معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2054
عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَلِيٍّ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ! إنِّي ارْجِعْ إلَى الْمَدِينَةِ وَأَنَّهُمْ سَائِلِيْ عَنْ عُثْمَانَ فَمَاذَا أَقُولُ لَهُمْ ؟ قَالَ : أَخْبِرْهُمْ أَنَّ عُثْمَانَ كَانَ مِنْ الَّذِينَ {آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}. (رواه ابن مردويه وابن عساكر).
فضائل حضرت عثمان ذو النورین
ثابت بن عبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں مدینہ جانے والا ہوں، وہاں لوگ مجھ سے عثمانؓ کے بارے میں سوالات کریں گے تو (مجھے بتلا دیجئے) کہ میں ان کو کیا جواب دوں، تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو جواب دیجیو اور بتلائیو کہ عثمانؓ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے (جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے) {الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ} وہ بندے جو ایمان لائے اور اعمال صاسلحہ کئے، پھر انہوں نے تقویٰ اور کامل ایمان والی زندگی گذاری پھر تقویٰ اور احسان کا مقام ان کو حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں سے محبت و پیار فرماتا ہے جو مقام احسان پر فائز ہوں۔ (ابن مردویہ ابن عساکر)

تشریح
معلوم ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ، نے کوفہ کو دارالحکومت بنا لیا تھا جو صاحب مدینہ جانے والے تھے اور انہوں نے حضرت سے وہ سوال کیا تھا جو روایت میں ذکر کیا گیا ہے، بظاہر وہ حضرت علیؓ کے خواص اہل تعلق میں سے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ جب میں مدینہ پہنچوں گا تو لوگ مجھ سے آپ کے تعلق سے عثمانؓ کے بارے میں سوالات کریں گے تو میں ان کو کیا جواب دوں؟ (ملحوظ رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت عثمانؓ کی شخصیت متنازعہ ہو گئی تھی اور وہ شہید کر دئیے گئے تھے اور ان کو شہید کرنے والے باغی حضرت علیؓ کی محبت کا دم بھرتے تھے) تو حضرت علیؓ نے ان کو وہ جواب دیا جو روایت میں میں ذکر کیا گیا ہے ..... یہ دراصل سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۹۳ کا اقتباس ہے، آیت کا مطلب ہے کہ جو بندے ایمان، اعمال صالحہ، تقویٰ اور احسان والی زندگی گذاریں، ان سے کسی قصور کے بارے میں آخرت میں پوچھ گچھ نہ ہو گی اور وہ اللہ کے محبوب اور پیارے ہیں، عثمانؓ اللہ کے انہی محبوب و مقبول بندوں میں سے تھے۔ ملحوظ رہے کہ یہاں جو احسان کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ ایک خاص دینی اصطلاح ہے خود رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث مٰں اس کی تشریح یہ فرمائی ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس کے احکام کی فرمانبرداری اس طرح کرے کہ گویا اللہ تعالیٰ اس کی نگاہ کے سامنے ہے ..... ظاہر ہے کہ یہ ایمان و ایقان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سطروں کے لکھنے والے اور پڑھنے والے اپنے بندوں کو بھی اس احسانی کیفیت کا کوئی ذرہ نصیب فرما دے۔
Top