معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2071
عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: «مَنْ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ؟» قَالَ: الَّذِي عَقَرَ النَّاقَةَ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: «صَدَقْتَ، فَمَنْ أَشْقَى الْآخَرِينَ؟» قَالَ: لَا عَلِمَ لِي يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: «الَّذِي يَضْرِبُكَ عَلَى هَذِهِ» ، وَأَشَارَ إِلَى يَافُوخِهِ فَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ: وَدِدْتُ أَنَّهُ قَدْ انْبَعَثَ أَشْقَاكُمْ، فَيَخْضِبُ هَذِهِ - يَعْنِي لِحْيَتَهُ - مِنْ هَذِهِ» ، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مُقَدَّمِ رَأْسِهِ " (رواه الطبرانى فى الكبير)
فضائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ
حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے (ایک دن) فرمایا، (بتلاؤ) اگلی امتوں میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت کون تھا؟ تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ اے رسول خدا (قوم ثمود کا) وہ بدبخت آدمی تھا جس نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اس کو مار ڈالا تھا (جس کو حضرت صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے پتھر کی چٹان سے پیدا فرمایا تھا، یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا کہ تم نے سچ اور ٹھیک بتایا، (اب بتلاؤ) بعد کے لوگوں میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت کون ہو گا؟ انہوں نے عرض کیا، مجھ کو اس کا علم نہیں، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کے سر کے اگلے حصہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ (انتہائی بدبخت اور سب سے زیادہ شقی) وہ ہو گا جو (تلوار سے) تمہاری اسی جگہ پر ضرب لگائے گا ..... تو حضرت عیل مرتضیٰ ؓ (حضور ﷺ کے اس ارشاد کی بنا پر اپنی داڑھی پکڑ کر) فرمایا کرتے تھے، اے عراق والوں میں آرزو مند ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی شقی اور بدبخت ترین آدمی اٹھے اور میری اس داڑھی کو رنگ دے میری اس پیشانی کے خون سے۔ (معجم کبیر)

تشریح
قرآن مجید کے آخری پارہ کے سورہ الشمس کے آخر میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بدترین کافرانہ سرکشی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا "كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ﴿١١﴾ إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا" الایۃ .... ان آیتوں میں اس شخص کو "أَشْقَا" یعنی انتہائی درجہ کا بدبخت فرمایا گیا ہے جس نے اس اونٹنی کو مار ڈالا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر پیدا فرمایا تھا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے حضور ﷺ کے دریافت فرمانے پر انہیں آیات کی روشنی میں عرض کیا تھا کہ اگلی امتوں میں کا انتہائی درجہ کا شقی اور بدبخت وہ تھا جس نے اس ناقہ کو مار ڈالا۔ اس عاجز راقم سطور کا خیال ہے کہ حضرت علی ؓ سے حضور ﷺ کا یہ سوال دراصل تمہید تھی۔ اس پیش گوئی کی جو آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے خود انہیں کے بارے میں فرمائی، آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے حضرت علیؓ کی شہادت کی پیشن گوئی اس تفصیل کے ساتھ فرمائی کہ بدبخت قاتل تمہارے سر کے اگلے حصہ پر تلوار سے ضرب لگائے گا جس کے نتیجہ میں تمہاری یہ داڑھی خون سے رنگ جائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ وہ قاتل بعد میں آنے والے لوگو ں میں سب سے زیادہ اشقیٰ اور انتہائی درجہ کا بدبخت ہو گا۔ آگے حضرت صہیب ؓ کے بیان سے معلوم ہوا کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ اپنی شہادت کے بارے میں حضور ﷺ کی اس پیش گوئی کو اپنے حق میں بڑی بشارت سمجھتے تھے اور اپنے دار الحکومت عراق کے شہر کوفہ میں فرمایا کرتے تھے کہ اے اہل عراق میں اس کا آرزو مند ہوں اور شوق سے اس دن کا انتظار کر رہا ہوں، جب تم میں کا بدبخت ترین انسان میرے سر کے خون سے میری داڑھی کو رنگ دے گا۔ اور جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا آپ ﷺ کی وفات کے قریبا تیس سال بعد بالکل اسی طرح حضرت علیؓ کی شہادت ہوئی۔ ؓ وارضاہ۔ بلاشبہ پیشنگوئی اور اس کا ٹھیک اسی طرح پورا ہو جانا آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے۔ صَلَّى الله عَلَيْهِ واله وصحبه وبارك وَسَلَّمْ. حضرت علی مرتضیٰؓ کی شہادت صاحب مجمع الفوائد نے حضرت صہیبؓ کی مندرجہ بالا روایت کے بعد متصلا معجم کبیر طبرانی ہی کے حوالہ سے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی شہادت کا واقعہ کس قدر تفصیل سے اسمٰعیل ابن راشد کی روایت سے نقل کیا ہے، ذیل میں اس کا حاصل اور خلاصہ نذر ناظرین کیا جانا مناسب معلوم ہوا، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ فرقہ خوارج کا کچھ تعارف کرا دیا جائے۔ یہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے لشکر ہی کا ایک خاص گروہ تھا جو اپنی حماقت اور ذہنی کجروی کی وجہ سے ان کے ایک فیصلہ کو غلط اور معاذ اللہ قرآن مجید کے صریح خلاف سمجھ کر ان کا مخالف اور آمادہ بغاوت ہو گیا تھا، ان کی تعداد کئی ہزار تھی، پھر حضرت علی مرتضیٰ کی افہام و تفہیم کے نتیجہ میں ان میں سے ایک خاص تعداد راہ راست پر آ گئی، لیکن ان کی بڑی تعداد اپنی گمراہی پر قائم رہی اور قتل و قتال پر آمادہ ہو گئی بالآخر حضرت علی مرتضیٰؓ کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنی پڑی (تاریخ میں یہ واقعہ جنگ نہروان کے نام سے معروف ہے) جس کے نتیجے میں ان میں سے اکثر کا خاتمہ ہو گیا، کچھ باقی رہ گئے، ان باقی رہ جانے والوں میں سے تین شخص برک ابن عبداللہ عمرو ابن بکر تمیمی اور عبدالرحمٰن ابن ملجم مکہ میں جمع ہوئے انہوں نے صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سارا فتنہ ان لوگوں کی وجہ سے جن کے ہاتھوں میں حکومت ہے، ان کو کسی طرح ختم کر دیا جائے، اس سلسلہ میں تین حضرات کو متبعین طور پر نامزد کیا .... حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت علی مرتضیٰؓ ..... برک نے کہا کہ معاویہ کو قتل کر دینے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، عمرو تیمی نے کہا کہ عمرو بن العاص کو ختم کردینے کی میں ذمہ داری لیتا ہوں، عبدالرحمٰن ابن ملجم نے کہا کہ علی کو قتل کر دینے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، پھر انہوں نے آپس میں اس پر عہد و پیمان کیا اور اس کے لئے یہ اسکیم بنائی کہ ہم میں سے ہر ایک ۱۷؍ رمضان المبارک کو جب کہ یہ لوگ فجر کی نماز پڑھانے کے لئے نکل رہے ہوں، حملہ کر کے اپنا کام کریں، اس دور میں نماز کی امامت خلیفہ وقت یا ان کے مقرر کئے ہوئے امیر ہی کرتے تھے۔ اپنے بنائے ہوئے اس پروگرام کے مطابق برک ابن عبداللہ حضرت معاویہؓ کے دارالحکومت دمشق روانہ ہو گیا اور عمرو تمیمی مصر کی طرف جہاں کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن العاصؓ تھے، اور عبدالرحمٰن ابن ملجم حضرت علی مرتضیٰؓ کے دارالحکومت کوفہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ ۱۷؍ رمضان کی صبح فجر کی نماز پڑھانے کے لئے حضرت معاویہ تشریف لے جا رہے تھے، برک نے تلوار سے حملہ کیا، حضرت معاویہؓ کو کچھ محسوس ہو گیا اور انہوں نے دوڑ کر اپنے کو بچانا چاہا پھر بھی برک کی تلوار سے ان کی ایک سرین پر گہرا زخم آ گیا، برک کو گرفتار کر لیا گیا (اور بعد میں قتل کر دیا گیا) زخم کے علاج کے لئے طبیب بلایا گیا، اس نے زخم کو دیکھ کر کہا کہ جس تلوار کا زخم ہے، اس کو زہر میں بجھایا گیا ہے، اسو کے علاج کی ایک صورت یہ ہے کہ گرم لوہے سے زخم کو داغ دیا جائے اس طرح امید ہے کہ زہر سارے جسم میں سرایت نہیں کر سکے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میں آپ کو ایک ایسی دوا تیار کر کے پلاؤں جس کا اثر یہ ہو گا کہ اس کے بعد آپ کی کوئی اولاد نہ ہو سکے گی، حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ گرم لوہے کے داغ کو تو میں برداشت نہ کر سکوں گا اس لئے مجھے وہ دوا تیار کر کے پلا دی جائے، میرے لئے دو بیٹے یزید اور عبداللہ کافی ہیں ..... ایسا ہی کیا گیا اور حضرت معاویہ صحتیاب ہو گئے۔ عمرو تمیمی اپنے پروگرام کے مطابق حضرت عمرو بن العاصؓ کو ختم کرنے کے لئے مصر پہنچ گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کہ ۱۷؍ رمضان کی رات میں حضرت عمرو بن العاص کو ایسی شدید تکلیف ہو گئی کہ وہ فجر کی نماز پڑھانے کے لئے مسجد نہیں آ سکے تھے انہوں نے ایک دوسرے صاحب خارجہ بن حبیب کو حکم دیا کہ وہ ان کی جگہ مسجد جا کر نماز پڑھائیں چنانچہ وہ آئے اور نماز پڑھانے کے لئے امام کے مصلے پر کھڑے ہوئے، تو عمرو نے ان کو عمرو ابن العاص سمجھ کر تلوار سے وار کیا۔ وہ وہیں شہید ہو گئے، عمرو گرفتار کر لیا گیا، لوگ اس کو پکڑ کر مصر کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن العاصؓ کے پاس لے گئے، اس نے دیکھا کہ لوگ ان کو امیر کے لفظ سے مخاطب کر رہے ہیں، اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ بتلایا گیا کہ یہ مصر کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن العاصؓ ہیں، اس نے کہا میں نے جس شخص کو قتل کیا وہ کون تھا؟ بتلایا گیا وہ خارجہ ابن حبیب تھے، اس بدبخت نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو مخاطب کو کے کہا اے فاسق! میں نے تجھ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا تو نے یہ ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ وہ تھا جو ہو گیا، اس کے بعد خارجہ ابن حبیب کے قصاص میں عمرو تمیمی کو قتل کر دیا گیا۔ ان میں سے تیسرا خبیث ترین اور شقی ترین بدبخت عبدالرحمٰن ابن ملجم اپنے پروگرام کے مطابق کوفہ پہنچ گیا تھا وہ ۱۷؍ رمضان کو فجر سے پہلے مسجد کے راستے میں چھپ کر بیٹھ گیا، حضرت علی مرتضیٰؓ کا معمول تھا کہ وہ گھر سے نکل کر الصلوة الصلوة پکارتے ہوئے اور لوگوں کو نماز کے لئے بلاتے ہوئے مسجد تشریف تے۔ اس دن میں حسب معمول اسی طرح تشریف لا رہے تھے کہ اس بدبخت ابن ملجم نے سامنے سے آ کر اچانک آپ کی پیشانی پر تلوار سے وار کیا اور بھاگا لیکن تعاقب کر کے لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت حسن ؓ سے فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو اس قاتل ابن ملجم کے بارے میں جیسا چاہوں گا فیصلہ کروں گا چاہوں گا تو معاف کر دوں گا، اور چاہوں گا تو قصاص میں قتل کرا دوں گا اور اگر میں اس میں فوت ہو جاؤں تو پھر اس کو شرعی قانون قصاص کے مطابق قتل کر دیا جائے لیکن مثنہ نہ کیا جائے (یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء الگ الگ نہ کاٹے جائیں) کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ کٹ کھنے کتے کو بھی مارا جائے تو اس کو مثلہ نہ کیا جائے۔ حضرت علی مرتضیٰ ؓ خبیث ابن ملجم کی اس ضرب کے نتیجہ میں واصل بحق ہو گئے تو حضرت حسن ؓ کے حکم سے اس بدبخت کو قتل کیا گیا، اور غیظ و غضب سے بھرے ہوئے لوگوں نے اس کی لاش کو جلا بھی دیا۔
Top