معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2090
عَنْ قَيْسِ ابْنِ أَبِىْ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنِ أَبِىْ وَقَّاصٍ يَقُولُ: «وَاللهِ إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ، رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَرَأَيْتُنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا الْحُبْلَةُ وَوَرَقُ السَّمُرُ، وَإِنَّ كَانَ أَحَدُنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَالَهُ خِلْطٌ» ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي عَلَى الْاِسْلَامِ، لَقَدْ خِبْتُ، إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي، وَكَانُوْا وَشَواَبِهِ اِلَى عُمَرَ ، وَقَالُوْا: لَا يُحْسِنُ يُصَلِّىْ. (رواه البخارى ومسلم)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے (جو تابعی ہیں) انہوں نے بیان کیا کہ سنا میں نے سعد بن ابی وقاصؓ سے فرماتے تھے: "عربوں میں سے میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں (اسلام کے دشمنوں پر) تیر اندازی کی اور میں نے دیکھا اپنے کو اور اپنے ساتھی دوسرے صحابہ کو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (دشمنانِ اسلام سے) جہاد کرتے تھے ایسی حالت میں کہ ہمارے لئے کھانے کا کوئی سامان نہیں ہوتا تھا، سوائے ببول (کیکر) کی پھلیوں اور اسی کے پتوں کے (ببال کی ان پھلیوں اور پتوں کے کھانے کی وجہ سے) ہم لوگوں کو اجابت ہوتی تھی بکریوں کی مینگنی کی طرح، (بالکل خشک) جس میں کوئی چیک نہیں ہوتی تھی، پھر اب بنو اسد مجھے سرزنش کرنے لگے ہیں، اسلام کے بارے میں پھر تو میں خائب و نامراد رہ گیا اور میرے سارے عمل غارت گئے (واقعہ یہ ہوا تھا کہ) بنو اسد کے لوگوں نے اس بات کی شکایت کی تھی حضرت عمر ؓ سے کہ یہ نماز اچھی نہیں پڑھتے۔"(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو کوفہ کا ولی و حاکم مقرر فرمایا تھا، قاعدہ کے مطابق وہی نماز کی امامت بھی فرماتے تھے ...... حضرت زبیر بن عوام کے پردادا کا نام اسد ہے اسی وجہ سے حضرت زبیرؓ کے پورے خاندان کو "بنو اسد" کہا جاتا تھا۔ اسی خاندان کے کچھ لوگوں نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں شکایت بھیجی کہ سعد نماز اچھی نہیں پڑھتے حضرت عمر ؓ نے اس بارے میں حضرت سعدؓ کو لکھا کہ تمہارے بارے میں یہ شکایت کی گئی ہے، جب یہ بات حضرت سعدؓ تک پہنچی تو یہ فطری طور پر سخت متاثر ہوئے اور وہ فرمایا جو اس روایت میں قیس بن حازم سے نقل کیا گیا کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے دشمنانِ اسلام پر تیر اندازی کی۔ واقعہ یہ ہے کہ ہجرت کے پہلے ہی سال صحابہ کرامؓ ایک جماعت کو جس میں سعد بن ابی وقاصؓ بھی تھے، رسول اللہ ﷺ نے جہاد کے لئے روانہ فرمایا، اسی غزوہ میں سعد بن ابی وقاصؓ نے تیر اندازی کی، جہاد اسلامی کی تاریخ میں یہ پہلی تیر اندازی تھی، اسی واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ اللہ کی توفیق سے راہ خدا میں تیر سب سے پہلے میں نے ہی چلایا۔ آگے حضرت سعدؓ نے اپنا اور اپنے ساتھ والے مومنین سابقین کے مجاہدوں اور قربانی کا یہ حال بیان فرمایا کہ "ہم ایسی بےسرو سامانی کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کفار سے جہاد کرتے تھے کہ ہمارے پاس انسانی خوراک اور غذا کی قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، ہم ببول (کیکر) کے درخت کی پھلیوں، اور اس کے پتوں کو بطور غذا استعمال کرتے تھے، (جو دراصل جنگل میں چرنے والی بکریاں عام طور سے کھاتی ہیں) اور پھر اسی وجہ سے ہم لوگوں کو بکریوں کی مینگنیوں ہی طرح اجابت ہوتی تھی۔ اپنا یہ حال بیان فرمانے کے بعد حضرت سعدؓ نے دلی دکھ کے ساتھ فرمایا کہ اب یہ بنو اسد کے کچھ لوگ میری سرزنش کرتے ہیں اسلام کے بارے میں، تو اگر ان کی شکایت صحیح ہو تو پھر تو میں بالکل ہی ناکام اور نامراد رہ گیا، اور میرے سارے عمل غارت و ضائع ہو گئے۔ اگرچہ شکایت کرنے والوں نے حضرت عمرؓ سے حضرت سعدؓ کے نماز اچھی طرح نہ پڑھنے ہی کی شکایت کی تھی، لیکن نماز چونکہ اسلام کا اولین رکن ہے، اور اسلام کے قالب کی گویا روح اور جان ہے۔ اس لئے حضرت سعدؓ نے نماز اچھی نہ پڑھنے کی شکایت کو ناقص الاسلام ہونے کی شکایت سے تعبیر فرمایا، (تُعَزِّرُنِي عَلَى الْاِسْلَامِ)...... آگے اسی روایت میں ہے کہ حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو شکایت کے جواب میں لکھا کہ میں ویسی ہی نماز پڑھاتا ہوں، جیسے حضور ﷺ کو نماز پڑھاتے دیکھا تھا، پہلی دو رکعتوں میں قرأت طویل کرتا ہوں اور بعد کی دو رکعتوں میں مختصر۔ حضرت عمر ؓ نے جواب میں ان کو لکھا۔ "میرا بھی تمہارے بارے میں یہی خیال تھا مطلب یہ ہے کہ میں نے خود اس شکایت کو صحیح نہیں سمجھا تھا، لیکن میں نے اصول و ضابطہ کے مطابق ضرور سمجھا کہ تم کو اس کی اطلاع کروکں، اور حقیقت حال دریافت کروں"۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے بنو اسد کے لوگوں کی شکایت کو رد فرما دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر اللہ کا کوئی بندہ کسی وقت ضروری سمجھے تو اپنی اسلامی خدمات اور اس سلسلہ کے ان مجاہدات کا بیان کرنا جن سے اس کی بڑائی ثابت ہو جائز ہے، اور یہ وہ تفاخر اور خودستائی نہیں ہے جس کی ممانعت ہے۔ حضرت سعدؓ سے متعلق یہ چند باتیں بھی قابل ذکر ہیں، جو صحیح احادیث روایت میں متفرق طور پر بیان کی گئیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپؓ نے خود بیان فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ایمان و اسلام کی دعوت کو قبول کرنے والا تیسرا اادمی ہوں، مجھ سے پہلے اللہ کی صرف دو بندوں نے اسلام قبول کیا تھا ..... وہ اس وقت صرف سترہ سالہ نوجوان تھے۔ ان کی والدہ نے ان پر انتہائی درجہ دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے باپ دادا کا مشرکانہ دین و مذہب چھوڑ کر اس نئے دین (اسلام)کو قبول نہ کریں، جب حضرت سعدؓ ان کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے قسم کھا لی کہ جب تک تو میری بات نہیں مانے گا میں نہ کچھ کھاؤں کی نہ کچھ پیوں گی۔ اسی کے مطابق انہوں نے عمل شروع کر دیا، کئی دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا، اس درمیان میں تین دفعہ ان پر بےہوشی بھی طاری ہوئی۔ لیکن حضرت سعدؓ ان کو منانے کی کوشش تو کرتے رہے، مگر اسلام چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے .... صحیح مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ اسی موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ "وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖوَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا" (1) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا یہ واقعہ بھی خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے بیعت تو کر لی تھی، لیکن جب اس مظلومانہ شہادت کے نتیجہ ہی میں باہمی خانہ جنگی اور قتل و قتال کا فتنہ شروع ہوا تو حضرت سعدؓ نے اپنے کو اس سے بالکل الگ اور دور رہنے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ جب حضرت علی مرتضیٰ ؓ یا ان کے بعض خاص رفیقوں نے حضرت سعدؓ کو جنگ میں اپنا ساتھ دینے کے لئے فرمایا یا تو انہوں نے کہا کہ: "مجھ کو ایسی تلوار لا کر دے دو کہ اس سے میں کافر پر وار کروں تو اس کو قتل کر دے اور اگر وار مومن پر ہو تو کوئی اثر نہ کرے" اور پھر اس خانہ جنگی اور قتل و قتال سے الگ رہنے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مدینہ طیبہ کی آبادی سے فاصلہ پر وادی عقیق میں ان کی جو زمین تھی، اس پر مکان بنا لیا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے الگ تھلگ وہیں پر رہائش اختیار فرما لی، چاہتے تھے کہ باہمی خانہ جنگی کی باتیں بھی ان تک نہ پہنچیں۔ اسلامی تاریخ سے معمولی سی واقفیت رکھنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ عراق اور پورا ملک فارس انہیں کی قیادت میں فتح ہوا۔ راجح قول کے مطابق حضرت معاویہؓ کے دور حکومت میں ۵۵؁ھ میں اپنے وادی عقیق والے مکان ہی میں وفات پائی وہاں سے جنازہ مدینہ منورہ لایا گیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ یہ بھی مسلمات میں سے ہے کہ عشرہ مبشرہ میں سب سے آخر میں وفات پانے والے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ہی ہیں۔ ؓ وراضاہ۔
Top