معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2095
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ، وَطَعَامٌ، فَإِذَا أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِيهِ، وَلاَ نَصَبَ " (رواه البخارى ومسلم)
فضائل اہل بیت نبوی ﷺ (ازواجِ مطہرات اور ذریت طیّبہ): فضائل ام المومنین حضرت خدیجہؓ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جبرائیل رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اے رسول خدا: یہ خدیجہ آ رہی ہیں ان کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن اور کھانا ہے، جب وہ آپ کے پاس آ جائیں تو ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے سلام پہنچائیے اور میری طرف سے بھی، اور ان کو خوشخبری سنائیے جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے ایک گھر کی، جس میں نہ شور و شغب ہو گا اور نہ کوئی زحمت و مشقت ہو گی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہ ایک حقیقت ہے جس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں کہ "اہل البیت" کا لفظ قرآن مجید میں ازواج مطہرات ہی کے لئے استعمال ہوا ہے، سورۃالاحزاب کے چوتھے رکوع میں ازواج مطہرات کو کچھ خاص ہدایات دینے کے بعد فرمایا گیا ہے۔ "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا" جس کا مطلب یہ ہے کہ "اے ہمارے پیغمبر کی بیویوں! تم کو جو یہ خاص ہدایتیں دی گئیں ہیں ان سے اللہ کا مقصد تم کو زحمت و مشقت میں مبتلا کرنا نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان ہدایات سے یہ ہے کہ تم کو ہر قسم کی ظاہری و باطنی برائی اور گندگی سے مطہر اور پاک صاف کر دیا جائے ....."جو شخص عربی زبان کی کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے اس کو سورہ احزاب کے اس پورے رکوع کے پڑھنے کے بعد اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہو گا کہ یہاں "اہلبیت" کا لفظ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات ہی کے لئے استعمال ہوا ہے ..... لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قرآن پر ایمان رکھنے والے ہم مسلمانوں کا حال آج یہ ہے کہ "اہل بیت"کا لفظ سن کر ہمارا ذہن ازواج مطہرات کی طرف بالکل نہیں جاتا بلکہ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے شوہر حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان دونوں کی ذریت ؓ ہی کی طرف جاتا ہے۔ "اہل البیت" کا لفظ قرآن مجید میں سورہ احزاب کے علاوہ صرف ایک جگہ اور سورہ ہود کے چھٹے رکوع میں بھی آیا ہے، جہاں یہ واقعہ بیان ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بڑھاپے کی اس عمر کو پہنچ گئے تھے جس میں عام قانون فطرت کے مطابق اولاد کی امید نہیں کی جا سکتی اور لاولد تھے، تب اللہ تعالیٰ کی بھیجے ہوئے فرشتوں کی ایک جماعت نے آ کر انہیں اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ کو ایک بیٹے کو تولد کی بشارت دی، حضرت سارہ نے از راہ تعجب کہا: "أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا" (میں خود بڑھیا اور میرے یہ میاں بھی بوڑھے تو اب کیا میں بچہ جنوں گی؟) ..... اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا " أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ" (محترمہ! کی آپ اللہ کے تکوینی حکم کے بارے میں تعجب کرتی ہیں، آپ "اهل البيت" پر تو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں اور برکتیں ہیں) ..... ظاہر ہے کہ اس آیت میں بھی "اهل البيت" سے مراد ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ عربی زبان و محاورات سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کسی شخص کے "اهل البيت" کا اولین مصداق اس کی بیوی ہی ہوتی ہے، اسی طرح فارسی میں "اہل خانہ" اور اردو میں "گھر والے" یا "گھر والی" بیوی ہی کو کہا جاتا ہے، ماں، بہن، بیٹی اور داماد اور ان کی اولاد کے لئے "اہل البیت" اور "اہل خانہ" اور "گھر والوں" کا لفظ استعمال نہیں ہوتا، الغرض اس میں شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ "اہل البیت" کا لفظ قرآن مجید میں ازواج مطہرات ہی کے لئے استعمال ہوا ہے اور وہی اس کی اولین مصداق ہے ..... البتہ یہ بات حدیث شریف سے ثابت ہے کہ جب سورہ احزاب کی مندرجہ بالا آیت: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا" نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین اور ان کے ساتھ ان کے شوہر اور اپنے چچازاد بھائی حضرت علی مرتضیٰ (ؓ اجمعین) کو ایک کملی میں اپنے ساتھ لے کر دعاء فرمائی: "اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَحَامَّتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا" (اے اللہ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان سے بھی ہر طرح کی برائی اور گندگی کو دور فرما دے اور ان کو مکمل طور سے مطہر و پاک صاف فرما دے) ..... بلاشبہ حضور ﷺ کی یہ دعا قبول ہوئی اور سورہ احزاب والی آیت میں ازواج مطہرات "اھل البیت" کے لفظ سے ذکر فرما کر ان پر اللہ تعالیٰ کے جس خاص انعام کا ذکر فرمایا گیا تھا، اس میں اور لفظ "اھل البیت" کے اطلاق میں یہ حضرات بھی شامل ہو گئے، اس بنیاد پر یہ حضرات بھی لفظ "اھل البیت" کا صحیح مصداق ہیں، لیکن جیسا کہ تفصیل سے عرض کیا جا چکا، قرآن مجید میں یہ لفظ ازواج مطہرات ہی کے لئے استعمال ہوا ہے، اور وہی اس کی اولین مصداق ہیں۔ الغرض یہ بات کہ ازواج مطہرات آ پ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں بلکہ اس لفظ کا مصداق صرف آپ کی ایک بیٹی، ایک داماد اور دو نواسے ہیں، نہ تو زبان کے لحاظ سے درست ہے نہ قرآن و حدیث سے ثابت ..... بلکہ ایک خاص فرقہ کے فنکاروں کی سازش کے نتیجہ میں اس غلطی نے امت میں عام کی حیثیت اختیار کر لی اور ہماری سادہ دلی کی وجہ سے اس طرھ کی بہت سی دوسری غلط باتوں کی طرح اس کو بھی قبول عام حاصل ہو گیا اور جیسا کہ عرض کیا گیا حالت یہ ہو گئی کہ "اھل بیت" کا لفظ سن کر ہمارے اچھے پڑھے لکھوں کا ذہن بھی ازواج مطہرات کی طرف نہیں جاتا جو قرآن مجید کی رو سے اس لفظ کی اولین مصداق ہیں۔ اب اس عاجز نے لفظ "اھل البیت" کے صحیح مفہوم کو امت میں رائج کرنے کی نیت سے "اھل بیت نبوی" کے عنوان کے تحت ہی رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ کی ذریت طیبہ دونوں کے فضائل و مناقب لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وَالله ُالْمُوَفِّقْ وَهُوَ الْمُسْتَعَانِ ازواج مطہرات جیسا کہ حدیث و سیرت کی مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات جو منکوحہ بیوی کی حیثیت سے آپ ﷺ کے ساتھ تھوڑی یا زیادہ مدت رہیں وہ کل گیارہ ہیں، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ 1.حضرت خدیجہ بنت خویلد 2.حضرت سودہ بنت زمعہ 3.حضرت عائشہ صدیقہؓ 4.حضرت حفصہ بنت عمر بن الخطاب 5.حضرت زینب بنت جحش 6.حضرت ام سلمہ 7.حضرت زینب نبت جحش 8.حضرت ام حبیبہ 9.حضرت جویریہ بنت الحارث 10.حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب 11.حضرت میمونہ (ؓن وارضاھن) ان میں سے حضرت خدیجہؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہؓ نے حضور ﷺ کی حیات مین وفات ان گیارہ کے علاوہ بنو قریظہ میں سے ریحانہ شمعون کے متعلق بھی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہودی بنی قریظہ کی غداری کی وجہ سے ان کے خلاف کار روائی کی اور ان کی بقایا کو گرفتار کیا گیا تو ان میں یہ ریحانہ بھی تھیں، انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کر کے اپنے نکاح میں لے لیا، لیکن بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حضور ﷺ کی منکوحہ بیوی بننے کا شرف حاصل نہیں ہوا، بلکہ یہ باندی کی حیثیت سے آپ ﷺ کے ساتھ رہیں، یہاں تک کہ حضور ﷺ کی وفات سے چند روز پہلے اور ایک روایت کے مطابق حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد حضور ﷺ کی حیات ہی میں وفات پا گئیں۔ زوجیت کا شرف رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کا شرف بجائے خود یقیناً اعلیٰ درجہ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے اور فرق مراتب کے باوجود یہ تمام ازواج مطہرات کو یکساں طور پر حاصل ہے اسی طرح ازواج مطہرات کو جو خصوصی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے ہیں، وہ بھی یکساں طور پر ان سبھی کے لئے ہیں، قرآن مجید میں "وَاَزْوَاجُهُ اُمَّهَاتُهُمْ" فرما کر ان کو تمام اہل ایمان کی مائیں قرار دیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے ہر امتی اور ہر صاحب ایمان کے لئے ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرنا ابد الآباد تک اسی طرح حرام قرار دے دیا گیا ہے جس طرح اپنی حقیقی ماں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ یہاں تک ازواج مطہرات کے صرف اسماء گرامی لکھے گئے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کے شرف سے متعلق مختصراً کچھ اشارات کئے گئے ہیں، آگے ان شاء اللہ ان "امہات المومنین" کا بقدر ضرورت تعارف، قابل ذکر خصوصی احوال و اوصاف، ان میں سے ہر ایک کے رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے کی تفصیل اور اس کے خاص اسباب و محرکات، نیز ان کی وفیات کا تذکرہ ناظرین کرام مطالعہ فرمائیں گے اور ان شاء اللہ ان سوالات و شبہات کا جواب بھی ان کو مل جائے گا، جو ازواج مطہرات کی تعداد کے بارے میں کچھ شیاطین الانس کی وسوسہ اندازی سے ان کے دلوں میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ یہ پہلی خوش قسمت خاتون ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کے شرف سے مشرف ہوئیں، ان کے والد خویلد بن اسد مکہ کے ایک دولت مند اور معزز تاجر تھے، حضرت خدیجہؓ کی پہلی شادی ابو ہالہ تمیمی سے ہوئی تھی ان سے دو (۲) بیٹے (ہالہ اور ہند) پیدا ہوئے، کچھ مدت کے بعد ابو ہالہ کا انتقال ہو گیا تو ان کا دوسرا نکاح عتیق ابن عابد مخزومی سے ہوا، ان سے بھی ایک بیٹی پیدا ہوئی، لیکن عتیق کی عمر نے بھی زیادہ وفا نہ کی ..... پھر جب کہ خدیجہ کی عمر قریباً ۳۵۔ ۳۶ سال کی ہو گئی تھی، ان کے والد خویلد کا بھی انتقال ہو گیا، اب تجارتی کاروبار کی ذمہ داری خود حضرت خدیجہؓ کو سنبھالنی پڑی ..... مکہ میں رواج تھا کہ لوگ نفع میں مقررہ شرح سے شرکت کی بنیاد پر دوسرے لوگوں کے ذریعہ بھی تجارتی کاروبار کرتے تھے (جس کو فقہی اصطلاح میں "مضاربت" کہا جاتا ہے) اپنے والد اور شوہر کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی معصومانہ سیرت، امانت و دیانت، صداقت شعاری اور راست بازی کا مکہ میں عام شہرہ تھا، یہاں تک کہ آپ "الامین" کے لقب سے معروف تھے اسی وجہ سے حضرت خدیہؓ نے ایک دفعہ چاہا کہ آپ ﷺ ان کا مال تجارت لے کر ملک شام جائیں اور پیشکش کی کہ منافع میں جتنا حصہ اب تک میں دوسروں کو دیتی رہی ہوں آپ ﷺ ان کا مال تجارت لے کر ملک شام جائیں اور پیشکش کی کہ منافع میں جتنا حصہ اب تک میں دوسروں کو دیتی رہی ہوں آپ ﷺ کو اس سے دوگنا دوں گی آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کے بعد اس کو قبول فرما لیا، خدیجہؓ نے اپنے غلام میسرہ کو بھی آپ کے ساتھ کر دیا، اس تجارتی سفر میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت دی اور پہلے جو نفع ان کو ہوا کرتا تھا اس سے دوگنا نفع ہوا، اس کے علاوہ حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے آپ کے حسن اخلاق، معصومانہ سیرت کا تجربہ اور کچھ غیر معمولی خارق عادت کرامتی قسم کی باتوں کا بھی مشاہدہ کیا، واپس آنے پر جن کا تذکرہ میسرہ نے حضرت خدیجہؓ سے بھی کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکاح حضرت خدیجہؓ ایک دولت مند شریف الطبع خاتون ہونے کے علاوہ ظاہری حسن و جمال، باطنی محاسن اخلاق، کردار کی بلندی، فیاضی اور پاک بازی جیسے اوصاف حمیدہ میں بھی ممتاز تھیں، اسی بناء پر وہ طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں، اس وجہ سے قریش مکہ کے بہت سے معزز حضرات کی طرف سے ان کو نکاح کا پیغام دیا گیا، لیکن دو شوہروں سے بیوہ ہو جانے کے باعث باقی زندگی اسی طرح گزارنے کا ارادہ کر لیا تھا، اس لئے کسی کا پیغام قبول نہیں کیا ..... مگر میسرہ نے تجارتی سفر سے واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تجربات اور مشاہدات بیان کئے تو خود ان کے دل میں آپ ﷺ سے نکاح کی خواہش پیدا ہوئی، اور اس مقصد کے لئے ایک دوسری خاتون نفیسہ بنت امیہ کو رازدارانہ طور پر آپ ﷺ کے پاس بھیجا نفیسہ کا بیان ہے کہ ..... میں آپ ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ "آپ ﷺ نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نادار اور خالی ہاتھ ہوں، کس طرح نکاح کر سکتا ہوں، میں نے کہا کہ اگر کوئی ایسی عورت آپ ﷺ سے نکاح کرنے کی خواہش مند ہو جو ظاہری حسن و جمال اور طبعی شرافت کے علاوہ دولت مند بھی ہو اور آپ ﷺ کی ضروریات کی کفایت کرنے پر بھی خوش دلی سے آمادہ ہو تو آپ اس سے نکاح کر لینا پسند کریں گے؟ ..... آپ نے دریافت کیا کہ ایسی کون خدا کی بندی ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا: خدیجہ بنت خویلد ..... آپ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے نفیسہ کو جواب دے دیا کہ اگر خدیجہ اس کے لئے آمادہ ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔ نفیسہ نے آ کر حضرت خدیجہ کو اس کی اطلاع دی، پھر خدیجہ نے نفیسہ ہی کے ذریعہ آپ کو بلوا کر براہ راست بھی آپ سے بات کی، اس گفتگو ہی میں طے ہو گیا کہ آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن میرے یہاں آ جائیں، چنانچہ آپ اپنے چچا ابو طالب اور دوسرے خاندانی بزرگوں کو لے کر جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، خدیجہ کے گھر پہنچ گئے، انہوں نے بھی اپنے چچا عمرو ابن اسد کو بلوا لیا، اور قریش کے اس دور کے رواج کے مطابق انہیں کی ولایت میں نکاح ہو گیا، اس وقت آپ کی عمر پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ کی چالیس سال، آپ کا یہ پہلا نکاح تھا جو بعثت سے قریباً پندرہ سال پہلے ہوا۔ اولاد اس رشتہ اردواج کے کچھ مدت بعد (ایک مشہور تاریخی روایت کے مطابق ۵ سال بعد) آپ کے پہلے صاحبزادہ پیدا ہوئے، جن کا نام "قاسم" رکھا گیا، انہیں کے نام پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی کنیت "ابو القاسم" رکھی، ان کا صغر سنی ہی میں انتقال ہو گیا، ان کے بعد آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی "زینب" پیدا ہوئیں ان دونوں کی پیدائش آغاز نبوت سے پہلے ہی ہوئی، اس کے بعد ایک صاحبزادے پیدا ہوئے، ان کا ام عبداللہ رکھا گیا ان کی پیدائش دور نبوت میں ہوئی اسی لئے ان کو طیب اور طاہر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا انتقال بھی صغر سنی ہی میں ہو گیا، پھر ان کے بعد مسلسل تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام رقیہ، ام کلثوم، اور فاطمہ رکھے گئے، چاروں صاحبزادیوں کا تذکرہ آگے "ذریت طبیہ" کے عنوان کے تحت ناظرین کرام ان شاء اللہ مطالعہ فرمائیں گے۔ حضرت خدیجہؓ کی بعض قابلِ ذکر خصوصیات معلوم ہے کہ قریش کا قبیلہ بلکہ عام طور سے اہل مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے اور یہ شرک انہیں اتنا پیارا تھا کہ اس کے خلاف کوئی لفظ سننا بھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھا، لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دو چار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں ایک حضرت خدیجہؓ بھی تھیں ..... اس دور کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واحد خاتون تھیں جو شرک و بت پرستی سے بیزار تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسرے بہت سے انعامات کے علاوہ دولت مندی کی نعمت سے بھی نوازا تھا ..... رسول اللہ ﷺ کا حال اس کے برعکس تھا، انہوں نے اپنی پوری دولت گویا آپ کے قدموں میں ڈال دی اور آپ کو اس سلسلہ کی فکروں سے آزاد کر دیا، قرآن مجید سورہ "والضحى" میں اسی صورت حال کے بارے میں فرمایا گیا ہے " وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ" (اے پیغمبر! تم کو تمہارے پروردگار نے مفلس اور نادار پایا پھر مستغنی کر دیا) اس سلسلہ میں یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ زید بن حارثہ، حضرت خدیجہؓ کے زر خرید غلام تھے، انہوں نے دیکھا کہ زید کو رسول اللہ ﷺ سے خاص انس و محبت ہے اور آپ کا معاملہ بھی زید کے ساتھ خصوصی درجہ کی شفقت و پیار کا ہے، تو انہوں نے زید کو حضور ﷺ ہی کی ملکیت میں دے دیا، پھر آپ ﷺ نے ان کو آزاد کر دیا اور عربوں کے اس وقت کے رواج کے مطابق ..... ان کو اپنا منہ بولا بیٹا، بنا لیا یہاں تک کہ ان کو زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد ہی کہا جانے لگا۔ پھر جب نکاح کے پندرہ سال بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو شرف نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ ﷺ پر وہ شدید غیر معمولی حالات آئے جن کا ذکر بیان مناقب کے شروع ہی میں آغاز نبوت والی حدیث کے حوالہ سے کیا جا چکا ہے، تو اس وقت آپ ﷺ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے حضرت خدیجہ ہی سے ملی اور جب وہ آپ کے اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے عالم تھے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے غار حراء کی واردات اور سرگذشت سن کر یقین و وثوق کے ساتھ آپ کے مبعوث من اللہ نبی ہونے کی بات کہی تو حضرت خدیجہؓ نے بھی ان کی اس بات کو دل سے قبول کر لیا، بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کے حالات و اوصاف کے پندرہ سالہ تجربہ کی بنا پر پہلے ہی سے ان کا دل آپ کی ہر بات کی تصدیق کے لئے تیار ہو چکا تھا، اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ پوری امت میں وہ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے مبعوث من اللہ نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ پھر جب آپ نے بحکم خداوندی توحید اور دین حق کی دعوت کا کام شروع کیا تو پوری قوم آپ کی دشمن بن کر کھڑی ہو گئی، ہر ممکن طریقہ سے آپ کو ستایا برسوں تک ان بدنصیبوں کا محبوب ترین مشغلہ رہا، مظلومیت کے اس پورے دور میں حضرت خدیجہؓ نہ صرف آپ کی غم خوار و غمگسار بلکہ پوری طرح شریک حال رہیں، یہاں تک کہ جب ان ظالموں نے مکہ کی قریبا پوری آبادی کو اپنے ساتھ لے کر آپ کا اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تھا لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجہ میں حمایت کرتے تھے بائی کاٹ کرنے کا فیصلہ کیا، اور آپ اور آپ کے وہ قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں محصور کر دئیے گئے اور ایسی ناکہ بندی کی گئی کہ کھانے پینے کی ضروریات بھی ان کو نہ پہنچ سکیں، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرنا پڑا ..... اس حالت میں بھی حضرت خدیجہؓ شعب ابی طالب میں آپ کے ساتھ رہیں، حالانکہ ان کے لئے بالکل ممکن تھا کہ وہ ان دنوں اپنے گھر ہی رہتیں۔ حضرت خدیجہؓ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ پورے پچیس سال تک آپ کی رفیقہ حیات کی حیثیت سے آپ کے ساتھ رہیں اور اس پورے دور میں آپ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا نبوت کے دسویں سال ہجرت سے قریباً تین سال پہلے رمضان المبارک ۱۱ نبوی میں عمر کے ۶۵ ویں سال وفات پائی۔ اس وقت تک نہ تو نماز پنجگانہ فرض ہوئی تھی اور نہ نماز جنازہ کا حکم ہوا تھا، اس لئے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی، رسول اللہ ﷺ نے خود ان کو اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر مین اتارا اور رحمت خداوندی کے سپرد کیا۔ (ؓ وارضاھا) تشریح ..... حدیث کا مطلب واضح ہے کسی تشریح و وضاحت کا محتاج نہیں، لیکن اس میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت جبرئیل کی یہ آمد کہاں اور کب ہوئی، جس میں انہوں نے حضرت خدیجہؓ سے متعلق رسول اللہ ﷺ سے یہ بات کہی۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے طبرانی کی ایک روایت کے حوالہ سے لکھا ہے: إِنَّ ذَالِكَ كَانَ وَهُوَ بِحِرَاءَ ...... یعنی جبرائیل کی یہ آمد اس وقت ہوئی تھی جب رسول اللہ ﷺ غار حرا میں تھے ..... اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ واقعہ غار حراء میں حضرت جبرئیل کی اس پہلی آمد کے بعد کا ہے جس کا ذکر اسی سلسلہ معارف الحدیث کتاب المناقب کے شروع میں "آغاز وحی و نبوت" کے تحت پوری تفصیل سے کیا جا چکا ہے ..... اسی سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حضرت جبرائیلؑ کی پہلی آمد اور آغاز نبوت کے بعد اس غار حرا میں آپ کی خلوت گزینی کا سلسلہ بالکل ختم اور منقطع نہیں ہو گیا تھا ..... یہ بات ناقابل فہم ہے، کہ جہاں آپ طویل مدت تک خلوت گزیں ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول رہے ہوں اور جہاں اس کے عظیم المرتبہ حامل وحی فرشتے جبرئیل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا نزول آپ پر شروع ہوا ہو، اس کے بعد آپ کا اس مقدس مقام سے کوئی تعلق نہ رہا ہو ..... الغرض اس روایت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آغاز نبوت کے بعد بھی آپ غار حراء میں کبھی کبھی قیام فرماتے تھے، اسی دور میں یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت جبرئیل آئے اور آپ کو مطلع کیا کہ آپ کی زوجہ محترمہ خدیجہؓ آ رہی ہیں اور آپ کے لئے کھانے کا کچھ سامان لا رہی ہیں، جب وہ آئیں تو آپ ان کے پروردگار کی طرف سے اور میری طرف سے بھی ان کو سلام پہنچائیں اور ان کو موتیوں سے جنت میں بنے ہوئے ایک ایسے گھر کی بشارت دیں جس میں نہ شور و شغب ہو گا اور نہ کسی قسم کی زحمت اور نہ تکلیف ہو گی۔ اس حدیث سے حضرت خدیجہ ؓ کی تین خاص فضیلتیں معلوم ہوئیں۔ ۱۔وہ ایک معزز دولت مند اور بوڑھی خاتون ہونے کے باوجود حضور ﷺ کے لئے کھانے پینے کا سامان گھر پر تیار کر کے غار حراء تک خود لے کے گئیں، جو کہ اس وقت شہر مکہ مکرمہ کی آبادی سے قریباً ڈھائی تین میل کے فاصلہ پر تھا اور حراء کی بلندی کی وجہ سے اس پر چڑھنا اچھے طاقتور آدمی کے لئے بھی آسان نہیں، (راقم سطور کو خود بھی اس کا تجربہ ہے) بلاشبہ حضرت خدیجہؓ کا یہ عمل ایسا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں اس کی خاص قدر ہو۔ ۲۔دوسری بڑی فضیلت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ ان کو رب العرش (اللہ تعالیٰ) کا سلام اور اسی کے ساتھ اس کے عظیم المرتبہ فرشتے جبرئیل امین کا سلام پہنچایا گیا ہے۔ ۳۔جنت میں ان کے لئے موتیوں سے بنے ہوئے بیت (گھر) کی بشارت دی گئی جس کی خاص صفت یہ بیان کی گئی کہ نہ تو اس میں کسی قسم کا شور و شغب ہو گا اور نہ کسی طرح کی زحمت و تکلیف اٹھانی پڑے گی، جیسا کہ دنیا کے گھروں میں عام طور سے اپنے گھر والوں کا یا پاس پڑوس کا شور و شغب آرام و یکسوئی میں خلل انداز ہوتا ہے اور جس طرح گھر کی صفائی اور درستی وغیرہ میں زحمت و تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔
Top