معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2094
عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَسُئِلَتْ: " مَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْلِفًا لَوِ اسْتَخْلَفَهُ؟ قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، فَقِيلَ: ثُمَّ مِنْ بَعْدِ أَبِي بَكْرٍ؟ قَالَتْ: عُمَرُ، قِيلَ مَنْ بَعْدَ عُمَرَ؟ قَالَتْ: أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ ". (رواه مسلم)
حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓ
ابن ابی ملیکہ (تابعی) سے روایت ہے کہ میں نے خود سنا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے، ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ اگر رسول اللہ ﷺ اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ مقرر فرماتے تو کس کو نامزد کرتے؟ تو حضرت صدیقہؓ نے فرمایا: ابو بکرؓ کو، اس کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ ابو بکر کے بعد کے لئے کس کو نامزد فرماتے تو حضرت صدیقہؓ نے فرمایا: عمرؓ کو، پھر دریافت کیا گیا عمرؓ کے بعد کے لئے کس کو نامزد فرماتے؟ تو انہوں نے فرمایا: ابو عبیدہ بن جراحؓ کو ..... (صحیح مسلم)

تشریح
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی رائے مبارک، اور رجحانات و عزائم سے واقفیت میں خاص امتیاز ھاصل تھا، انہوں نے حضور کا جو معاملہ اپنے والد ماجد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ، اور حضرت ابو عبیدہ ابن جراحؓ کے ساتھ دیکھا تھا، اس کی بنا پر انہوں نے یہ رائے قائم فرمائی۔ اور بالخصوص حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے بارے میں تو آنحضرت ﷺ نے اس کا اظہار بھی فرما دیا تھا، اسی سلسلہ معارف الحدیث میں حضور ﷺ کے مرض وفات کے بیان میں حضرت عائشہ صدیقہؓ ہی کا یہ بیان ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ نے ان سے مرض کے آغاز ہی میں فرمایا تھا کہ اپنے والد ابو بکر اور بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلوا لو، میں ابو بکر کی خلافت کے بارے میں وصیت لکھوا دوں۔ لیکن پھر آپ نے یہ لکھانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور اپنے اس یقین اطمینان کا اظہار فرمایا۔ "يابى الله والمومنون الا ابا بكر" (یعنی مجھے اطمینان ہے کہ اللہ مومنین ابو بکر کے سوا کسی کو قبول نہیں کریں گے) پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے آخری وقت میں جس طرح حضرت عمر ؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ مقرر فرمایا، اور جس طرح اس وقت کی امت مسلمہ نے اس کو بشرح صدر قبول کیا اس سے بھی حضرت عمرؓ کے بارے میں حضرت صدیقہؓ کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ اور کنز العمال میں مسند احمد اور ابن جریر وغیرہ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا گیا کہ حضرت عمر ؓ، جب ملک شام کی فتح مکمل ہو جانے کے بعد (ملک کے عمائد کی درخواست پر) شام کی طرف روانہ ہوئے، اور راستہ میں مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کو بتایا گیا کہ ملک شام میں سخت وبا ہے اور لوگ بکثرت لقمہ اجل بن رہے ہیں، اس اطلاع کے دینے والوں کا مقصد یہ تھا کہ آپ اس وقت شام تشریف نہ لے جائیں، لیکن آپ نے شام کی طرف سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت یہ بھی فرمایا: إِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَيٌّ، اسْتَخْلَفْتُهُ، فَإِنْ سَأَلَنِي اللهُ: لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَمِينًا، وَأَمِينِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ. ترجمہ: اگر میری موت کا مقررہ وقت آ گیا اور ابو عبیدہ اس وقت زندہ ہوئے تو میں ان کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ مقرر کروں گا پھر اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ ابو عبیدہؓ کو تم نے کس وجہ سے امت محمدیہ پر خلیفہ مقرر کیا ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا ہے کہ "ہر پیغمبر کا ایک امین ہوتا ہے اور میرے امین ابو عبیدہ ابن جراح ہیں"۔ لیکن اللہ کی مشیت اور قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق حضرت عمرؓ تو شام کے سفر سے صحیح سالم واپس تشریف لے آئے، مگر حضرت ابو عبیدہ ؓ طاعون میں مبتلا ہو کر واصل بحق ہوئے۔ "وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا" اور کنز العمال ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا: لَوْ أَدْرَكْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ لَاسْتَخْلَفْتُهُ وَمَا شَاوَرْتُ فِيهِ فَإِنْ سُئِلْتُ عَنْهُ، قُلْتُ: اسْتَخْلَفْتُ أَمِينَ اللَّهِ وَأَمِينَ رَسُولِهِ. ترجمہ: اگر میں ابو عبیدہ کو پاتا تو ان کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد کرتا اور کسی سے مشاورت بھی نہ کرتا، اگر اس بارے میں مجھ سے پوچھا جاتا تو میں جواب دیتا کہ میں نے اس شخص کو خلیفہ نامزد کیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک امین ہے۔ بظاہر یہ بات آپ نے اس وقت فرمائ جب آپ کو ایک شقی ازلی ابو لؤلؤ مجوسی نے عین نماز کی حالت میں خنجر سے ایسا زخمی کیا کہ اس کے بعد زندہ رہنے کی توقع نہیں رہی اور اپنے بعد کے لئے خلیفہ مقرر کرنے یا نہکرنے کا اہم مسئلہ آپ کے سامنے آیا۔ واللہ اعلم۔ الغرض حضرت عمر ؓ کے ان ارشادات سے بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس خیال کی پوری تصدیق و توثیق ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بعد کے لئے خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ فرماتے تو پہلے نمبر پر حضرت ابو بکر صدیقؓ اور دوسرے پر حضرت عمرؓ اور ان کے بعد ابو عبیدہ بن جراحؓ کو نامزد فرماتے، بلاشبہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا یہی مقام و مرتبہ تھا۔ ؓ وارضاہ۔ اللہ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے حضرات عشرہ مبشرہ کے مناقب کا سلسلہ ختم ہوا۔
Top