معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2083
عَنْ الْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّةِ الْاَنْصَارِىِّ قَالَ: سَأَلَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ فِي الشِّعْبِ: «هَلْ رَأَيْتَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ؟» قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، رَأَيْتُهُ إِلَى حَرِّ الْجَبَلِ، وَعَلَيْهِ عَكَرٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَهَرَبْتُ إِلَيْهِ لِأَمْنَعَهُ، فَرَأَيْتُكَ فَعَدَلْتُ إِلَيْكَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُقَاتِلُ مَعَهُ» . فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَأَجِدُهُ بَيْنَ نَفَرٍ سَبْعَةٍ صَرْعَى، فَقُلْتُ لَهُ: ظَفِرَتْ يَمِينُكَ، أَكُلَّ هَؤُلَاءِ قَتَلْتَ؟ قَالَ: أَمَّا هَذَا لِأَرْطاةَ بْنِ شُرَحْبِيلَ، وَهَذَا فَأَنَا قَتَلْتُهُمَا، وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَتَلَهُمْ مَنْ لَمْ أَرَهُ. قُلْتُ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه ابن منذه فى مسنده والطبرانى فى المعجم الكبير و ابو نعيم فى الحلية)
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ
حضرت حارث بن صمہ انصاریؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ احد کے دن جب کہ رسول اللہ ﷺ گھاٹی میں تھے، آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: "کہ تم نے عبدالرحمن بن عوف کو دیکھا ہے؟" میں نے عرض کیا "ہاں یا رسول اللہ! مین نے ان کو دیکھا ہے، پہاڑ کے سیاہ پتھروں والے حصے کی طرف، اور ان پر حملہ کر رہی تھی مشرکین کی ایک جماعت، تو میں نے ارادہ کیا ان کی پاس جانے کا تا کہ میں ان کو بچاؤں کہ اسی وقت میری نگاہ آپ ﷺ پر پڑی، تو میں آپ کی طرف چلا آیا!"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کے فرشتے عبدالرحمن بن عوف کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔" (حارث کہتے ہیں کہ) حضور ﷺ سے یہ بات سننے کے بعد میں عبدالرحمٰن بن عوف کی طرف لوٹ آیا، تو می نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ سات مشرکوں کی لاشیں ان کے پاس پڑی تھیں تو میں نے ان سے کہا۔ کامیاب اور فتح یاب رہیں تمہارے ہاتھ، کیا ان سب کو تم نے قتل کیا ہے؟ انہوں نے کہا: کہ یہ ارطاہ بن عبد شرحبیل اور یہ دو ان کو تو میں نے قتل کیا ہے، باقی یہ چار میں نے نہیں دیکھا کہ ان کو کس نے قتل کیا ہے۔ (ان کا یہ جواب سن کر) میں نے کہا کہ "صادق ہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ "۔ (روایت کیا اس کو ابن منذہ نے اپنے مسند میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں)

تشریح
حدیث کا مطلب صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ غزوہ احد کے بارے میں مختصراً کچھ ذکر کر جائے۔ غزوہ بدر جو رمضان المبارک ۲؁ھ میں ہوا تھا م، اس میں مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے، اور سامان جنگ نہ ہونے کے برابر تھا، کیوں کہ مدینہ سے کسی باقاعدہ جنگ کے ارادہ سے چلے ہی نہ تھے، اس لئے جو سامان جنگ ساتھ لے سکتے تھے وہ بھی ساتھ نہیں اور مکہ کے مشرکین کے لشکر کی تعداد تین گنی سے بھی زیادہ ایک ہزار تھی، وہ جنگ ہی کے ارادہ سے پورے سامان جنگ کے ساتھ لیس ہو کر آئے تھے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خاص غیبی مدد سے مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی، مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں سے قتل ہو کر مشرکین مکہ میں ستر (۷۰) جہنم رسید ہوئے جن میں ابو جہل اور اس جیسے کئی دوسرے قریشی سردار بھی تھے اور ستر (۷۰) کو قیدی بنا لیا گیا، باقی سب نے شکست کھا کر راہ فرار اختیار کی جنگ کے اس نتیجہ نے مکہ کے خاص ان مشرکوں میں جو جنگ میں شریک نہیں تھے، مسلمانوں کے خلاف سخت غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دی اور انہوں نے طے کیا کہ ہمیں اس کا انتقام لینا ہے اور پوری تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینا ہے، چنانچہ پورے ایک سال تک ان لوگوں نے تیاری کی اور واقعہ بدر کے ٹھیک ایک سال بعد شوال ۳؁ھ میں تین ہزار کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں مسلمانوں کو ختم کر دینے کے ناپاک ارادہ کے ساتھ روانہ ہوا اور منزلیں طے کرتا ہوا مدینہ کی قریب پہنچ گیا، رسول اللہ ﷺ جاں نثار صحابہؓ کو ساتھ لے کر مقابلہ کے لئے تشریف لائے، آپ کے ساتھ مجاہدین کی تعداد صرف سو تھی ..... مدینہ کی آبادی سے دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر احد پہاڑ ہے، اس کے دامن میں ایک وسیع میدان ہے آپ ﷺ نے وہیں صحابہؓ کے لشکر کو اس طرف صف آرا کیا کہ احد پہاڑ ان کی پشت پر تھا جس کی وجہ سے یہ اطمینان تھا کہ دشمن پیچھے سے حملہ نہیں کر سکے گا، لیکن پہاڑ میں ایک درہ ایسا تھا کہ دشمن اس درہ سے آ کر پیچھے حملہ کر سکتا تھا، اس کے لئے آپ ﷺ نے یہ انتظام فرمایا کہ پچاس تیر اندازوں کی ایک جماعت کو درہ کے قریب کی ایک پہاڑی پر متعین کیا اور عبداللہ بن جبیرؓ کو (جو تیر اندازی میں خود بھی خاص مہارت رکھتے تھے) اس دستہ کا امیر مقرر فرمایا اور ہدایت فرما دی کہ "وہ اسی جگہ رہیں" آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ دشمن لشکر اس درہ کی طرف سے آ کر حملہ نہ کر سکے۔ جنگ شروع ہوئی پہلے ہی مرحلہ میں مسلمان مجاہدین نے ایسے زور کا حملہ کیا کہ دشمن لشکر (جس کی تعداد چار گنا سے زیادہ تھی) کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا، یہاں تک کہ مجاہدین نے سمجھ لیا کہ جنگ ہماری فتح پر ختم ہو گئی اور وہ دشمن کا چھوڑا ہوا مال غنیمت بٹورنے میں مشغول ہو گئے ..... درہ پر متعین کی ہوئی تیر اندازوں کی جماعت نے جب یہ حال دیکھا تو ان میں سے بھی بہت سے مال غنیمت بٹورنے کے لئے پہاڑی سے نیچے اتر کر میدان کی طرف آنے لگے، ان کے امیر عبداللہ بن جبیرؓ نے ان کو روکنا چاہا اور یاد دلایا کہ حضور ﷺ نے ہدایت فرمائی تھی کہ "تم کو ہر حال میں یہیں رہنا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکم تو اس وقت تک کے لئے تھا جب تک جنگ جاری ہو، مگر اب جب کہ جنگ ختم ہو گئی، اور دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا، تو ہم یہاں کیوں رہیں، الغرض ان لوگوں نے اپنے امیر کی بات نہیں مانی اور پہاڑی سے نیچے اتر کر یہ بھی مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے، مگر دستہ کے امیر عبداللہ بن جبیر اور چند ساتھی حضور ﷺ کی ہدایت کے مطابق پہاڑی ہی پر رہے ..... خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مشرکین کے ایک دستہ کو ساتھ لے کر اس درہ کی طرف سے آ گئے، عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے جو پہاڑی پر تھے، روکنا چاہا، لیکن وہ نہیں روک سکے اور سب کے سب شہید ہو گئے، خالد بن ولید نے اپنے دستہ کے ساتھ درہ میں سے آ کر پیچھے سے اچانک مسلمانوں پر ایسے وقت میں حملہ کر دیا جب وہ لوگ غلطی سے جنگ ختم سمجھ چکے تھے، اس حملہ نے بہت سے مسلمانوں کو حواس باختہ کر دیا اور وہ جم کر اور منظم ہو کر اس حملہ کا مقابلہ نہیں کر سکے، ان میں افرا تفری کی کیفیت پیدا ہو گئی، متعدد جلیل القدر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، حتیٰ کہ خود حضور ﷺ بھی شدید طور پر زخمی ہوگئے۔ (اس صورت حال کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے) ..... پھر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے پانسہ پلٹا، صحابہ کرام جو منتشر ہو گئی تھے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کی خبر نہ تھی، یہ معلوم ہونے کے بعد کہ حضور ﷺ بفضلہٖ تعالیٰ زندہ سلامت ہیں، پھر منظم ہو گئے، اور اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے پھر دشمن کو شکست دی ..... مندرجہ بالا حارث بن صمہؓ کی اس حدیث کا تعلق بظاہر اسی مرحلہ سے ہے، معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبدالرحمٰن بن عوف کا یہ حال منکشف کیا گیا کہ وہ مشرکین سے جنگ کر رہے ہیں اور اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ شریک جنگ ہیں، اور ان کی مدد کر رہے ہیں آپ نے اسی بنا پر حارث بن صمہؓ سے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے بارے میں دریافت کیا، اور انہوں نے وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا، ان کا جواب سن کر حضور ﷺ نے فرمایا "أَمَا إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُقَاتِلُ مَعَهُ" (معلوم ہونا چاہئے کہ فرشتے ان کے ساتھ ہو کر جنگ کر رہے ہیں) حضور ﷺ سے یہ سننے کے بعد حارث بن صمہؓ پھر وہاں پہنچے جہاں انہوں نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اس حال میں دیکھا تھا کہ مشرکین کی ایک جماعت ان پر حملہ کر رہی ہے تو انہوں نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ سات مشرکوں کی لاشیں پڑیں ہیں، عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے انہوں نے دریافت کیا، کیا ان سب کو تم نے ہی جہنم رسید کیا ہے؟ تو انہوں نے سات میں سے تین کے بارے میں کہا کہ "ان کو تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے میں نے ہی قتل کیا ہے، باقی چار کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ ان کو کس نے قتل کیا، ان کا یہ جواب سن کر حارث بن صمہؓ کہہ اٹھے کہ: "صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ" مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ "عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ساتھ فرشتے جنگ کر رہے ہیں، اس کو میں نے آنکھوں سے دیکھ لیا اور میرا ایمان تازہ ہو گیا"۔ اس حدیث سے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی یہ خصوصیت معلوم ہوئی کہ وہ جنگ احد کے خاص آزمائشی وقت میں بھی استقامت کے ساتھ مشرکین سے جنگ کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے جنگ میں ان کی مدد کر رہے تھے ..... بلاشبہ یہ واقعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے خاص فضائل میں سے ہے، نیز حضور ﷺ نے ان کے بارے میں جو فرمایا تھا کہ "فرشتے جنگ میں ان کی مدد کر رہے ہیں" یقیناً یہ حضور ﷺ کا معجزہ تھا۔
Top