معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2105
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓ نبوت کے دوسرے سال ہی ایمان لے آئے تھے، ان کو بچپن ہی سے رسول اللہ ﷺ سے انس و محبت اور قریبی تعلق تھا۔ چچا ہونے کے علاوہ آپ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی بھائی بھی تھے، دونوں کو ابو لہب کی باندی ثویبہ نے دودھ پلایا تھا، (3) علاوہ ازیں آپ کی والدہ اور حضرت حمزہؓ کی والدہ حقیقی چچازاد بہنیں بھی تھیں۔ (4) پھر عمر میں بھی حضرت حمزہ دو چار سال ہی بڑے تھے، ان مختلف وجوہات سے ان کو رسول اللہ ﷺ سے بہت محبت اور تعلق خاطر تھا۔ اور بظاہر یہی محبت و تعلق خاطر ان کے اسلام لانے کا سبب بن گیا، وہ شکاری تھے۔ ایک دن شکار کھیل کر آئے تو باندی نے خبر دی کہ آج ابو جہل نے تمہارے بھتیجے محمد (ّ ﷺ) کو ان کے منہ پر بہت برا بھلا کہا ہے وہ فوراً ابو جہل کے پاس پہنچے اور اس کی گستاخی پر اپنی شدید ناگواری کے اظہار کے ساتھ اپنے ایمان لانے کا بھی اظہار کر دیا، پھر اس دن سے زندگی بھر آپ ﷺ کا ساتھ نبھایا، آپ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے پر خود بھی مدینہ آ گئے اور آکر غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ حضرت حمزہؓ اہل مکہ کی نظر میں بڑے معزز، محترم، باوقار اور شجاعت و دلیری میں ضرب المثل تھے، اسی لئے ان کے اسلام لانے سے مشرکین مکہ کو بہت دھکا لگا، اب وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی ایذا رسانی میں کچھ محتاط ہو گئے۔ (1) مشرکین نے جب رسول اللہ ﷺ اور خاندان بنی ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا تھا حضرت حمزہؓ اس میں بھی آپ کے ساتھ تھے، غزوہ بدر جو غزوات میں سب سے پہلا اور ممتاز ترین غزوہ ہے اس میں حضرت حمزہؓ نے شرکت فرمائی ہے۔ (2) پھر دوسرے سال غزوہ احد میں بھی اپنی بہادری اور جانبازی کے جوہر دکھلائے ہیں، اسی غزوہ میں وہ شہید ہو گئے ہیں، لیکن شہادت سے پہلے وہ تیس یا اس سے بھی زیادہ کافروں کو قتل کر چکے تھے۔ (3) ان کی شہادت کا واقعہ ان کے قاتل وحشی (جو بدر میں اسلام لے آئے تھے) کی زبانی سنئے: حضرت وحشیؓ نے اسلام لانے کے بعد بیان کیا کہ میں جبیر بن(4) مطعم کا غلام تھا اور جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کو حضرت حمزہؓ نے غزوہ بدر میں قتل کر دیا تھا، میرے مالک جبیر نے مجھ سے کہا کہ اگر میرے چچا کے قاتل حمزہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو، میں چھوٹے نیزے کو پھینک کر مارنے میں ماہر تھا، غزوہ احد میں میں ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور موقع کی تاک میں رہا مین نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ نے سباع بن عبدالعزی نامی ایک کافر کا تلوار کے ایک وار ہی میں کام تمام کر دیا۔ میں انتظار میں رہا جیسے ہی حضرت حمزہؓ میری زد میں آئے میں نے اپنا نیزہ ان کی طرف پھینک کر مارا جو ان کے ناف کے نیچے لگا اور آر پار ہو گیا۔ (5) فضائل حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی اور خالہ زاد بھائی اور آپ کے مشہور صحابی ہیں، غزوہ احد میں شہادت سے سرفراز ہوئے اور زبان نبوت سے سید الشہداء کا لقب پایا۔ (6) رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اسد اللہ کا خطاب دیا۔ (7) ان کی شہادت کے بعد مشرکین مکہ نے ان کا مثلہ کیا تھا اور اعضا جسم کو کاٹ ڈالا تھا۔ (8) غزوہ احد کے خاتمہ پر جب تجہیز و تکفین کا مرحلہ پیش آیا تو حضرت حمزہؓ کی بہن صفیہؓ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی کے کفن کے لئے دو چادریں لے کر آئیں آپ ﷺ نے اس خیال سے کہ صفیہؓ بھائی کا یہ حال دیکھ کر شاید صبر و ضبط نہ کر سکیں، حضرت صفیہؓ کے صاحبزادہ زبیرؓ کو بھیجا کہ اپنی ماں کو منع کریں کہ حضرت حمزہؓ کو نہ دیکھیں، پہلے تو وہ باز نہ آئیں لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم ہے تو باز آ گئیں، دو چادریں جو بہن اپنے بھائی کے کفن کے لئے لائی تھیں ان میں سے بھی بھائی کو ایک ہی مل سکی اس لئے کہ حضرت حمزہؓ کے پاس ہی ایک انصاری صحابی شہید پڑے ہوئے تھے، ایک چادر ان کو دے دی گئی اور حضرت حمزہؓ کو صرف ایک چادر میں کفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھکتے تو پاؤں کھل جائے، اور پاؤں ڈکھتے تو سر کھل جاتا، آخر سر کو چادر سے ڈھک کر پاؤں پر اذخر نامی گھاس ڈال دی گئی۔ رسول اللہ ﷺ کو حضرت حمزہؓ کی شہادت پر غیر معمولی صدمہ ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر صفیہؓ کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں حمزہؓ کو ایسے ہی بےگور و کفن چھوڑ دیتا، تا کہ روز قیامت و ہ درندوں اور پرندوں کے پیٹ سے نکل کر اللہ کے حضور میں حاضر ہوتے۔ (1) حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز رنگ کے پرندوں کے اندر رکھ دیا ہے، وہ پرندے جنت کی نہروں میں پانی پیتے اور اس کے پھلوں کو کھاتے ہین عرش رحمانی کے نیچے (ان کے گھونسلوں کے لئے) سونے کی قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں جن میں آرام کرتے ہیں، انہوں نے اپنی اس خوش حالی اور آرام و راحت کی خبر اپنے دنیوی بھائیوں تک پہنچانے کی خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے آیات کریمہ: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١٧٠﴾ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ (آل عمران آیت نمبر ۱۶۹ تا نمبر ۱۷۱) ترجمہ: اور تم ان لوگوں کو جو اللہ کے راستہ میں شہید ہو گئے ہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے ہیں۔ وہ اللہ کی عنایات پر بےانتہا خوش ہیں اور (اس پر بھی) خوش ہوتے ہیں کہ ان کے پسماندگان کو نہ خوف ہے نہ غم، وہ خوش ہیں اللہ کی نعمت اور فضل و کرم پر اور اس پر بھی کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ عمر میں آپ ﷺ سے دو سال بڑے تھے لیکن عمر کے اس فرق کو واضح کرنے کے لئے وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ میں آپ ﷺ سے بڑا ہوں، بلکہ جب کوئی سوال کرتا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ تو وہ جواب میں کہتے کہ هو اكبر وانا ولدت قبله (2) یعنی بڑے تو رسول اللہ ﷺ ہی ہیں ہاں پیدا پہلے میں ہوا تھا۔ ان کو رسول اللہ ﷺ سے بہت تعلق خاطر تھا۔ مسلمان ہونے سے پہلے بھی آپ کی حمایت کرتے تھے۔ نبوت کے بارہویں سال مدینہ طیبہ کے ایک گروہ نے مکہ معظمہ کے قریب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تھی، اس موقع پر حضرت عباسؓ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے موجود تھے انہوں نے اہل مدینہ سے کہا تھا کہ یہ (محمد ﷺ) تم کو لوگوں کے یہاں جانا چاہتے ہیں اگر تم لوگ مرتے دم تک حمایت کا دم بھرتے ہو تب تو بہتر ہے ورنہ ابھی سے جوابدے دو۔ (1) غزوہ خیبر کے فوراً بعد حجاج بن علاطؓ نامی صحابی نے جن کا اسلام اہل مکہ کے علم میں نہ تھا، اپنی ایک مجبوری اور رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے مکہ آ کر یہ ذکر کر دیا کہ محمد ﷺ غزوہ خیبر میں بری طرح شکست کھا گئے ہیں یہ اطلاع جب حضرت عباسؓ کو ہوئی تو بےقرار ہو گئے اور گھبرائے ہوئے حجاج بن علاطؓ کے پاس آئے۔ حضرت حجاجؓ نے خاموشی سے انہیں آپ کی فتح یابی کی خبر دی اور اپنی مجبوری بتلائی جس کی بنا پر انہوں نے یہ خبر پھیلائی تھی۔ تب جا کر حضرت عباسؓ کو اطمینان نصیب ہوا۔ (2) حضرت عباس دراز قد، وجیہہ و باوقار، انتہائی حلیم و بردبار اور بلند آواز تھے۔ سربراہی اور سیادت کے تمام اوصاف آپ کے اندر پائے جاتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سقایۃ الحاج (حجاج کرام کو پانی پلانے) اور عمارۃ المسجد (مسجد حرام کا اہتمام و انصرام) کی ذمہ داری (جو بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی) ان کے ہی ذمہ تھی، (2) غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ کے ساتھ مجبوراً آئے، لیکن آپ ﷺ نے ان کے بارے میں صحابہؓ کو یہ حکم دیا تھا کہ ان کو قتل نہ کیا جائے، صحابہ کرامؓ نے ان کو قید کر لیا، ان کے پاس اس وقت بیس (۲۰) اوقیہ (ایک وزن کا نام ہے) سونا تھا۔ جب بات فدیہ کی آئی تو حضرت عباسؓ نے آپ سے کہا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں، آپ نے فرمایا الله اعلم بشانك ان يك ما تدعى حقا فالله يجزيك اما ظاهر امرك فقد كان علينا فافد نفسك. (4) ترجمہ: یعنی حقیقت حال تو اللہ جانے اگر تم اپنے دعوہ اسلام میں سچے ہو تو اللہ تم کو اس کا بدلہ عطا فرمائے گا، رہا ہمارا معاملہ تو ہم تو ظاہر حال کے مطابق ہی عمل کریں گے لہذا فدیہ دیجئے۔ اس پر حضرت عباسؓ نے کہا کہ یہ بیس (۲۰) اوقیہ سونا جو میرے پاس ہے فدیہ میں لے لیجئے۔ آپ نے فرمایا یہ تو اللہ نے بطور غنیمت ہمیں عنایت ہی فرما دیا ہے آپ فدیہ کی ادائیگی کے لئے مکہ سے مال منگوائیے انہوں نے کہا کہ میرے پاس مکہ میں بھی اس کے سوا اور مال نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا مکہ سے روانہ ہوتے وقت آپ چچی کے حوالہ جو مال کر آئے تھے اسے منگوا لیجئے۔ اس پر حضرت عباسؓ نے کہا کہ میں تو جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اس مال کا علم میرے اور آپ کی چچی کے سوا کسی کو نہ تھا (5) اور واقعہ میں دو جگہ حضرت عباسؓ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ پہلے سے ہی اسلام لا چکے ہیں، اسی لئے بعض سیرت نگار یہ لکھتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر کے معاً بعد اسلام لائے اور اہل مکہ سے اپنے اسلام کو چھپاتے اور رسول اللہ ﷺ کو اہل مکہ کی خبریں بھیجتے رہتے تھے۔ (1) اگر اس وقت ان کا مسلمان ہونا تسلیم نہ کیا جائے تب بھی بہرحال یہ تو طے ہی ہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے ہی اسلام لا چکے تھے، اسی وجہ سے وہ ابو سفیان بن حرب کو اپنی پناہ میں لے سکے تھے اور اسی لئے وہ طلقاء مکہ میں بھی شمار نہیں ہوتے ہیں، طلقاء مکہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی شان کریمی سے ان کو معاف فرما دیا تھا۔ فضائل آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں اور آپ ہی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: ايها الناس من اذى عمى فقد اذانى فانما عم الرجل صنوابيه. (1) ترجمہ: اے لوگو! جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس لئے کہ کسی بھی شخص کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ان کا بہت احترام کرتے تھے اور صحابہ کرام بھی حضرت عباسؓ کی عظمت شان کے معترف تھے، امام بغویؒ حضرت عباسؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: كان العباس اعظم الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم والصحابة يعترفون للعباس بفضله ويشاورونه ويأخذون رايه. (2) ترجمہ: حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک عظیم ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے صحابہ کرام بھی ان کی فضیلت کے معترف تھی، ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے پر عمل کرتے تھے۔ جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے انہیں بھی رسول اللہ ﷺ سے بڑی محبت تھی۔ غزوہ حنین میں ایک مواقع ایسا آیا کہ عام صحابہ کرام کے قدم اکھڑ گئے تھے اور آپ تقریباً تنہا رہ گئے تھے، لیکن ایسے نازک وقت میں بھی حضرت عباس آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (3) ایک بار حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں قحط پڑ گیا تھا، حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے بارش کی دعا کرنے کی درخواست کی، حضرت عباسؓ نے دعا کی اور اللہ نے باران رحمت نازل فرمائی۔ (4) رسول اللہ ﷺ حضرت عباسؓ اور ان کی اولاد کے لئے اہتمام سے دعا فرماتے تھے، اسی سلسلہ کی ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لاَ تُغَادِرُ ذَنْبًا، اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ. (1) ترجمہ: اے اللہ عباسؓ اور ان کی اولاد کے تمام ظاہری و باطنی گناہ معاف فرما دیجئے اور اے اللہ ان لوگوں کی ایسی مغفرت فرما دیجئے جو کوئی گناہ باقی نہ رہنے دے، اے اللہ عباسؓ کی حفاظت فرما ان کی اولاد کے بارے میں۔ دعا کا مطلب تو ترجمہ سے ہی واضح ہے، دعا کے آخری جملہ اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ کا مطلب بظاہر یہ ہو گا کہ، اے اللہ حضرت عباس کی حفاظت فرما کر ان سے اپنی اولاد کے سلسلہ میں بھی کوئی غلط کام نہ ہو پائے۔ اللہ تعالیٰ نے بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں فرمایا تھا۔ إِن يَعْلَمِ اللَّـهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ (2) (سورہ انفال آیت نمبر ۷۰) ترجمہ: یعنی اس وقت تو فدیہ ہی دینا ہے، لیکن اگر تمہارے دلوں میں ایمان ہو گا تو تم کو اس فدیہ کے مال سے بہتر مال بھی ملے گا اور اللہ تعالیٰ گناہ بھی معاف فرما دے گا۔ حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ جو مال مجھ سے بطور فدیہ لیا گیا تھا۔ اللہ نے مجھے اس مال سے بہت زیادہ مال بھی عطا فرمایا اور مجھے امید ہے کہ میرا اللہ آخرت میں بھی میرے ساتھ مغفرت کا معاملہ فرمائے گا۔ اولاد حضرت عباسؓ کیاولاد مین چھ بیٹے فضلؓ، عبداللہؓ، عبیداللہؓ، قثمؓ، عبدالرحمٰنؓ اور معبدؓ تھے۔ ایک بیٹی ام حبیبؓ تھیں۔ فضلؓ سب سے بڑے تھے۔ عبداللہؒ سب سے زیادہ مشہور اور ذی علم ہوئے ہیں۔ وفات حضرت عباسؓ کی وفات ۳۲ھ میں حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر اسی سال سے متجاوز ہو چکی تھی، غسل میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن عباسؓ شریک تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کے صاحبزادہ حبر الامۃ امام التفسیر و ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی ولادت ہجرت سے تین سال قبل ہوئی اپنے والد حضرت عباس اور والدہ ام الفضل ؓ کے ساتھ فتح مکہ سے چھ پہلے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ چلے آئے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر کل تیرہ سال تھی، ان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہنے کا موقع تو بہت کم ملا، لین ذوق و شوق اور طلب علم نے اس کمی کی تلافی کر دی۔ فضائل حضرت عباسؓ کے تذکرہ میں یہ بات گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے اور ان کی اولاد کے لئے دعا فرمائی تھی، خاص طور پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو علم و حکمت تفقہ فی الدین اور علم تفسیر قرآن کی جو دعائیں زبان نبوت سے ملی ہیں، ان کی مثال اور کہیں مشکل سے ملے گی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ خود رواوی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء تشریف لے گئے میں نے آپ کے تشریف لانے سے پہلے ہی وضو کے لیے پانی بھر کر رکھ دیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ پانی کس نے رکھاہے، میں نے عرض کیا میں نے رکھا ہے، آپ نے میرے لئے دعا فرمائی۔ اللهم! فقهه في الدين (1) ترجمہ: اے اللہ ان کو تفقہ فی الدین عطا فرما۔ یہ روایت مسلم کی ہے، بعض دوسری روایتوں میں اللهم! فقهه في الدين کے ساتھ وعلمه التأويل کا (1) اضافہ بھی ہے، یعنی تفقہ فی الدین کے ساتھ قرآن کی تفسیر کا علم بھی عطا فرما دیجئے، ترمذی کی روایت میں ہے، ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا اور دعاس فرمائی اللهم علمه الحكمة (3) اے اللہ ان کو حکمت یعنی دین کا صحیح علم عطا فرما۔ اسی مضمون کی دعائیں الفاظ کے کسی قدر فرق کے ساتھ حدیث و سیرت کی متعدد کتابوں میں مذکور ہیں، انہیں دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اکابر صحابہ کرام بھی آپ کو حبر الامہ، ترجمان القرآن، بحر العلم، امام التفسیر جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: نعم ترجمان القرآن ابن عباس لو ادرك اسناننا ما عاشره منا احد. (4) ترجمہ: ابن عباسؓ بہترین مفسر قرآن ہیں، اگر وہ ہم لوگوں کی عمر پاتے ہم میں سے کوئی بھی ان کے مساوی نہ ہو سکتا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں: ما رأيت أحدا أحضر فهما ولا ألب لبا ولا أكثر علما ولا أوسع حلما من ابن عباس! لقد رأيت عمر بن الخطاب يدعوه للمعضلات فيقول: قد جاءتك معضلة، ثم لا يجاوز قوله، وإن حوله لأهل بدر. (5) ترجمہ: یعنی میں نے عبداللہ بن عباسؓ سے زیادہ حاضر دماغ، عقلمند، صاحب دعلم اور حلیم و بردبار شخص نہیں دیکھا (اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ) حضرت عمرؓ مشکل مسائل کو حل کرنے کے لئے ابن عباسؓ کو بلاتے اور کہتے ایک مشکل مسئلہ پیش آ چکا ہے۔ پھر ان کے قول کے مطابق ہی عمل کرتے حالانکہ ان کی مجلس میں بدری صحابہ بھی موجود ہوتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ، ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ذالك فتى الكهول له لسان سئول وقلب عقول. (1) ترجمہ: یہ ایسے نوجوان ہیں جنہیں پختہ عمر لوگوں کا فہم و بصیرت حاصل ہے، ان کی زبان علم کی جویا اور قلب علم کا محافظ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جب کوئی مسئلہ پوچھتا تو کہتے ابن عباسؓ سے پوچھو ھو اعلم الناس بما انزل علی محمد ﷺ وہ قرآن کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ (2) اسی لئے حضرت عمرؓ ان کو اکابر صحابہ کرام کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے۔ ان کے اس بلند مقام تک پہنچنے میں رسول اللہ ﷺ کی خصوصی توجہات اور عنایات کے علاوہ ان کی طلب اور ذوق و شوق کو بھی بڑا دخل تھا، اور ظاہر ہے یہ ذوق و طلب بھی آپ کی دعاؤں ہی کا نتیجہ تھا وہ خود اپنے ذوق و شوق اور طلب علم کا حال ذکر کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا آؤ صحابہ کرام سے علم حاصل کر لیں ابھی تو وہ لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان صحابی نے کہا ابن عباسؓ مجھے تم پر تعجب ہوتا ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ لوگ تحصیل علم کے لئے تمہارے محتاج ہوں گے۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں ان کا جواب سن کر میں نے انصاری صحابی کو چھوڑ دیا اور خود اکابر صحابہکرام کے پاس جا جا کر رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور دین کا علم حاصل کرنا شروع کر دیا، اس سلسلہ میں کبھی ایسا بھی ہوا کہ مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث فلاں صحابی کے پاس میں ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، یہ سن کر میں نے چادر بچھائی اور ان کے دروازہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا، ہواؤں نے میرے سر اور جسم پر گرد و غبار لا کر ڈال دیا اتنے میں وہ صحابی نکل آئے اور مجھے اس حال میں دیکھ کر کہا آپ رسول اللہ ﷺ کے بھائی ہیں، آپ مجھے بلا لیتے میں حاضر ہو جاتا آپ نے کیوں زحمت فرمائی میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے میں وہ حدیث آپ سے حاصل کرنے آیا ہوں اور اس کام کے لئے میرا آنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ کہتے ہیں میری طالب علمی کا یہ سلسلہ جاری رہا وہ انصاری صحابی مجھے دیکھتے رہے، آخر ایک وقت ایسا آیا کہ اکابر صحابہ کرامؓ دنیا سے رخصت ہو گئے اور لوگ طلب علم کے لئے میرے پاس آنے لگے اب وہ انصاری صحابی کہتے ہیں، یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقلمند نکلا۔ (3) طلب علم میں ان کے یہاں قناعت پر عمل نہ تھا ایک ایک حدیث کو حاصل کرنے کے لئے کئی کئی صحابہ کرامؓ سے ملتے، فرماتے ہیں کہ: ان كنت لا سأل عن الامر الواحد ثلاثين من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم. (1) ترجمہ: میں ایک حدیث یا ایک مسئلہ کو تیس (۳۰) تیس صحابہ کرامؓ سے معلوم کرتا تھا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد سے قرآن مجید کی تفسیر اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث حاصل کی ہیں جن صحابہ کرام سے انہوں نے روایات لی ہیں ان کی تعداد بہت ہے اور جن تابعین نے ان سے روایات نقل کی ہیں وہ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کا شمار ان چھ (۶) سات (۷) صحابہ کرام میں ہے جن کو مکثرین فی الحدیث کہا جاتا ہے۔ ان کی روایات کردہ احادیث کی تعداد ۶۶ یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ (2) وہ اپنی عمر کے اعتبار سے اگرچہ بڑے صحابہ کرامؓ کی صف میں نہیں ہیں۔ لیکن اپنے علم کے اعتبار سے ان کا شمار بڑے درجہ کے صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے۔ حضرت مجاہد تابعیؒ کہتے ہیں کہ ابن عباسؓ کو ان کے علم کی وجہ سے لوگ بحر العلوم کہتے تھے۔ حضرت طاؤسؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے زیادہ صاحب علم نہیں دیکھا، صحابہ کرام میں اگر کسی علمہ مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو آخر میں فیصلہ ابن عباسؓ کے قول پر ہوتا۔ (3) وہ بہت ہی حسین و جمیل اور وجیہہ تھے۔ ۶۸ھ میں طائف میں وفات پائی۔ حضرت محمد بن الحنفیہ (جو حضرت علیؓ کے صاحبزادے ہیں) نے نماز پڑھائی اور کہا۔ اليوم مات ربانى هذه الامة. (4) ترجمہ: آج اس امت کا ایک اللہ والا چلا گیا۔ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کے صاحبزادے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیار ؓ، بالکل ابتداء اسلام ہی میں شرف اسلام و صحابیت سے مشرف ہونے والی خوش نصیب و بلند مرتبت صحابہ کرام میں ہیں۔ (5) وہ عمر میں حضرت علی ؓ سے دس سال بڑے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی اسلام کے ابتدائی دور ہی میں مشرف بہ اسلام ہو گئی ہیں۔ حضرت علی ؓ کے سب بہن بھائی اور ان کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ بھی جلد ہی ایمان لانے والے حضرات صحابہ کرام میں شامل ہیں۔ حضرت جعفر ؓ، حضرت علی ؓ، سے دس سال بڑے اور رسول اللہ ﷺ سے بیس سال چھوٹے ہیں۔ (1) اسلام کے ابتدائی دور میں چند صحابہ کرام مشرکین مکہ کے ظلم و ستم اور ایذار رسانیوں سے تنگ آ کر رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے ملک حبشہ کو ہجرت کر گئے تھے۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی اگرچہ عیسائی مذہب کا تھا لیکن سلامتی مزاج اور وسعت قلبی بتوفیق خداوندی نصیب تھی۔ اس لئے مسلمانوں کو وہاں کچھ سکون محسوس ہوا۔ یہ حبشہ کی پہلی ہجرت تھی، اس کے بعد صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت (جس کے شرکاء کی تعداد تقریباً نو سو (۹۰۰) بتلائی جاتی ہے) نے دوسری ہجرت اسی ملک حبشہ کو کی، اس جماعت میں حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ اور ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی تھیں۔ جب یہ لوگ بھی حبشہ پہنچ گئے تو مشرکین مکہ نے ایک نمائندہ وفد کثیر اور گرانقدر تحائف کے ساتھ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی خدمت میں بھیجا۔ وفد نے درجہ بدرجہ درباری علماء اور احکام کو ہدایا اور تحائف پیش کر کے اپنا ہمنوا بنا لیا اور بادشاہ تک رسائی حاصل کر لی، پھر بادشاہ سے اپنا مقصد بایں الفاظ عرض کیا: "ہمارے شہر مکہ کے کچھ نوجوانوں نے ایک نیا مذہب ایجاد کر لیا ہے جو باعث فتنہ و شر ہے، ان میں سے کچھ لوگ بھاگ کر آپ کے یہاں آ گئے ہیں، ہم اپنے قوم کے ذمہ دار لوگوں کی یہ درخواست لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالہ کر دیا جائے۔ رشوت کھائے ہوئے درباری علماء و حکام نے اس بات کی تائید کی اور کہا کہ ان لوگوں کو ملک نے نکال دیجئے اور ان کی قوم کے حوالہ کر دیجئے، لیکن نجاشی نے صورت حال معلوم کرنے کے لئے ان مہاجرین کو بلا بھیجا، ان حضرات نے بادشاہ سے بات کرنے کے لئے حضرت جعفر ؓ کا انتخاب کیا، جب یہ حضرات بادشاہ کے دربار میں پہنچے تو بادشاہ نے ان سے سوال کیا کہ۔ "وہ کون سا دین تم لوگوں نے ایجاد کر لیا ہے، جس کی وجہ سے تم نے اپنے آباء و اجداد کے دین کو بھی چھوڑ دیا ہے اور ادیان سابقہ میں سے بھی کوئی دین اختیار نہیں کیا ہے"۔ حضرت جعفر ؓ کھڑے ہوئے اور بادشاہ کے سامنے ایک نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور کہا۔ بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے، بت پرستی کرتے اور مردار کھاتے تھے، فواحش کا ارتکاب کرتے اور قطع رحمی کرتے ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہم میں کے طاقتور کمزوروں اور ضعیفوں کا استحصال کرتے تھے، اسی اثناء میں اللہ نے ہم میں ایک پیغمبر مبعوث فرمایا جس کی نجابت و شرافت، حق گوئی و امانتداری اور پاکدامنی کے ہم سب پہلے ہی سے معترف تھے اللہ کے ان پیغمبر نے ہمیں صرف اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور ہم سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ہم اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے خود ساختہ بتوں کی عبادت ترک کر دیں، انہوں نے ہم کو سچ بولنے، امانتوں کو ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا۔ ان کی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ ہم ہر طرح کی برائیوں اور فحاشیوں سے پرہیز کریں، ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں، جھوٹ بولنے یتیم کا مال کھانے، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے اجتناب کریں، انہوں نے ہمیں توحید خالص کی دعوت دی ار روزہ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔ بادشاہ سلامت! ہم نے ان پیغمبر کی اور ان کی دین کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لے آئے۔ بس ہمارا جرم یہی اور صرف یہی ہے اور اسی وجہ سے ہماری قوم ہماری دشمن ہو گئی اس نے ہمیں انتہائی سخت تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں کہ ہم اپنے آسمانی دین کو ترک کر کے پھر بت پرستی اور دین جاہلیت کو اختیار کر لیں۔ ان لوگوں کے ظلم و ستم اور ایذا رسانی سے تنگ آ کر ہم لوگ آپ کے ملک آ گئے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہاں ہم اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہ سکیں گے۔ حضرت جعفرؓ کی بات ختم ہونے پر بادشاہ نجاشی نے کہا، کیا تمہارے پاس تمہارے نبی (ﷺ) پر نازل ہونے والی کتاب کا کچھ حصہ بھی ہے، حضرت جعفر ؓ، نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی، ابھی چند آیات ہی کی تلاوت کی تھی کہ بادشاہ نے رونے لگا، حتیٰ کے اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی اور اس نے کہا بخدا یہ کلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والا کلام ایک ہی نور کے پر تو ہیں اس کے بعد اس نے اہل مکہ کے وفد سے کہا تم لوگ چلے جاؤ یہ حضرات یہیں رہیں گے میں ان کو تمہارے حوالہ ہرگز نہیں کروں گا۔ اہل مکہ کے وفد نے ابھی ہمت نہیں ہاری اور دوسرے دن بادشاہ سے مل کر یہ شکایت کی کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں بھی خوش عقیدہ نہیں ہیں، بلکہ ان کے بارے میں نامناسب رائے رکھتے ہیں بادشاہ، نے پھر ان مہاجرین صحابہ کرامؓ کو بلوا بھیجا اور آنے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا عقیدہ معلوم کیا، حضرت جعفرؓ نے پوری صراحت کے ساتھ کہا۔ "انه عبدالله وروحه وكلمته القاها الى مريم" وہ اللہ کے بندے، اس کی روح اور کلمۃ اللہ ہیں۔ یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا واللہ عیسیٰ ابن مریم اس تعریف و توصیف سے اس تنکے بھر بھی زیادہ نہیں ہیں، اس نے مشرکین کے وفد کو اپنے دربار سے نکال دیا اور مسلمانوں کو ہر طرح امن و سکرن سے رہنے کا اطمینان دلایا۔ (1) حضرت جعفر ؓ اور ان کے ساتھیوں نے ۵؁ھ نبوی یعنی نبوت کے پانچویں سال مکہ سے حبشہ کو ہجرت کی تھی اور ۷؁ھ میں فتح خیبر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ آپ نے حضرت جعفر ؓ کو دیکھ کر اپنے سینے سے لگا لیا پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا "ما ادرى انا بقدوم جعفر اسرام، بفتح خيبر" (2) یعنی میں فیصلہ نہیں کر سکتا کہ مجھے جعفر کے آنے کی زیادہ خوشی ہے یا فتح خیبر کی۔ ان کو مسجد نبوی کے قریب ہی مکان کے لئے جگہ عنایت فرمائی اور اپنے قریب تر رکھا۔ ابھی مدینہ طیبہ آئے ہوئے صرف چند ماہ ہی گذرے تھے کہ ۸؁ھ میں غزوہ موتہ کے لئے رسول اللہ ﷺ نے جو لشکر روانہ کیا اس میں حضرت فعفر ؓ کو بھیجا، موتہ مدینہ سے دور ملک شام کا ایک علاقہ ہے۔ اس لشکر کا امیر حضرت زید بن حارثہؓ کو بنایا اور فرمایا زید اگر شہید ہو جائیں تو جعفر امیر ہیں اور اگر جعفر بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ، اور ان کی شہادت کی صورت میں وہاں مسلمان خود اپنا امیر منتخب کر لیں۔ (1) ایسا ہی ہوا یہ سب حضرات یکے بعد دیگرے شہید ہوتے رہے اور ایک کے بعد دوسرا امیر بنتا رہا۔ حضرت جعفرؓ کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے ان کو دیکھا تو ان کے جسم پر نوے ۹۰ سے بھی زیادہ زخم تھے۔ (2) رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی ان حضرات کی شہادت کی اطلاع ملی گئی تھی اور آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی خبر دے دی تھی۔ آپ ﷺ کو ان لوگوں کی شہادت کا بہت ہی غم ہوا تھا۔ (3) فضائل حضرت جعفرؓ رسول اللہ ﷺ کے بان العم اور سابقین اولین میں ہیں بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان سے پہلے صرف اکتیس ۳۱ شخڈ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ (4) انہوں نے ۵ نبوی میں مع اپنی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کے ہجرت کی اور تقریبا چودہ سال دین کی خاطر اپنے وطن اور اپنوں سے دور دیار غیر میں گذارے پھر وہاں سے مدینہ طیبہ پہنچے اور چند ماہ کے بعد ہی غزوہ موتہ میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت سے پہلے جنگ میں ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جعفرؓ کے دونوں ہاتھوں کے بدلے ان کو دو بازو عنایت فرمائے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہیں اڑتے پھرتے ہیں۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد حدیث و سیرت کی مختلف کتابوں میں الفاظ کے کسی قدر فرق کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ (5)اسی لئے ان کو جعفر طیار اور جعفر ذو الجناحین کہا جاتا ہے۔ عبداللہ عمرؓ جب حضرت جعفرؓ کے بیٹے عبداللہ سے ملتے تو اس طرح سلام کرتے السلام عليكم يا ابن ذى الجناحين. (6) بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را حضرت جعفر ؓ، غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں جعفرؓ سے جب بھی کوئی بات دریافت کرتا وہ پہلے مجھے اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلاتے۔ پھر میری بات کا جواب دیتے۔ وہ مساکین کے بارے میں (رسول اللہ ﷺ کے استثناء کے ساتھ) سب سے بہتر شخص تھے۔ (7) اسی لئے ان کا لقب ابو المساکین پڑ گیا تھا۔ وہ صورت و سیرت میں رسول اللہ ﷺ کے انتہائی مشابہ تھے۔ خود زبان نبوت نے اس کی شہادت ان الفاظ میں مرحمت فرمائی۔ اشبهت خلقى وخلقى. (1) ترجمہ: تمہاری شکل و صورت اور سیرت و کردار میری شکل و صورت اور سیرت و کردار کے بہت مشابہ ہے۔ حبشہ کو ہجرت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی یہ جماعت جب مدینہ طیبہ پہنچی ہے تو ایک دن حضرت جعفرؓ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ ام المومنین حضرت حفصہؓ کے یہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ حضرت عمر ؓ، تشریف لائے پوچھا کون ہیں۔ حضرت حفصہ ؓ نے بتلایا اسماء بنت عمیسؓ ہیں، حضرت عمرؓ نے (بظاہر بطور مزاح ہی) فرمایا ہم لوگ یعنی مکہ سے سیدھے مدینہ ہجرت کرنے والے تم لوگوں سے جو حبشہ رہ کر مدینہ آئے ہو ہجرت مدینہ میں مقدم اور رسول اللہ ﷺ کے زیادہ حق دار ہیں۔ حضرت اسماءؓ اس بات پر بہت خفا ہو گئیں۔ پہلے تو خود حضرت عمرؓ کو خوب خوب سنائی۔ انہوں نے کہا، عمر! تم نے غلط کہا واللہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تم میں اگر کوئی بھوکا ہوتا تو آپ ﷺ اسے کھلاتے دین سے کوئی ناواقف ہوتا تو آپ اسے وعظ و نصیحت کرتے اور ہم لوگ دور دراز، ناپسندیدہ اور غیر مانوس ملک حبشہ میں غم و الم اور فکر و پریشانی میں مبتلا تھے۔ اور یہ سباللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر تھا۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ سے بھی حضرت عمرؓ کے اس طنز کی شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا عمر، تم لوگوں کے مقابلہ میں میرے زیادہ حقدار نہیں ہیں، ان کی اور ان کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہے اور تم لوگوں کی تو دو ہجرتیں ہیں۔ (2) شہادت کے وقت ان کی عمر اکتالیس سال تھی۔ زمانہ قیام حبشہ میں تین بیٹے عبداللہ، عون اور محمد پیدا ہوئے۔ ؓ ورضوا عنہ۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ حضرت زید بن حارثہ ؓ کا تعلق قبیلہ بنی کلاب سے تھا۔ یہ قبیلہ مکہ معظمہ سے دور کہین رہتا تھا۔ حضرت زید ؓ بچپن میں اپنی والدہ اور ایک قول کے مطابق اپنے چچا کے ہمراہ ایک قافلہ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ ڈاکوؤں نے پورے قافلہ کو لوٹ لیا اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ پھر ان بچوں کو مکہ معظمہ کے قریب کسی بازار یا میلے میں لا کر فروخت کر دیا۔ انہیں بچوں میں ایک بچہ زید نامی بھی تھا جسے مکہ کے ایک شخص حکیم بن حزام نے خرید لیا اور اپنی پھوپھی خدیجہ کو دے دیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت بلکہ حضرت خدیجہؓ کے آپ کی نکاح میں آنے سے بھی پہلے کا ہے۔ اس وقت حضرت زید کی عمر تقریباً ۸ سال کی تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنی شادی کے بعد یہ غلام رسول اللہ ﷺ کو تحفہ میں دے دیا۔ آپ نے اس معصوم بچہ کو اتنے پیار و محبت سے وازا کہ یہ غلام بچہ اپنے ماں باپ کو بھول گیا۔ ادھر ماں باپ کا اپنے بچے کے فراق میں برا حال تھا، قبیلہ بنی کلاب کی کسی شخص نے جو حج کے لئے معظمہ آیا تھا۔ مکہ میں زید کو دیکھا اور پہچان لیا۔ پھر اپنے قبیلہ پہنچ کر ان کے والدین کو اس کی اطلاع کر دی کہ تمہارا بچہ مکہ میں ہے۔ ان کے والد اور چچا ان کو لینے کے لئے مکہ آئے اور برائے فدیہ زر کثیر بھی اپنے ساتھ لائے۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے رابطہ قائم کیا اور اپنی آمد کا مقصد عرض کر کے مال و دولت بطور فدیہ دینے کی پیشکش کی۔ آپ ﷺ نے حضرت زید کو بلایا اور فرمایا ان لوگوں کو پہچانتے ہو۔اپنےو الد اور چچا کو انہوں نے پہچان لیا۔ آپ نے ان لوگوں سے فرمایا۔ اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ یہ زید ہیں اگر یہ تم لوگوں کے ساتھ جانا چاہیں انہیں اختیار ہے۔ حضرت زید ؓ، کو آپ کی ذات گرامی سے اتنا تعلق ہو گیا تھا کہ اپنے والد و چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ حضرت زیدؓ کے اس عمل نے آپ ﷺ کو اتنا متاثر کیا کہ آپ حرم شریف تشریف لائے اور قریش کو گواہ بنا کر کہا کہ یہ زید آج سے میرا بیٹا ہے۔ اور میں اس کا باپ، یہ میرا وارث ہو گا۔ اور میں اس کا اس دن سے لوگ ان کو زید بن محمد ہی کہا کرتے تھے۔ پھر عرصہ کے بعد جب اسلامی قانون نے متبنی (منہ بولا بیٹا) بنانے کی جاہلی رسم کو ختم کر دیا تو یہ زید، زید بن حارثہ کہلائے جانے لگے۔ (1) بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھائی جبلہ بن حارثہ بھی ان کو لینے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے حضرت زید پر کافی زور ڈالا لیکن وہ جانے کے لئے تیار نہیں ہوئے، بعد میں ان کے بھائی نے کہا زید کی رائے میری رائے سے بہتر تھی۔ (2) پھر جب اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا اور محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تو سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں یہی زید ہیں۔ (3) (جو ابھی تک زید بن محمد ہی کہلاتے تھے) اور ایمان لانے کے صلہ میں ہر ہر تکلیف میں رسول اللہ ﷺ کے سہیم و شریک رہے ہیں۔ وہ طائف کے مشہور سفر میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہجرت کے بعد بہت سے غزوات میں دین کے لئے جان کی بازی لگائی ہے۔ اور آخر غزوہ موتہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ زیدؓ جب شادی کے قابل ہو گئے تو آپ ﷺ نے حضرت زیدؓ کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش ؓ سے کرا دیا تھا۔ لیکن یہ رشتہ زیادہ دن باقی نہ رہ سکا اور حضرت زیدؓ نے طلاق دے دی جس کا کسی قدر تفصیلی ذکر حضرت زینب بنت جحش ؓ کے تذکرہ میں گزر چکا ہے۔ اس کے بعد آپ ہی نے ان کا دوسرا نکاح حضرت ام ایمنؓ سے کر دیا۔ یہ آپ کے والد عبداللہ کی باندی تھیں اور ان کے انتقال پر آپ کی مملوکہ ہو گئی تھیں۔ آپ نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔ انہیں سے حضرت زیدؓ کے صاحبزادے حضرت اسامہ ؓ پیدا ہوئے ہیں۔ (4) فضائل حضرت زید بن حارثہ ؓ، کے فضائل و مناقب کا شمار مشکل ہے۔ ان کو رسول اللہ ﷺ سے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبت تھی، اسی لئے انہوں نے اپنے والد اور چچا کے ساتھ آزاد ہو کر اپنے وطن جانے کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غلام ہو کر رہنے کو ترجیح دی، ادھر رسول اللہ ﷺ کو بھی ان سے غیر معمولی تعلق تھا۔ اسی لئے آپ نے ان کو اپنا متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا اور ان کی زندگی کا خاصلہ حصہ اسی طرح گزرا کہ صحابہ کرامؓ انہیں زید بن محمد ہی کہتے تھے۔ حتیٰ کہ جب آیت کریمہ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ نازل ہوئی جس میں نسب کو اپنے اصل والد سے جوڑنے کا حکم ہے۔ تب صحابہ کرامؓ نے زید بن حارثہ کہنا شروع کیا۔ (1) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت زید کا نسب تو اپنے والد حارثہ سے ہی جوڑ دیا گیا لیکن رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک میں ان کی محبت بیٹے کی محبت ہی کی طرح رہی اور آپ اس محبت و تعلق کا اظہار صحابہ کرامؓ اور حضرت زیدؓ سے کرتے بھی تھے۔ (2) حضرت زیدؓ اگر کبھی مدینہ سے باہر جاتے تو آپ بڑے اشتیاق سے ان کی آمد کے منتظر رہتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ ﷺ کی اسی شفقت و محبت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ زید بن حارثہؓ کہیں باہر سے مدینہ طیبہ آئے، رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ زید نے دروازہ کھٹکھٹایا (اور کسی طرح آپ ﷺ کو علم بھی ہو گیا کہ آنے والے زیدؓ ہی ہیں) آپ اتنی سرعت کی ساتھ ان کے استقبال کے لئے نکلے کہ آپ کی چادر جسم مبارک سے نیچے کھسک گئی، اور آپ اسے گھسیٹتے ہوئے ہی باہر نکل گئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے کبھی بھی آپ کو اس حالت میں باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ نے ان کو گلے لگا لیا اور بوسہ دیا۔ (3) رسول اللہ ﷺ کو ان کی بہادری اور قائدانہ صلاحیت پر بڑا اعتماد تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے جب بھی حضرت زیدؓ کو کسی غزوہ میں بھیجا ہمیشہ لشکر کا امیر انہی کو بنایا (4) اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ خود غزوہ میں تشریف لے جاتے تو مدینہ میں اپنا خلیفہ زیدؓ کو بنا کر جاتے۔ شہادت ۸ھ میں غزوہ موتہ کے لئے جو لشکر آپ نے روانہ فرمایا تھا، اس کا امیر حضرت زید بن حارثہؓ ہی کو بنایا تھا۔ موتہ ملک شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔ مسلمانوں کا مقابلہ روم کی ٹڈی دل فوج سے ہوا۔ حضرت زیدؓ نے انتہائی بہادری اور جوانمردی کے ساتھ جہاد کیا اور شہید ہو گئے آپ کو ان کی شہادت کی بہت تکلیف ہوئی، اسی غزوہ میں آپ ﷺ کے بھائی حضرت جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ بھی شہید ہوئے۔ حضرت زیدؓ کی شہادت کی خبر پر آپ ﷺ نے فرمایا: استغفروا لاخيكم قد دخل الجنة وهو يسعى. (1) ترجمہ: اپنے بھائی زید کے لئے دعاء مغفرت کرو وہ دوڑتے ہوئے جنت میں داخل ہو گئے۔
Top