معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2068
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَزَيْدِ بْنِ اَرْقَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ بِغَدِيرِ خُمٍّ، أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى لِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ «لَهُ هَنِيئًا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَمُؤْمِنَةٍ» (رواه احمد)
فضائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ
حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم پر نزول اور قیام فرمایا تو آپ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا ہاتھ پکڑ کر (عام حاضرین و رفقاء سفر سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا کہ "أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ" (کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میں مسلمانوں کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ دوست اور محبوب ہوں) سب نے عرض کیا کیوں نہیں ہاں! بےشک ایسا ہی ہے (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا "أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ" (کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مسلمان کا اس کے نفس اور اس کی جان سے زیادہ دوست اور محبوب ہوں)سب نے عرض کیا کیوں نہیں ہاں! بےشک ایسا ہی ہے (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا "اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" (اے اللہ! میں جس کا دوست ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست ہیں، اے اللہ جو علیؓ سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما) اس کے بعد حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ سے ملے اور (ان کو مبارک باد دیتے ہوئے) فرمایا کہ تمہیں مبارک اور خوشگوار ہو اے ابن ابی طالب! کہ تم ہر صبح اور ہر شام (یعنی ہر وقت) ہر مومن اور مومنہ کے دوست اور محبوب ہو گئے۔ (مسند احمد)

تشریح
یہ واقعہ جس کا ذخر اس روایت میں کیا گیا، حجۃ الوداع کے سفر سے واپسی کا ہے "غدیر" کے معنی تالاب کے ہیں اور خم ایک مقام کا نام ہے جس کے قریب یہ تالاب تھا، یہ مقام مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے مشہور بستی "الجحفہ" سئ تین چار میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ آنحضرت ﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوتے ہوئے اپنے فرقاء سفر کے پورے قافلہ کے ساتھ جس میں مدینہ منورہ اور قرب و جوار کے تمام ہی وہ صحابہ کرامؓ تھے جو اس مبارک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے، ۱۸؍ ذی الحجہ کو اس مقام پر پہنچے تھے، اور قیام فرمایا تھا، یہاں آپ ﷺ نے ان رفقاء سفر کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ سے متعلق حدیث کی کتابوں میں جو روایات ہیں۔ ان سے کو جمع کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس خطاب میں کچھ اہم باتیں ارشاد فرمائی تھی جن میں سے ایک بات حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے بارے میں وہ بھی تھی جو اس روایت میں ذکر کی گئی ہے۔ یہ بات آپ ﷺ نے ایک تمہید کے ساتھ خاص اہمیت سے بیان فرمائی۔ سورہ احزاب کے آیت نمبر ۶ میں ارشاد فرمایا گیا ہے: "النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ" اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر سب سے زیادہ محبت و خیرخواہی اپنے نفس اور اپنی عزیز جان کے ساتھ ہوتی ہے، ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کا حق ہے کہ اہل ایمان اپنے نفس اور اپنی جان عزیز سے بھی زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت رکھیں۔ قرآن پاک کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے حاضرین سے فرمایا کہ کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ میں سب ایمان والوں کی دوستی اور محبت کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق دار ہوں۔ سب حاضرین نے بیک زبان عرض کیا کہ ہاں! بےشک ایسا ہی ہے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ "کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ ہر مومن کو اپنے نفس اور اپنی عزیز جان سے جو محبت اور تعلق ہے اس سے زیادہ محبت اور تعلق اس کو میرے ساتھ ہونا چاہئے۔ سب حاضرین نے عرض کیا کہ ہاں بےشک ایسا ہی ہے، آپ ﷺ کا ھق ہم میں سے ہر ایک پر یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی جان عزیزسے بھی زیادہ محبت آپ ﷺ کے ساتھ ہو ..... اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا۔ «اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» اے اللہ (تو گواہ رہ کہ) میں جس کا دوست اور محبوب ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست اور محبوب ہیں، تو اے اللہ! میری تجھ سے دعا ہے کہ جو علیؓ سے محبت رکھے تو اس سے محبت کا معاملہ فرما اور جو اس سے عداوت رکھے تو اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما ..... حضور ﷺ کے اس خطاب کے بعد حضرت عمرؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ سے ملے اور مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا اے ابن ابی طالب! تم کو مبارک اور خوشگوار ہو کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر ایمان والے اور ہر ایمان والی کے تم محبوب ہو گئے، ہر ایک تم سے ہمیشہ محبت کا تعلق رکھے گا۔ یہاں تک صرف حدیث کے مضمون کی تشریح کی گئ، اس موقع پر راقم سطور ناظرین کو یہ بتلانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ شیعہ علماء و مصنفین اس حدیث کو اپنے اس عقیدہ اور دعوے کی مضبوط ترین اور سب سے زیادہ وزنی دلیل کے طور پر پیش کرے ہیں غدیر خم کے س خطاب میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد کے لئے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ و جانشین اور امت کا امام و حاکم بنا دیا تھا اور اس خطاب کا خاص مقصد یہی تھا، وہ کہتے ہیں کہ مولیٰ کے معنی آقا، مالک اور حاکم کے ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میں جن لوگوں کا آقا اور حاکم ہوں۔ علیؓ ان سب کے آقا اور حاکم ہیں، پس یہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت اور امت پر ان کی حاکمیت کا اعلان تھا ..... ان شاء اللہ آئندہ سطور سے ناظرین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ شیعہ علماء کا یہ دعویٰ اور ان کی یہ دلیل کس قدر لچر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں بہت سے الفاظ ایسے جو بیس بیس یا اس سے بھی زیادہ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ لفظ مولیٰ بھی انہیں الفاظ میں سے ہے۔ عربی لغت کی مشہور و مستند ترین کتاب "القاموس المحیط" میں اس لفظ مولیٰ کے مندرجہ ذیل ۲۱ معنی لکھے ہیں۔ المولى: (1) المالك(2) والعبد(3) والعتق(4) والمعتق(5) والصاحب(6) والقريب كابن العم ونحوه(7) والجار(8) والحليف(9) والابن(10) والعم(11) والنزيل(12) والشريك(13) وابن الاخت(14) والولى(15) والرب(16) والناصر(17) والمنعم(18) والمنعم عليه(19) والمحب(20) والتابع(21) والصهر (1) (ان تمام الفاظ کا ترجمہ مصباح اللغات کی عبارت میں ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں گے جو آگے نقل کی جا رہی ہے) اور عربی لغت کی دوسری مستند و معروف کتاب "اقرب الموارد" میں بھی لفظ مولیٰ کے یہی سب معنی لکھے گئے ہیں۔ (2) لغت حدیث کی مشہور و مستند ترین کتاب "النهاية لابن الاثير الجزري فى غريب الحديث والاثر" میں بھی قریبا یہ سب معنی لکھے گئے ہیں، علامہ طاہر پٹنی نے مجمع بحار الانوار میں نہایہ ہی کے حوالہ سے اس کی پوری عبارت نقل کر دی ہے۔ (3) مصباح اللغات جس میں عربی الفاظ کے معنی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں، اس میں قریب قریب ان سب الفاظ کا ترجمہ آ گیا ہے جو "القاموس المحیط" اور "اقرب الموارد" وغیرہ مندرجہ بالا کتابوں میں لکھے گئے ہیں، ہم اس کی عبارت بعینہٖ ذیل میں درج کرتے ہیں۔ المولی = مالک و سردار، غلام آزاد کرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا جس کو انعام دیا جائے، محبت کرنے والا، ساتھی۔ حلیف پڑوسی، مہمان، شریک، بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، چچا، داماد، رشدہ دار، والی، تابع۔ (4) معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور ﷺ کے کسی ارشاد میں یا کسی بھی فصیح و بلیغ کلام میں جب کوئی کثیر المعنی لفظ استعمال ہو تو خود اس میں یا اس کے سیاق و سباق میں ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے جو اس لفظ کے معنی اور اس کی مراد متعین کر دیتا ہے .... اس زیر تشریح حدیث میں خود قرینہ موجود ہے، جس سے اس حدیث کے لفظ مولیٰ کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، حدیث کا آخری دعائیہ جملہ ہے "اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" (اے اللہ جو علی سے دوستی اور محبت رکھے تو اس سے دوستی اور محبت فرما، اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما)۔ اس سے متعین طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں لفظ مولیٰ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا مطلب وہی ہے جو اوپر تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس بات کی روشن اور قطعی دلیل ہے کہ غدیر خم کے ہزاروں صحابہ کرام کے اس مجمع میں کسی فرد نے، خود حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے قریب ترین حضرات نے بھی حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں سمجھا تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد کے لئے ان کی خلافت و حاکمیت اور امت کی امامت عامہ کا اعلان فرما رہے ہیں، اگر خود حضرت علی مرتضیٰؓ نے اور ان کے علاوہ جس نے بھی ایسا سمجھا ہوتا، تو ان کا فرض تھا کہ جس وقت خلافت کا مسئلہ طے ہو رہا تھا تو یہ لوگ کہتے کہ ابھی صرف ستر (۷۰) بہتر (۷۲) دن پہلے غدیر خم کے موقعہ پر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا دیا تھا اور اہتمام سے اس کا اعلان فرمایا تھا الغرض یہ مسئلہ خود حضور ﷺ طے فرما گئے ہیں اور حضرت علیؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد فرما گئے ہیں، اب وہی حضور ﷺ کے خلیفہ اور آپ ﷺ کی جگہ امت کے حکمران اور سربراہ ہیں .... لیکن معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات کہی اور نہ کسی اور نے، سبھی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کی یہ بات مان لی جائے کہ حضور ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی ؓ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا؟ ان کا فرض تھا کہ حضور ﷺ کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے۔ یہی بات حضرت حسن ؓ کے پوتے حسن مثلث نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں رافضیوں والا غالیانہ عقیدہ رکھتا تھا اور حضور ﷺ کے ارشاد من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا۔ ولو كان الامر كما تقولون ان الله جل وعلى ورسوله صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الامر والقيام على الناس بعده فان عليا اعظم الناس خطيئة وجر ما اذ ترك امر رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ (1) ترجمہ: اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث نے فرمایا۔ اما و الله لو يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم بذالك الامر و السلطان و القيام على الناس لا فصح به كما افصح بالصلاة و الزكاة و الصيام و الحج ولقال ايها الناس ان هذا الولي بعدي اسمعوا واطيعوا. (1) تشریح: سن لو! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو بات آپ ﷺ اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ ﷺ نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔ اس کے بعد یہ بات وضاھت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اس خطاب میں آپ ﷺ نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی۔ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ ﷺ سے ملے تھے، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی (2) اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آنحضرت ﷺ سے جن لوگوں نے شکایت کی، حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے تمام رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا۔ "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے، آگے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ" کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔ امید ہے کہ یہاں تک جو کچھ اس مسئلہ کے بارے میں عرض کیا گیا وہ ہر صاحب ایمان سلیم القلب کے لئے ان شاء اللہ کافی و شافی ہو گا۔ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
Top