معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2099
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ لِيْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرِيتُكِ فِي الْمَنَامِ ثَلاَثَ لَيَالٍ جَاءَنِي بِكِ الْمَلَكُ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ فَيَقُولُ هَذِهِ امْرَأَتُكَ. فَأَكْشِفُ عَنْ وَجْهِكِ فَإِذَا أَنْتِ هِيَ فَقُلْتُ إِنْ يَكُنْ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ. (رواه البخارى ومسلم)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھے دکھائی گئیں خواب میں تین رات، فرشتہ ریشمی کپڑے کے ایک ٹکڑے میں تمہیں لے کر آتا، اور مجھ سے کہتا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں، تو میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا، تو دیکھا کہ وہ تم ہو، تو میں نے دل میں کہا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو پور افرمائے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث میں اس کا کوئی ذخر نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ خواب کب اور کس زمانہ میں دیکھا؟ بظاہر قرین قیاس یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد جب ان جیسی شریک ھیات کی مفارقت کا فطری طور پر آپ ﷺ کو سخت صدمہ تھا، اور مستقبل کے بارے میں فکر تھی تو اس وقت آپ ﷺ کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو یہ دکھایا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اگرچہ اس وقت قریباً چھ سال کی بچی تھیں، لیکن اس بچپن ہی میں ان کے جو احوال و اطوار تھے ان سے آنحضرت ﷺ کو ان کی ذہانت و فطانت اور غیر معمولی صلاحیت کا بخوبی اندازہ تھا، اس طرح آپ ﷺ کو منجانب اللہ بتلایا گیا کہ یہی آپ ﷺ کے لئے مستقبل میں حضرت خدیجہؓ کا بدل ثابت ہوں گی، واللہ اعلم ...... یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ نبوت کے ابتدائی دور میں آنحضرت ﷺ کو اپنی شریک حیات میں جن خصوصیات کی ضرورت تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خدیجہؓ کو بھرپور عطا فرمائی تھیں اور ہجرت کے بعد کے مدنی دور میں اپنی رفیقہ حیات میں آپ کو جن خاص صفات کی ضرورت تھی، وہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کو بدرجہ کمال عطا فرمائی تھیں۔ حدیث شریف کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے خواب دیکھنے کے بعد اپنے دل میں کہا: "إِنْ يَكُنْ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ." (جس کا لفظی ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ اگرچہ یہ خواب منجانب اللہ ہے تو وہ اس کو پورا فرمائے گا) اس پر کسی کو اشکال ہو سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام خاص کر رسول اللہ ﷺ کا خواب تو وحی کی ایک قسم ہے تو اس کے بارے میں شک شبہ کی کیا گنجائش تھی ..... حقیقت یہ ہے کہ "إِنْ يَكُنْ" کا لفظ شبہ ظاہر کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل اس طرح ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ کسی شخص سے راضی ہو کر کہے: اگر میں بادشاہ ہوں تو تمہارا یہ کام ضرور کیا جائے گا، ..... الغرض اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے دل میں اطمینان محسوس کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ضرور ایسا ہی ہو گا ..... اور ایسا ہی ہوا۔ آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامع ترمذی کی روایت میں صراھت ہے کہ خواب میں حضرت عائشہ کی صورت لے کر آنے والے فرشتے حضرت جبرائیل تھے اور انہوں نے ؓحضور ﷺ سے کہا تھا: "هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِى الدُّنْيَا وَالْاَخِرَةِ" (یہ آپ کی بیوی ہونے والی ہیں دنیا اور آخرت میں)
Top