لا کر آنحضرت ﷺ کے خواص اصحاب و رفقاء میں شامل ہو چکے تھے ..... معلوم ہے کہ دعوت توحید کے ابتدائی دور میں مکہ کے شریر و ظالم اور سنگدل مشرکین کی طرف سے اسلام قبول کرنے والوں پر کیسے کیسے ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے۔ حضور ﷺ کو معلوم تھا کہ ملک حبشہ کا بادشاہ جو دین عیسوی کا پیرو ہے ایک نیک دل اور عادل حکمران ہے اور امید ہے کہ وہاں جو بھی جائے گا امن و امان سے رہ سکے گا تو آپ ﷺ نے ایمان لانے والے اپنے اصحاب کو مشورہ دیا کہ جو لوگ جا سکتے ہوں وہ فی الحال حبشہ چلے جائیں، چنانچہ چند حضرات نے اس کا ارادہ کر لیا، ان میں سب سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے حضرت عثمانؓ تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کے مشورہ کے مطابق آپ ﷺ کی صاحبزادی اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ کو بھی ساتھ لے کر حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی ..... پھر جیسا کہ حضرت انسؓ کی اس روایت میں بیان کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ کو مدت تک ان دونوں کے بارے میں کوئی خیر خبر نہیں ملی جس سے آپ ﷺ بہت فکر مند رہے اور کوشش فرماتے رہے کہ کسی طرح ان کا حال معلوم ہو ..... تو طویل عرصہ کے بعد قبیلہ قریش کی ایک عورت حبشہ سے مکہ مکرمہ آئی، آپ ﷺ نے اس سے حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے بتلایا کہ میں نے ان دونوں کو دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کسی حال میں دیکھا ہے اس نے کہا کہ میں نے ان کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ عثمانؓ نے اپنی اہلیہ رقیہؓ کو آہستہ آہستہ چلنے والے ایک حمار پر (1) سوار کر دیا تھا اور خود پیدل اس کے پیچھے چل رہے تھے (راقم سطور کا گمان ہے کہ حمار کو آہستہ اس لئے چلایا جا رہا ہو گا کہ حضرت رقیہؓ کو تکلیف نہ ہو) ..... اس قریشی خاتون سے یہ حال معلوم کر کے آنحضرت ﷺ کو اطمینان ہوا اور آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ "صَحِبَهُمَا الله" (ان دونوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور حفاظت نصیب رہے) اس کے ساتھ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ کے پیغمبر لوط علیہ السلام کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی رفیقہ حیات کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف یعنی اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی، اپنا وطن اپنا گھر بار اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑا اور محض لوجہ اللہ جلا وطنی اختیار کی ..... اس زمانہ میں مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا کتنا بڑا مجاہدہ تھا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہے کہ اسلام میں یہ پہلی ہجرت تھی جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، اس قافلہ میں چند ہی حضرات تھے، اس کے بعد ایک بڑے قافلہ نے بھی مکہ سے حبشہ کو ہجرت کی۔ ان سب حضرات کا طویل مدت تک حبشہ میں قیام رہا، حضرت عثمانؓ چند برس وہاں قیام کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئے، ایسے وقت پہنچے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ ہجرت فرما چکے تھے تو حضرت عثمانؓ نے بھی اپنی زوجہ مطہرہ حضرت رقیہؓ اور ایک صاحبزادے (عبداللہ کو ساتھ لے کر جو حبشہ میں پیدا ہوئے تھے) مکہ مکرمہ سے مدینہ کو ہجرت کی اس طرح وہ صاحب الهجرتين ہیں اور حضرات خلفاء راشدین میں بھی یہ فضیلت انہی کو حاصل ہے۔ ؓ وارضاہ۔ مدینہ منورہ ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر پیش آیا انہی دنوں حضرت رقیہؓ بیمار ہو گئیں، جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ بدر کے لئے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمانؓ نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ جانا چاہا، حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم رقیہؓ کی تیمارداری کے لئے یہیں رہو ہمارے ساتھ نہ چلو، اللہ تعالیٰ تم کو وہی اجر عطا فرمائے گا جو اس غزوہ کے مجاہدین کو عطا فرمایا جائے گا اور غنیمت میں تمہارا وہی حصہ ہو گا جو غزوہ میں شریک ہونے والے مجاہدین کا ہو گا ...... حضرت عثمانؓ حضور ﷺ کے اس حکم کی وجہ سے غزوہ بدر کے لئے نہیں جا سکے، حضرت رقیہؓ کی تیمارداری میں مصروف رہے ...... لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قضا و قدر کا فیصلہ کہ وہ صحت یاب نہ ہو سکیں حضور ﷺ کی مدینہ واپسی سے پہلے ہی وفات پا گئیں واپسی پر حض ﷺ ر ﷺ کو علم ہوا تو رقیہؓ جیسی لخت جگر کی وفات کا جو صدمہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوا اور حضرت عثمانؓ کا جو حال ہوا وہ آئندہ درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا۔
Top