معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2085
عَنْ الْمُغِيرَةَ أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَتَاهُ بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّاس فَإِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ يُصَلِّي بِهِم ، فَلَمَّا رَآهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ هَمَّ أَنْ يَرْجِعَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ ! فَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ مَا أَدْرَكْنَا وقضينا مَا فَاتَنَا . (رواه الضياء المقدسى فى المختاره)
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے، وہ آپ ﷺ کے لئے وضو کا پانی لائے، آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور اس وضو میں خفین پر مسح کیا پھر آپ لوگون کے ساتھ نماز کی جماعت میں شریک ہوئے، اس وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ امام کی حیثیت سے نماز پڑھا رہے تھے، تو جب عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے آپ ﷺ کو دیکھا، ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ کر جماعت میں شامل ہو جائیں، (اور باقی نماز حضور ﷺ پڑھائیں) لیکن آنحضرت ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ (پیچھے نہ ہٹو .... آگے حضرت مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ تو ہم دونوں نے نماز باجماعت کا جو حصہ پایا وہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی اقتداء میں پڑھا، اور جو فوت ہو گیا تو وہ ہم نے بعد میں ادا کیا۔ (مختار لضیاء المقدسی)

تشریح
اس روایت میں واقعہ کے بیان میں انتہائی درجہ کے اجمال اور اختصار سے کام لیا گیا ہے، واقعہ کی پوری تفصیل حضرت مغیرہؓ ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتی ہے جو سنن سعید بن منصور کے حوالہ سے "کنز العمال" میں مندرجہ بالا روایت کے ساتھ ہی درج کی گئی ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی نے مغیرہ بن شعبہؓ سے دریافت کیا کہ حضرت ابو بکرؓ کے علاوہ کسی اور شخص کی اقتداء میں بھی رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز پڑھی ہے؟ تو مغیرہؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب صبح صادق کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے اشارہ فرمایا تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ قضاء حاجت کے لئے جانا چاہتے ہیں، تو میں آپ کے ساتھ ہو گیا، پھر آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھ میں بھی ساتھیوں سے الگ ہو کر ایک طرف چل دئیے یہاں تک کہ لوگوں نے بہت دور ہو گئے .... پھر رسول اللہ ﷺ مجھے چھوڑ کر ایک طرف چلے گئے یہاں تک کہ میری نظر سے بھی آپ ﷺ غائب ہو گئے، کچھ دیر کے بعد فارغ ہو کر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا۔ "ہاں ہے" پھر میں اپنے نے مشکیزہ سے پانی لیا جو میری سواری کے کجاوے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، اور آپ ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے پہلے اپنے دونوں ہاتھ بہت اچھی طرح دھوئے اور پانی میں آپ ﷺ کے ہاتھوں پر ڈالا، پھر آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھ (کہنیوں تک) دھوئے اور سر کا مسح فرمایا اور خفین پر بھی مسح فرمایا پھر ہم دونوں اپنی سواریوں پر سوار ہو کر واپس آئے اور ایسے وقت پہنچے کہ فجر کی جماعت شروع ہو چکی تھی، عبدالرحمٰن بن عوف ؓ امام کی حیثیت سے نماز پڑھا رہے تھے وہ دوسری رکعت میں تھے تو میں نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو بتلانا چاہا (یعنی یہ کہ حضور ﷺ تشریف لے آئے ہیں) تو آپ ﷺ نے مجھے منع فرما دیا، اور دوسری رکعت جو ہم نے پائی تھی وہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی اقتداء میں ادا کی، اور پہلی رکعت جو ہمارے آنے سے پہلے ہو چکی تھی اس کو ہم دونوں نے بعد میں ادا کیا۔ اسی واقعہ کی دوسری بعض روایات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ فجر کی نماز میں جب زیادہ تاخیر ہونے لگی، (اور آپ ﷺ کے سفر کے رفقاء میں سے کسی کو علم نہیں تھا کہ حضور ﷺ کدھر تشریف لے گئے ہیں اور کب تک تشریف لائیں گے) تو مشورہ سے طے ہوا کہ اب نماز ادا کر لی جائے اور لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو امام بنا کر نماز شروع کر دی، تو جیسا کہ مندرجہ بالا روایت سے معلوم ہو چکا، ایک رکعت ہو چکی تھی کہ آنحضرت ﷺ اور مغیرہ بن شعبہؓ پہنچے اور جماعت میں شامل ہو کر دوسری رکعت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی اقتداء میں ادا کی اور پہلی رکعت جو فوت ہو چکی تھی اس کو بعد میں ادا کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ خاص امتیازی فضیلت بھی حاصل ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی اور انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا تو آپ ﷺ نے ان کو پیچھے ہٹنے سے منع فرما دیا۔
Top