معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2104
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
کتاب المناقب والفضائل کے عنوان کے تحت اب تک رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرامؓ میں سے دس خاص صحابہ جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے جن میں خلفائے اربعہ بھی ہیں اور آپ کی اہل بیت یعنی آپ کی ازواج مطہرات اور بنات طیبات اور دونوں نواسے حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب کا بیان ہوا ہے اب یہاں سے کچھ اور مشہور صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کا تذکرہ کیا جائے گا۔ صحابہ کرام کے درمیان اگرچہ فرق مراتب ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ان الفاظ میں فرمایا ہے لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ (1) لیکن شرف صحابیت میں سب باہم شریک ہیں اور یہ ایسا شرف ہے جس کو کوئی بھی غیر صحابی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ کوئی بھی غیر صحابی خواہ کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ ہو کسی بھی صحابی سے خواہ وہ صحابہ کرام میں بڑے مقام و مرتبہ کا نہ ہو افضل نہیں ہو سکتا۔ (2) شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہو یا اسے آپ کی صحبت نصیب ہوئی ہو۔ خواہ ایک لمحہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ (3)قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں صحابہ کرام کی فضائل و مناقب بہت کثرت کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں، اس سلسلہ میں پہلے ہم چند آیات قرآنی ذکر کرتے ہیں۔ پھر کچھ احادیث ذکر کریں گے جن میں عام صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کا تذکرہ ہو گا۔ پھر خاص خاص صحابہ کرامؓ کے تذکرہ میں ہر ایک کے مخصوص فضائل و مناقب کا ذکر ہو گا۔ آیت ۱ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا . (سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۴۳) ترجمہ: اسی طرح ہم نے تم کو نہایت معتدل امت بنایا تا کہ تم (آخرت میں) لوگوں کے بارے میں گواہی دو اور رسول اللہ ﷺ تمہارے بارے میں گواہی دیں۔ اس آیت سے پہلے تحویل قبلہ کا ذخر ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ جیسے تمہارا قبلہ نہایت صحیح اور معتدل قبلہ ہے اسی طرح تم (صحابہ کرام اور ان کے متبعین) بھی نہایت معتدل امت ہو اور تم آخرت میں دوسری امتوں کے بارے میں گواہ بناےئے جاؤ گے جیسا کہ نبی ﷺ تمہارے سلسلہ میں گواہ ہوں گے وسط کے معنی بالکل بیچ کا راستہ ہیں جو سب سے زیادہ سیدھا اور معتدل ہوتا ہے۔ یہ لفظ عربی زبان میں انتہائی تعریف اور مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں صحابہ کرامؓ اور ان کے متبعین کے بڑے شرف اور عظمت کا ذکر ہے۔ آیت ۲ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ. ترجمہ:سو جو لوگ ان (نبی ﷺ) پر ایمان لائے اور ان کی تعظیم کی اور ان کی مدد کی اور اس نور (قرآن) کی اتباع کی جو ان کے ساتھ اترا ہے۔ ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اس آیت میں بھی صحابہ کرامؓ کا ذکر ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والے اور آپ کی تعظیم کرنے والے اور مدد کرنے والے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کا اتباع کرنے والے ہیں اور ایسے ہی لوگ دنیا و اخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہونے والے ہیں۔ آیت ۳ لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨٨﴾ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورہ توبہ آیت نمبر ۸۸، ۸۹) ترجمہ: لیکن رسول اللہ(ﷺ) اور جو لوگ ایمان لائے ان کےساتھ انہوں نے اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کیا اور انہیں کے لئے ہیں ساری خوبیاں اور وہی ہیں کامیاب ہونے والے اللہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں یہ لوگ ہمیشہ ان باغات میں رہنے والے ہیں اور یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس آیت سے پہلے منافقین کا ذکر تھا کہ وہ حیلے بہانے کر کے جہاد سے بچنا چاہتے ہیں اور یہ بھی ذکر تھا کہ ان کی یہ حالت اس وجہ سے تھی کہ اللہ نے ہی ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور وہ اپنے نفع و نقصان کو بھی نہیں سمجھ سکتے پھر صحابہ کرامؓ کی مذکورہ تعریف ہے کہ وہ اپنے جان و مال کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جس کا اجر و ثواب یہ ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں انہیں کے لئے ہیں۔ آیت ۴ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورہ توبہ آیت نمبر ۱۰۰) ترجمہ: مہاجرین اور انصار صحابہ کرامؓ (ایماب لائے ہیں) اور جو سابقین اولین جو ان کے متبعین ہیں نیکی کے کاموں میں، اللہ راضی ہو ان سے اور وہ راضی ہوئے اللہ سے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان باغات میں ہمیشہ رہنے والے ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ اس آیت میں ان صحابہ کرامؓ کی فضیلت کا ذکر ہے جو اولین ایمان لانے والے ہیں خواہ وہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے انصار ہوں یا باہر سے آنے والے مہاجرین ہوں پھر یہ بھی مذکور ہے کہ اس فضیلت میں بعد ایمان لانے والے صحابہ کرام اور ان کے بعد اہل ایمان بھی شریک ہیں۔ آیت ۵ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (سورہ احزاب آیت نمبر ۲۳) ترجمہ: مومنین میں بعض لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کر دکھایا پھر ان میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے اور بعض (نذر کو پورا کرنے) کے منتظر ہیں۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں امام ترمذیؒ نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ "حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میرے چچا حضرت انس بن نضرؓ کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے جس کا انہیں بہت افسوس تھا انہوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ آئندہ کوئی جہاد کا موقعہ عطا فرمائے گا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں، پھر جب آئندہ سال ہی غزوہ احد کا واقعہ پیش آیا تو حضرت انس بن نضرؓ اس میں شریک ہوئے اور جان کی بازی لگا دی اور شہید ہو گئے ان کے جسم پر اسی سے زائد زخم تھے کسی طرح صورت پہنچانی نہ جاتی تھی ان کی بہن نے انگلیوں سے اپنے بھائی کو پہچانا۔ (1)" بعض دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی اسی طرح کا عہد کیا تھا لیکن ابھی شہادت مقدر نہ تھی وہ منتظر شہادت رہے۔ مذکورہ آیت میں دونوں طرح کے صحابہ کرام کا ذکر ہے۔ آیت ۶ لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (سورہ فتح آیت نمبر ۱۸) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ خوش ہوا مومنین سے جب کہ وہ بیعت کر رہے تھے تم سے درخت کے نیچے۔ اس آیت میں بیعت رضوان کا ذکر ہے اور اس آیت ہی کی وجہ سے اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں اس کا قصہ یوں تھا کہ ذیقعدہ ۶؁ھ میں آپ صحابہ کی ایک جمیعت کے ساتھ مدینہ طیبہ سے عمرہ کے ارادے سے مکہ معظمہ کے لئے نکلے۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ اہل مکہ مزاحمت کے لئے تیار ہیں اور کسی طرح آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے بھی مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ نے مقام حدیبیہ میں قیام فرمایا اور اہل مکہ سے مصالحت کی گفتگو کرنے اور اپنی آمد کی غرض واضح کرنے کے لئے حضرت عثمانؓ کو مکہ بھیجا، اہل مکہ نے حضرت عثمانؓ کو نظر بند کر لیا۔ جب حضرت عثمانؓ کے آنے میں تاخیر ہوئی تو صحابہ کرام میں یہ خبر عام ہو گئی کہ حضرت عثمان شہید کر دئیے گئے۔ آپ ﷺ نے اس وقت صحابہ۹ کرام سے جہاد و قتال پر بیعت لی تھی جس کا حاصل یہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آئی تو آخر دم تک ساتھ دیں گے صحابہ کرامؓ نے پورے جوش و ولولہ اور صدق دل کے ساتھ آپ کے دست مبارک پر یہ بیعت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیعت پر اپنی خوشی اور رضامندی کا اظہار فرمایا۔ اس آیت کے بعد کئی آیات اسی واقعہ سے متعلق ہیں جن میں صحابہ کرام کی تعریف و توصیف اور ان پر اللہ کی عظیم احسانات کا تذکرہ ہے۔ آیت ۷ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖتَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ (سورہ فتح آیت نمبر ۲۹) ترجمہ: محمد رسول اللہ اور ان کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں نرم دل ہیں، تم ان کو رکوع و سجدے میں دیکھو گے وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے خواہاں ہیں۔ سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کی نشانیاں ہین یہی شان ان کی تورات اور انجیل میں مذکور ہے۔ یہ آیت بھی سورہ فتح کی آیت ہے اور سلسلہ کلام بھی بیعت رضوان کا ہے اس میں صحابہ کرام کی جو خوبیاں بیان فرمائی ہیں وہ کسی تفسیر و تشریح کی محتاج نہیں ہیں۔ آیت ۸ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴿٣٦﴾ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (سورہ نور آیت نمبر ۳۷) ترجمہ: پاکی بیان کرتے ہیں ان میں (مساجد میں) ایسے مرد جن کو تجارت اور خرید و فروخت غافل نہیں کرتی اللہ کی یاد سے اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے وہ لوگ ڈرتے رہتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں۔ اس سے پہلی آیت میں مساجد کا ذکر ہے اس آیت مین مساجد کو آباد کرنے والے مردان خدا کا تذکرہ ہے کہ وہ اللہ کے بندے مساجد کو آباد کرتے ہیں اور جب مساجد سے باہر اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں تب بھی اللہ کی یاد اور اقات صلوٰۃ و ایتاء زکوٰۃ سے غافل نہیں ہوتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روز قیامت سے ڈرتے ہیں۔ صحابہ کرام کا تذکرہ اور ان کی توصیف و تعریف اور ان کے مناقب و فضائل کا بیان قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیات میں ہے۔ تطویل کے خیال سے صرف ان ہی آیات پر اکتفا کرتا ہوں۔ اس کے بعد اسی سلسلہ کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ جن میں صحابہ کرام کے فضائل و مناقب اور شرف صحابیت کی عظمت کا ذکر ہے۔ حدیث ۱ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ» (صحیح مسلم ج ۲ ص ۳۱۰) ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔ یہ روایت صحیح مسلم کی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ہیں اسی طرح صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (1) ہیں سب ہی روایات کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی جماعت سب سے بہتر جماعت ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیاجا چکا ہے کہ جماعت صحابہ کرامؓ کی افضلیت پر امت کا اجماع ہے۔ مشہور محدث حافظ ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول بایں الفاظ نقل کیا ہے۔ إن الله نظر في قلوب العباد فاختار محمدا صلى الله عليه وسلم فبعثه برسالته وانتخبه بعلمه، ثم نظر في قلوب الناس بعده فاختار له أصحابا فجعلهم أنصار دينه ووزراء نبيه صلى الله عليه وسلم. (2) (ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہین کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے قلوب پر نظر ڈالی اور ان سب میں اپنے علم کے مطابق حضرت محمد ﷺ کو منتخب فرمایا اور اپنی رسالت کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا پر آپ کے بعد لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ کے اصحاب اور اپنے دین کے ناصر و مددگار اور آپ کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرماایا۔) یعنی صحابہ کرام اللہ کے چیدہ اور منتخب بندے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بعد ان صحابہ کرام سے بہتر کوئی جماعت نہیں ہے۔ یہ اللہ کے دین کے ناصر و مددگار اور آپ ﷺ کے وزیر ہیں۔ انہیں حافظ ابو نعیم نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے: اولئك اصحاب محمد كانوا خير هذه الامة ابرها قلوبا واعمقها علما واقلها تكلفا قوم اختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونقل دينه (3) یہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب اس امت کے بہترین لوگ ہین۔ ان کے قلوب سب سے زیادہ نیک و صالح اور ان کا علم سب سے زیادہ عمیق ہے یہ پوری امت میں سب سے کم تکلف کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی تبلیغ کے لئے ان کا انتخاب فرمایا ہے۔ حدیث ۲ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، يُبْعَثُ مِنْهُمُ الْبَعْثُ فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ فِيكُمْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُوجَدُ الرَّجُلُ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ بِهِ. (4) ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر (بغرض جہاد) روانہ کیا جائے گا اور (بوقت جہاد) لوگ اس تلاش و جستجو میں ہوں گے کہ کیا اس لشکر مین کوئی صحابی ہے، ایک صحابی اس لشکر میں مل جائیں گے اور انہیں کی برکت سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔ حدیث کے مذکورہ الفاظ صحیح مسلم کی روایت کے ہیں۔ صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث الفاظ کے معمولی سے اختلاف کے ساتھ حضرت ابو سعید خدریؓ ہی سے روایت کی گئی ہے۔ اس حدیث کا حاصل جیسا کہ ترجمہ سے بھی ظاہر ہے صحابہ کرامؓ کی منقبت اور ان کی خیر و برکت کا اظہار فرمانا ہے۔ حدیث ۳ عن أبي موسى الاشعرى رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ» (1) ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا وجود و بقا میری صحابہ کرامؓ کی حفاظت اور امن و سلامتی کا ذریعہ ہے اور میرے صحابہ کرام کا وجود میری امت کے امن و امان اور سلامتی کا ذریعہ ہے۔ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد صحابہ پر وہ حوادث پیش آئیں گے جن کے بارے میں میں آگاہ کر چکا ہوں اور صحابہ کے دنیا سے ختم ہو جانے کے بعد پوری امت ان خطرات سے دو چار ہو گی جن سے میں آگاہ کر چکا ہوں۔ یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے۔ امام نوویؒ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جن خطرات سے آگاہ فرمایا تھا وہ واقع ہوئے اور آپ کے بعد صحابہ کرامؓ کی جماعت میں اختلاف رائے اور اس کے نتیجہ میں قتل و قتال اور فتنوں کا ظہور ہوا سی طرح صحابہ کرامؓ کی جماعت کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بدعات کا ظہور اور دینی فتنوں اور حوادث کا وقوع ہوا جن کی نشاندہی آپ نے فرما دی تھی۔ حدیث ۴ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخدرى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ» (2) ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ مین سے کسی کو بھی برا نہ کہو اس لئے کہ (وہ اتنے بلند مقام اور اللہ کے محبوب ہیں) تم اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرو گے تب بھی ان کے ایک مد بلکہ نصف مد خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کے مستحق نہ ہو گے۔ حدیث کے ابتدائی حصہ میں یہ ذخر کیا گیا ہے کہ حضرت خالد بن الولیدؓ نے کسی بات پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو کچھ نامناسب الفاظ کہہ دئیے تھے جس پر آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جلیل القدر صحابی اور عشرہ مبشرہ میں ہیں، حضرت خالدؓ بن الولید اپنی جلالت شان کے باوجود عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درجے کے صحابی نہیں ہیں۔ جب حضرت خالدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان اتنا فرق مراتب ہے تو صحابہ کے بعد کے لوگوں اور صحابہ کرام کے درمیان درجات کا تفاوت اور بھی بہت زیادہ ہو گا۔ احد پہاڑ مدینہ طیبہ کا ایک پہاڑ ہے اور مد تو ایک چھوٹا سا پیمانہ ہے جو آج کل تقریبا صرف ایک کلو وزن کے برابر ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کا یہ مقام ان کی صحابیت کی بنیاد پر ہے۔ حدیث ۵ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ. (1) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ کرامؓ کے (حقوق کی ادائیگی کے) بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد (سب و شتم اور طعن و تشنیع کے لئے) تختہ مشق نہ بنانا (اور یہ بھی سمجھ لو کہ) جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی ہے اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض ہی کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ہے اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی اور اس کا پورا خطرہ ہے کہ (اللہ) ایسے شخص کو (دنیا و آخرت میں) مبتلا عذاب کر دے۔ حدیث کا مطلب ترجمہ ہی سے واضح ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں صحابہ کرامؓ کے بارے میں احتیاط سے کام لیں، ان کی تکریم و تعظیم اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا لحاظ رکھیں۔ کسی قسم کی بے توقیری ان کے بارے میں نہ کریں ورنہ دنیوی یا اخروی عذاب کا خطرہ ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ صحابیت کے اس شرف میں تمام صحابہ کرامؓ شریک ہیں خواہ وہ اپنے زمانہ کفر میں اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ رہے ہوں اور انہوں نے آپ ﷺ اور مسلمانوں کی کتنی ہی مخالفت بلکہ دل آزاری اور ایذار رسانی ہی کیوں نہ کی ہو، اس سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد پڑھ لیجئے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فى هذا الامر كرههم. ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ تم لوگ اسلام کے معاملہ میں بہترین شخص ایسے شخص کو پاؤ گے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام کا انتہائی مخالف رہا ہو۔ له قبل ان يقع فيه(2) صحابہ کرام میں اس حدیث کی تائید میں بےشمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ اس کی سب سے واضح مثال ہیں، اسی طرح حضرت عمرو بن العاص، حضرت ثمامہ بن اثال اور بہت سے صحابہ کرام کے نام بطور مثال بیش کئے جا سکتے ہیں جن کی زمانہ کفر میں اسلام دشمنی اور اسلام لانے کے بعد آپ اور اسلام سے محبت دونوں حد انتہا کو پہنچتی ہوئی تھیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے اپنی دونوں حالتیں خود ذکر کی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ زمانہ کفر میں کوئی شخص بھی میرے مقابلہ میں آپ ﷺ سے زیادہ بغض رکھنے والا نہیں تھا اور میری آخری درجہ کی خواہش تھی کہ کبھی موقع مل جائے تو میں آپ کو شہید کر دوں لیکن اسلام لانے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی کہ آپ سے زیادہ محبوب میری نظر میں کوئی نہ تھا اور میرے دل میں آپ کی عظمت و جلالت کا یہ حال تھا کہ میں نظر بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ (1) حضرت ثمامہ بن اثال نے) بھی ایمان لانے کے بعد تقریباً انہی الفاظ میں رسول اللہ ﷺ سے اپنے قلبی جذبات کا اظہار کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ایمان لانے سے پہلے سب سے زیادہ مبغوض شخص میری نگاہ میں آپ تھے اور اب کوئی بھی آپ سے زیادہ محبوب نہیں اسی طرح ایمان لانے سے پہلے آپ کا دین تمام ادیان میں سب سے زیادہ مبغوض تھا اور اب تما دینوں میں سب سے زیادہ محبوب دین ہے۔ پہلے آپ کے وطن مدینہ سے بےحد نفرت تھی اور اب میری نگاہ میں مدینہ طیبہ سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ (2) عام صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کی احادیث کتب حدیث میں بڑی کثرت سے نقل کی گئی ہیں یہاں خوف تطویل مانع ہے ورنہ اور بھی روایات نقل کی جا سکتی ہیں۔
Top