معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2098
عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرَةٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَآسِيَةَ امْرَأَةِ فِرْعَوْنَ وَفَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ. (رواه البخارى ومسلم)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مردوں میں تو بہت لوگ درجہ کمال کو پہنچے ہیں، مگر عورتوں میں صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ ہی کامل ہوئی ہیں ..... اور عائشہؓ کی فضیلت تما عورتوں پر ایسی ہے جیسے کہ تمام کھانوں میں ثرید افضل و اعلیٰ ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہ بعثت کے چوتھے سال پیدا ہوئیں، جیسا کہ معلوم ہے وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی ہیں جو اول المومنین ہیں، اور ان کی والدہ ماجدہ ام رومان بھی اولین مومنات میں سے ہیں، ازواج مطہرات میں سے یہ شرف تنہا انہیں کو حاصل ہے کہ ان کے والدین ان کی پیدائیش سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر چکے تھے اور عنقریب ہی ناظرین کرام کو صحیح بخاری و صحیح مسلم اور جامع ترمذی کےک حوالہ سے معلوم ہو گا کہ خواب میں متعدد بار رسول اللہ ﷺ کو ان کی صورت دکھلائی گئی اور بتلایا گیا کہ یہ دنیا و آخرت میں آپ کی زوجہ ہونے والی ہیں۔ اوپر ام المومنین حضرت سودہ ؓ کے حالات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ سے خصوصی درجہ کا ایمانی تعلق رکھنے والی خاتون خولہ بنت حکیم نے آپ سے نکاح کے بارے میں گفتگو کی، وہاں اس سلسلہ میں صرف وہی حصہ ذکر کیا گیا جس کا تعلق حضرت سودہ ؓ سے تھا ...... اسی موقع پر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں بھی عرض کیا تھا، جن کی عمر اس وقت صرف چھ سات سال کے قریب تھی اور معلوم ہے کہ حضور ﷺ کی عمر شریف پچاس سال سے متجاوز ہو چکی تھی، اس حالت میں کولہ بنت حکیمؓ کی طرف سے حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح کی تجویز پیش کرنے کے لئے توجیہہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیصلہ اس بارے میں عالم غیب میں ہو چکا تھا، اس کے عمل میں آنے کا ذریعہ خولہ بنت حکیم کی اس تجویز کو بنایا جائے روایت کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خولہ کو حضور ﷺ کے خواب کے بارے میں علم نہیں تھا، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ خواب ایسا ہی تھا کہ کسی سے بھی اس کا ذکر نہ فرمایا جاتا ..... بہرحال یہی ہوا خولہ نے حضور ﷺ کے سامنے سودہ بنت زمعہؓ کے ساتھ ہی حضرت عائشہؓ سے نکاح کی بھی تجویز پیش کی۔آپ ﷺ نے جس طرح حضرت سودہؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم ہی میری طرف سے پیام ان کو پہنچاؤ، اسی طرح حضرت عائشہؓ کے بارے میں بھی ان ہی کو مامور فرمایا کہ تم ہی ان کے والدین کو میری طرف سے پیام پہنچاؤ۔ چنانچہ وہ حضرت ابو بکرؓ کے مکان پر پہنچیں، لیکن اتفاق سے وہ اس وقت موجود نہیں تھے، ان کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ کی والدہ ماجدہ ام رومانؓ موجود تھیں، خولہ نے مبارک باد دیتے ہوئے ان کی بیٹی عائشہ کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پیغام کا ذکر کیا۔ انہوں نے سن کر بڑی خوشی کا اظہار کیا کچھ دیر کے بعد حضرت ابو بکرؓ بھی آ گئے ..... خولہ نے ان کے سامنے بھی ان کی بیٹی عائشہ کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پیام کی بات کہی، حضرت ابو بکرؓ نے کہا "أَوْ تَصْلُحُ لَهُ وَهِىَ بِنْتُ اَخِيْهِ"؟ مطلب یہ تھا کہ کیا عائشہ کے ساتھ حضور ﷺ کا نکاح ہو سکتا ہے حالانکہ وہ ان کے بھائی کی بیٹی ہے، (حضرت ابو بکرؓ نے یہ بات اس بنیاد پر فرمائی کہ عربوں میں جس طرح پہلے منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی بیٹے کی تھی اسی طرح منہ بولے بھائی کی حیثیت حقیقی نسبی بھائی جیسی ہوتی تھی اور اسی طرح اس کی بیٹی سے نکاح کو جائز اور درست نہیں سمجھا جاتا تھا، جس طرح حقیقی نسبی بھتیجی سے نکاح کو درست اور جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔) خولہ نے حضرت ابو بکرؓ کی یہ بات آنحضرت ﷺ کو پہنچائی تو آپ ﷺ نے فرمایا: "هُوَ اَخِىْ فِى الْاِسْلَامِ وَابْنَتُهُ تَحُلُّ لِىْ" مطلب یہ تھا کہ وہ اسلامی بھائی ہیں۔ نسبی بھائی نہیں ہیں، اس لئے ان کی بیٹی عائشہؓ سے میرا نکاح اللہ کی نازل فرمائی ہوئی شریعت میں جائز اور صحیح ہے، اگر بالفرض وہ میرے حقیقی نسبی بھائی ہوتے تو ان کی بیٹی سے نکاح کرنا میرے لئے جائز اور درست نہ ہو گا۔ خولہ نے ابو بکرؓ کو حضور ﷺ کا جواب پہنچایا تو فطری طور پر ان کو بڑی خوشی ہوئی، لیکن اس بارے میں ایک رکاوٹ یہ تھی کہ عائشہ کی نسبت بچپن ہی میں جبیر ابن مطعم سے ہو چکی تھی اور اس نسبت کو ایک طرھ کا معاہدہ سمجھا جاتا تھا، اس لئے انہوں نے اخلاقی طور سے ضروری سمجھا کہ جبیر کے والد مطعم سے بات کر کے ان کو اس کے لئے راضی کر لیں، تا کہ میری طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی اور عہد سکنی نہ ہو، اس بارے میں گفتگو کرنے کے لئے وہ مطعم کے مکان پر پہنچے ..... یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ یہ بعثت نبوی کا گیارہوں سال تھا، جب کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی دعوت اسلام، اور اس کو قبول کرنے والوں کے ساتھ کفار مکہ کی دشمنی انتہائی درجہ کو پہنچ چکی تھی حضرت ابو بکرؓ نے مطعم کے مکان پر پہنچ کر اپنی بات شروع کی، اور کہا کہ میری بیٹی عائشہ کے بارے میں تمہارا اب کیا خیال ہے؟ اس وقت مطعم کی بیوی قریب ہی بیٹھی ہوئی تھیں، انہوں نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا کہ "تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟" اس نے کہا کہ "میں نہیں چاہتی کہ اب وہ بچی (عائشہ ہمارے گھر میں آئے، اگر وہ آئے گی تو اس کے ساتھ اسلام کے قدم بھی ہمارے گھر میں آ جائیں گے، اور ہم اپنے باپ دادا کے جس دین پر اب تک چل رہے ہیں اس کے نظام میں گڑبڑ ہو جائے گی)"۔ مطعم کی بیوی کا یہ جواب سن کر حضرت ابو بکرؓ نے مطعم سے کہا کہ "تم بتاؤ تمہارا فیصلہ کیاہے؟ اس نے کہا: کہ تم نے اس (میری بیوی) کی بات سن لی میری بھی یہی رائے ہے" ..... حضرت ابو بکرؓ مطمئن ہو کر واپس تشریف لائے، اور خولہ سے کہا کہ "تم رسول اللہ ﷺ کو بلا لاؤ" وہ گئیں اور رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور اسی وقت نکاح ہو گیا۔ یہ شوال کا مہینہ تھا جس کے بعد قریباً تین سال رسول اللہ ﷺ کا قیام مکہ معظمہ ہی میں رہا ..... جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اس پوری مدت میں حضرت سودہ بنت زمعہؓ ہی آپ ﷺ کی منکوحہ رفیقہ حیات کی حیثیت سے آپ ﷺ کے ساتھ رہیں اور وہی تنہا تمام امور خانہ داری انجام دیری رہیں ..... بعثت کی قریباً ۱۳ سال پورے ہو جانے پر آپ نے بحکم خداوندی مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی ..... جیسا کہ معلوم ہے یہ سفر رازداری کے ساتھ رات میں ہوا اور تنہا حضرت ابو بکرؓ ہی کو اپنےساتھ لیا، ان کے بیوی بچے سب مکہ مکرمہ ہی میں رہے، مدینہ طیبہ پہنچ کر قیام کے بارے میں ضروری انتظام کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے ایک شخص (عبداللہ بن اریقط) کو مکہ معظمہ بھیج کر اپنی اہلیہ مکرمہ ام رومان اور دونوں صاحبزادیوں حضرت عائشہؓ اور ان کی بڑی بہن حضرت اسماء کو بھی بلوا لیا ..... اور رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہؓ کو مکہ مکرمہ بھیج کر اپنے اہل و عیال حضرت سودہ بنت زمعہؓ اور دونوں صاحبزادیوں (حضرت ام کلثومؓ و حضرت فاطمہؓ) کو بلوا لیا، یہ وقت تھا، جب آپ ﷺ مسجد تعمیر کرا رہے تھے اور اس کے ساتھ اپنے لئے چھوٹے چھوٹے گھر بنوا رہے تھے، تو حضرت سودہؓ نے مکہ مکرمہ سے آ کر انہیں میں سے ایک گھر میں قیام فرمایا ..... حضرت عائشہؓ جن کے ساتھ آپ ﷺ کا نکاح تین سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہو چکا تھا، اب قریباً ۹۔۱۰ سال کی ہو گئیں تھیں، حضرت ابو بکرؓ کو ان کی غیر معمولی صلاحیت کا پورا اندازہ تھا اور جانتے تھے کہ تعلیم و تربیت اور سیرت سازی کا بہترین اور سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ صحبت ہے، اس لئے انہوں نے خود ہی حضور ﷺ سے عرض کیا کہ "اگر آپ کے نزدیک نامناسب نہ ہو تو یہ بہتر ہو گا کہ عائشہ آپ ﷺ کی اہلیہ اور شریک حیات کی حیثیت سے آپ کے ساتھ رہے۔ (1) آپ ﷺ نے اس کو منظور فرما لیا، اور وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے بنوائے ہوئے ایک گھر مین مقیم ہو گیں، راجح روایت کے مطابق یہ ۱ ہجری شوال کے مہینہ میں ہوا ..... یہاں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ چونکہ کبھی شوال کے مہینہ میں عرب میں طاعون کی شدید وبا آئی تھی، اس وجہ سے اس مہینہ کو نامبارک اور منحوس مہینہ سمجھا جاتا تھا اور اس میں شادی جیسی تقریبات نہیں کی جاتی تھیں، لیکن ام المومنین حضرت صدیقہ ؓ کا مکہ مکرمہ میں نکاح بھی شوال کے مہینہ میں ہوا تھا، اور جب ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آ کر رفیقہ حیات کی حیثیت سے آپ ﷺ کے ساتھ مقیم ہوئی تو وہ بھی شوال کا مہینہ تھا، اس طرح حضرت صدیقہؓ کے مبارک نکاح اور مبارک رخصتی نے عربوں کی اس توہم پرستی کا خاتمہ کر دیا۔ بعض قابل ذکر خصوصیات ازواج مطہرات میں صرف انہیں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ صغر سنی یعنی قریباً ۹۔۱۰ سال کی عمر سے رسول اللہ ﷺ کی صحبت و رفاقت، اور تعلیم و تریبت سے مستفید ہوتی رہیں، اسی طرح چند اور سعادتیں بھی تنہا انہیں کے حصہ میں آئیں جن کا وہ کود اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ذکر فرمایا کرتی تھیں ..... فرماتی تھیں: تنہا مجھے ہی یہ شرف نصیب ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے عقد نکاح میں آنے سے پہلے سے ہی آپ ﷺ کو خواب میں میری صورت دکھلائی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی زوجہ ہونے والی ہیں ..... اور آپ ﷺ کی ازواج میں تنہا میں ہی ہوں جس کا آپ ﷺ کی زوجیت میں آنے سے پہلے کسی دوسرے کے ساتھ یہ تعلق اور رشتہ نہیں ہوا ..... اور تنہا مجھی پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم تھا کہ آپ جب میرے ساتھ ایک لحاف میں آرام فرما ہوتے تو آپ ﷺ پر وحی آتی، دوسری ازواج میں سے کسی کو یہ سعادت میسر نہیں ہوئی اور یہ کہ میں ہی آپ ﷺ کی ازواج میں سے آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھی اور اس باپ کی بیٹی ہوں جو حضور ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے ..... اور یہ شرف بھی آپ ﷺ کی ازواج میں سے مجھے ہی نصیب ہے کہ میرے والد اور میری والدہ دونوں مہاجر ہیں ..... اور یہ کہ بعض منافقین کی سازش کے نتیجہ میں جب مجھ پر ایک گندی تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری برأت کے لئے قرآنی آیات نازل فرمائیں جن کی قیامت تک اہل ایمان تلاوت کرتے رہیں گے، اور ان آیات میں مجھے نبی پاک (طیب) کی پاک بیوی (طیبہ) فرمایا گیا، نیز اس سلسلہ کی آخری آیت میں "أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ" فرما کر میرے لئے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں کبھی اپنی اس خوش نصیبی کا بھی ذکر فرماتیں کہ آپ ﷺ نے زندگی کا آخری پورا ایک ہفتہ میرے ہی گھر میں میرے ساتھ قیام فرمایا، اسی سلسلہ میں یہ بھی فرماتیں کہ حیاۃ مبارکہ کا آخری دن میری باری کا دن تھا، اور اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص کرم مجھ پر یہ ہوا کہ اسی آخری دن میرا آب دہن آپ ﷺ کے آب دہن کے ساتھ آپ ﷺ کے شکم مبارک مین گیا اور آخری لمحات میں میں ہی آپ کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی، اور جس وقت بحکم خداوندی روح مبارک نے جسد اطہر سے مفارقت اختیار کی اس وقت آپ ﷺ کے پاس میں ہی تھی، یا موت کا فرشتہ اور آخری بات یہ کہ میرا ہی گھر قیامت تک کے لئے آپ ﷺ کی آرام گاہ بنا یعنی اسی میں آپ کی تدفین ہوئی۔ تشریح ..... ظاہر ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام جن کی تعداد بعض روایات کے مطابق ایک لاکھ سے اوپر ہے، سبھی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اسی طرح ان کے حواریین اور خلفاء جن کی تعداد اللہ ہی کے علم میں ہے، سب کامل ہی تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کی پیدا فرمائی ہوئی خواتین میں سے اس حدیث میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ بس وہی درجہ کمال کو پہنچ سکیں۔ ان دونوں کے اس امتیاز ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ قرآن پاک سورہ تحریم کے آخر میں ان دونوں کے مومنانہ کردار کو سب ایمان والوں کے لئے لائق تقلید مثال اور نمونہ کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے۔ بعض شارحین نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کا تعلق صرف اگلی امتوں سے ہے، اس لئے اس حدیث سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ ﷺ کی امت میں اللہ کی کوئی بندی درجہ کمال کو نہیں پہنچی ..... کچھ ہی پہلے حضرت خدیجہؓ کے فضائل کے بیان میں یہ حدیث گذر چکی ہے۔ "خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ" (دنیا کی سب عورتوں میں بہتر مریم بنت عمران ہیں، اور خدیجہ بنت خویلد۔) خود اسی زیر تشریح حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے "وَفَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ" اسکا مطلب یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کو اللہ تعالیٰ کی پیدا فرمائی ہوئی تمام خواتین پر ایسی فضیلت و برتری حاصل ہے جیسی ثرید کو تمام کھانوں پر ..... واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ثرید کو لذت اور نافعیت میں دوسرے سب کھانوں پر فوقیت و برتری حاصل تھی ..... ثرید کے بارے میں لغت کی کتابوں میں اور شروح حدیث میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھا جا سکتا ..... اس عاجز (راقم سطور) کو حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے دسترخوان پر بار بار ثرید کھانا نصیب ہوا ہے ..... اس عاجز کا تجربہ اور احساس بھی یہی ہے کہ وہ لذت، کھانے میں سہولت سرعت ہضم اور نافیعت کے لحاظ سے ہمارے زمانہ کے ان تمام کھانوں سے بھی جو عام طور پر بہتر سمجھے جاتے ہیں، فائق ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کی بنا پر یہ خیال ظاہر فرمایا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو تمام دنیا کی عورتوں پر، اگلی امتوں، اور امت محمدیہ کی بھی تمام خواتین پر فضیلت و برتری حاصل ہے ..... لیکن ان تمام حدیثوں پر غور کرنے کے بعد جن میں اس طرح کسی کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔ قرین صواب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فضیلت کلی نہیں، بلکہ کسی خاص جہت سے ہے۔ مثلاً حضرت صدیقہؓ کو احکام شریعت کے علم، تفقہ جیسے کمالات کی بنا پر دوسری تمام خواتین پر فضیلت و برتری حاصل ہے، اور ام المومنین حضرت خدیجہؓ کو ان خصوصیات کی وجہ سے جو ان کے احوال و اوصاف کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہیں، دوسری تمام خواتین پر فضیلت حاصل ہے، اور مثلاً سیدہ حضرت فاطمہؓ کو رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر ہونے کے ساتھ ان کمالات کی وجہ سے جن کا بیان ان کے فضائل کے بیان میں قارئین کرام پڑھیں گے، جو شرف و فضیلت حاصل ہے، وہ بلاشبہ انہیں کا حصہ ہے۔ یہ حدیث ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت سے ہے، صحیح بخاری ہی میں حضرت انسؓ کی روایت سے حدیث کا صرف آخری حصہ (فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ) روایت کیا گیا ہے۔
Top