معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2082
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَايَ فِي الجَنَّةِ. (رواه الترمذى)
حضرت زبیر ؓ
حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے سنا آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ طلحہؓ اور زبیرؓ جنت میں میرے ہمسایہ ہوں گے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کا مطلب واضح ہے کسی تشریح کا محتاج نہیں البتہ یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ ان دونوں حضرات (حضرت طلحہؓ و زبیرؓ) رسول اللہ ﷺ سے سنے ہوئے فضائل خاص طور سے آپ ﷺ کے وہ ارشادات جن میں ان دونوں بزرگوں کے شہید فی سبیل اللہ اور جنتی ہونا ذکر فرمایا گیا ہے خاص اہتمام سے بیان فرماتے تھے چنانچہ یہی حدیث جس میں ان دونوں حضرات کی یہ عظیم ترین فضیلت بیان ہوئی ہے کہ "یہ دونوں جنت میں میرے ہمسایہ ہوں گے، اس کے لئے حضرت علیؓ نے یہ پیرایہ بیان اختیار فرمایا کہ "سَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ" کہ میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ پیرایہ بیان اسی خاص اہتمام کا مظہر ہے اور اس کی خاص وجہ غالباً یہ تھی کہ ان دونوں حضرات کو جنگ جمل کے موقعہ پر جب کہ یہ دونوں جنگ سے کنارہ کش ہو گئے تھے حضرت علی مرتضیٰؓ کے لشکر کے بعض بدبختوں نے ان کو شہید کیا تھا۔ اس جنگ کے بارے میں اتنی وضاحت یہاں بھی کر دینا ضروری ہے کہ یہ اس دنیا کی وہ عجیب و غریب اور عبرت آموز جنت تھی جس کے دونوں فریقوں میں سے کوئی ایک بھی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا، دونوں ایک دوسرے کے فضائل و مناقب سے واقف اور ان کے معترف تھے، لیکن کچھ شیاطین الانس عبداللہ بن سبا اور اس کے چیلوں نے اپنی شیطنت و فریب کاری سے رات کے اندھیرے میں دونوں فریقوں میں جنگ کرا دینے میں کامیابی حاصل کر لی ..... بہرحال یہ جنگ بلا ارادہ محض دھوکہ میں ہوئی جنگ کے بعد دونوں فریقوں کو انتہائی رنج و افسوس ہوا، اور وہ برابر استغفار اور تلافی کی ممکن کوشش کرتے رہے۔ اس جنگ کے بارے میں تفصیلات ان کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں جن میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔
Top