معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2058
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ. (رواه الترمذى)
فضائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: علی مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں اور وہ ہر ایمان والے کے ولی ہیں۔ (جامع ترمذی)

تشریح
صاحبِ مشکوٰۃ المصابیح نے جامع ترمذی کی اس روایت کا یہی آخری جز نقل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے، امام ترمذی نے وہ پورا واقعہ بھی نقل کیا ہے جس سلسلہ میں حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا۔ واقعہ کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو امیر بنا کر ان کی سرکردگی میں ایک لشکر کسی مہم پر روانہ فرمایا، اللہ تعالیٰ کی مدد سے مہم کامیاب ہوئی اور فتح حاصل ہوئی، لیکن لشکر میں شامل بعض لوگوں نے حضرت علی مرتضیٰؓ کے اس سلسلہ کے ایک عمل کو صحیح نہیں سمجھا اور واپس آ کر ان لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق حضور ﷺ سے حضرت علیؓ کی شکایت کی آنحضرت ﷺ کو ان کی یہ بات سخت ناگوار ہوئی، کیوں کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں ان کی شکایت صحیح نہیں تھی غلط فہمی پر منبی تھی، اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے شکایت کرنے والوں پر ناگواری ظاہر فرمائی، اور حضرت علی مرتضیٰؓ پر اپنے اعتماد اور خصوصی قرابت و محبت کے خاص تعلق کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا "إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ..... " ہماری اردو زبان کے محاورہ میں اس کا حاصل یہ ہے کہ "علی میرے ہیں اورمیں علی کا ہوں" اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے ساتھ اپنی محبت اور خصوصی قرب و تعلق کا اظہار انہیں الفاظ کے ساتھ حضور ﷺ نے مختلف مواقع جپر فرمایا ہے، جیسا کہ آئندہ درج ہونے والی حدیث سے بھی معلوم ہو گا۔ ملحوظ رہے کہ حضور ﷺ نے بعض مواقع پر دوسرے بعض صحابہؓ کے ساتھ بھی اپنے خصوصی تعلق اور قرب و محبت کا انہیں الفاظ میں اظہار فرمایا ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ایک غزوہ میں شہید ہو جانے والے ایک صحابی حضرت جلیبیبؓ کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" (1) (یعنی یہ جلیبیب مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں) ..... اسی طرح آپ نے ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے قبیلہ اشعریین کے ایک طرز عمل کا ذکر فرما کر کہ جب وہ جہاد کے سفروں میں جاتے ہیں یا مدینہ کے قیام ہی کے زمانہ میں کھانے پینے کا سامان ان میں سے کچھ لوگوں کے پاس کم ہو جاتا ہے تو جو کچھ جس کے پاس ہوتا ہے وہ سب ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں اور آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا "هُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" (یعنی یہ اشعریین مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں) ظاہر ہے جیسا کہ عرض کیا گیا آنحضرت ﷺ کی طرف سے یہ ان اشعریین کے سات خصوصی محبت اور قرب و تعلق کا اظہار ہے، اس حدیث کو بھی امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ (1) حدیث کا آخری جملہ ہے "وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ"...... ولی کے معنی دوست، مدد گار اور سرپرست کے ہیں، قرآن مجید میں بھی یہ لفظ مختلف مقامات پر ان میں سے کسی ایک معنی میں اساستعمال ہوا ہے۔ زیر تشریح اس حدیث میں بظاہر یہ لفظ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب و مدعا یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کو علیؓ کے ساتھ دوستی اور محبت ہی کا تعلق رکھنا چاہئے، میرے ساتھ ان کے خصوصی تعلق کا یہ بھی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ پاک کی اور اپنے سب محبین اور محبوبین کی (جن میں بلا شبہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا بھی خاص مقام و مرتبہ ہے) محبت اس عاجز کو اور سب اہل ایمان کو نصیب فرمائے۔
Top