معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2106
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت اسامہ بن زید ؓ حضرت زید بن حارثہ ؓ، کے صاحبزادے حضرت اسامہ بن زید ؓ، کی ولادت ۳ نبوی یعنی بعثت کے تیسرے سال ہوئی ہے۔ ان کی ولادت سے رسول اللہ ﷺ کو بہت خوشی ہوئی، اس لئے کہ ان کے والد حضرت زیدؓ اور والدہ حضرت ام ایمنؓ دونوں ہی آپ کو بہت عزیز تھے، زید تو آپ کے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ تھے ہی ام ایمن بھی آپ ہی کی آزاد کردہ باندی تھیں، انہوں نے آپ کو گود میں بھی کھلایا تھا اس لئے آپ کو ان سے محبت ہی نہیں احترام کا بھی تعلق تھا۔ والدین سے یہ تعلق اور محبت حضرت اسامہؓ کی طرف بھی منتقل ہوا تھا۔ فضائل حضرت اسامہؓ نے پورا بچپن آغوش نبوت ہی میں گزرا۔ آپ ﷺ کا تعلق ان کے ساتھ بالکل ایسا تھا، جیسے دادا کا اپنے پوتے کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ انہیں اپنی گود میں لیتے اور ضرورت پڑنے پر اپنے دست مبارک سے ان کی ناک بھی صاف فرما دیتے۔ ایک بار آپ ﷺ نے ان کی ناک صاف کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا آپ رہنے دیجئے میں صاف کئے دیتی ہوں آپ ﷺ نے فرمایا عائشة احبيه فانى احبه (2) عائشہ یہ بچہ مجھے محبوب ہے۔ تم بھی اس سے محبت کیا کرو کبھی کبھی آپ ﷺ اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت اسامہؓ کو پکڑ کر دونوں کے لئے یہ دعا کرتے۔ اللهم احبهما فانى احبهما (3) اے اللہ یہ دونوں بچے مجھے محبوب ہیں آپ بھی انہیں اپنا محبوب بنا لیجئے۔ حضرت زیدؓ کے بیٹے حضرت اسامہؓ اور ان کی اہلیہ حضرت ام ایمنؓ آپ کے اہل خاندان ہی کی طرح تھے، مکہ میں بھی اسی طرح رہے اور ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں بھی یہ تینوں حضرات آپ ﷺ کے انتہائی قریبی لوگوں میں تھے۔ اور صحابہ کرامؓ بھی ان تینوں کو آپ کے انتہائی مقرب اور معتمد علیہ لوگوں میں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک معزز خاندان کی ایک عورت نے چوری کر لی جس کی سزا کے طور پر آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ فرمایا۔ اس کے خاندان کے لوگوں کے لئے یہ فیصلہ بہت تکلیف دہ اور رسوا کن تھا۔ لیکن آپ سے کچھ بھی عرض کرنے کی ہمت کسی کو نہ ہوتی تھی، بہت غور و فکر کے بعد ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام اگر کوئی کر سکتا ہے تو اسامہ کر سکتے ہیں، اس سلسلہ کی صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (4) ترجمہ: یعنی اس سفارش کی ہمت رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زیدؓ ہی کر سکتے ہیں۔ اور پھر اسامہؓ نے سفارش کی بھی۔ لیکن آپ ﷺ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔ حدود خداوندی کے معاف کرنے کا آپ ﷺ کو اختیار نہ تھا۔ غزوہ احد کی وقت حضرت اسامہؓ بچے ہی تھے۔ جہاد میں شریک ہونے کی تمنا تھی، خود آپؓ سے آ کر اپنی خواہش کا اظہار کر دیا آپ ﷺ نے واپس کر دیا، غزوہ خندق میں ان کی عمر ۱۵ سال کی ہو چکی تھی، اس بار آپ ﷺ نے ان کی درخواست قبول فرما لی، اس کے بعد تو کتنے ہی غزوات میں شریک ہوئے اور کتنے ہی غزوات میں امیر بنا کر بھیجے گئے۔ غزوہ موتہ میں جس میں ان کے والد حضرت زیدؓ شہید ہوئے ہیں، وہ اپنے والد کی سرکردگی میں شریک غزوہ ہوئے ہیں اور اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کی شہادت دیکھی ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کی بالکل آخر میں اسی علاقہ کو فتح کرنے کے لئے جو باپ کے ہاتھوں فتح نہ ہو سکا تھا ایک عظیم لشکر حضرت اسامہؓ کی سرکردگی میں بھیجا، اس لشکر میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ تھے۔ (1) اس وقت حضرت اسامہؓ کی عمر کل ۲۰ سال تھی، بعض حضرات کو اس پر اشکال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ «إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ طَعَنْتُمْ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ كَانَ خَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ» ترجمہ: یعنی اگر تمہیں اسامہ کی امارت پر اشکال ہے تو تم تو ان کے باپ زید کی امارت پر بھی اشکال کر چکے ہو، حالانکہ واللہ وہ امارت کے بھی اہل تھے اور واللہ مجھے انتہائی محبوب بھی تھے۔ اسی طرح یہ اسامہ بھی واللہ امارت کے اہل ہیں اور مجھے انتہائی محبوب بھی ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں فَأُوصِيكُمْ بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ صَالِحِيكُمْ کا اضافہ بھی ہے یعنی میں تم لوگوں کو اسامہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تم لوگوں کے صالحین میں سے ہیں۔ ابھی یہ لشکر مدینہ طیبہ سے کچھ دور ہی گیا تھا رسول اللہ ﷺ کا مرض وفات شروع ہو گیا اور اس کی سنگینی کی اطلاع لشکر میں شریک صحابہ کرامؓ کو ہو گئی، جس کی وجہ سے یہ لشکر مدینہ واپس آ گیا، جب واپس آ کر حضرت اسامہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تو آپ کا بولنا بند ہو چکا تھا، لیکن آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ حضرت اسامہؓ پر رکھتے اور پھر دعا کرنے کے انداز میں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے، حضرت اسامہؓ کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آپ میرے لئے دعا فرما رہے تھے۔ (1) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے لئے انتہائی تشویشناک حالات پیدا ہو گئے تھے۔ صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد اس حق میں تھی کہ فی الحال یہ لشکر روانہ نہ کیا جائے، اور اگر روانہ کرنا ضروری ہی ہے تو کسی تجربہ کار اور سن رسیدہ شخص کو امیر بنایا جائے لیکن حضرت ابو بکر ؓ نے اس لشکر کے بارے میں کسی بھی تبدیلی کو قبول نہیں فرمایا لشکر روانہ ہوا اور اسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی اور امارت ہی میں روانہ ہوا اور پھر الحمدللہ بہت ہی کامیاب اور سالماً غانماً واپس آیا۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت کی وجہ سے حضرات صحابہ کرامؓ سے بہت محبت کرتے تھے، حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیت المال سے صحابہ کرامؓ کے وظائف مقرر فرمائے تھے، اس میں مراتب کے لحاظ سے کمی بیشی کی تھی۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کا وظیفہ تین ہزار درہم اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کا وظیفہ تین ہزار درہم مقرر کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے عرض کیا ابا جان اسامہؓ کو مجھ پر فضیلت دینے کی کیا وجہ ہے۔ وہ تو کبھی بھی کسی معرکہ میں مجھ سے سبقت نہیں لے گئے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اسامہؓ کے والد زیدؓ رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب اور اسامہؓ آپ ﷺ کو تم سے زیادہ محبوب تھے۔ میں نے آپ کی محبت کو اپنی محبت پر ترجیح دی ہے۔ وفات حضرت اسامہؓ کی وفات ۵۴ھ میں یا اس سے پہلے مدینہ چیبہ یا اس کے قریب وادی القریٰ میں ہوئی ہے، وفات سے پہلے کافی مدت دمشق کے قریب مزہ نامی بستی میں گزاری ہے۔ ؓ وارضاہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مکہ معظمہ کے رہنے والے اور اولین اسلام لانے والے صحابہ کرام میں سے ہیں، خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے پہلے صرف پانچ شخص مسلمان ہوئے تھے۔ اسلام لانے والوں میں میرا چھٹا نمبر ہے۔ (2) ان کے والد کا انتقال زمانہ جاہلیت ہی میں ہو گیا تھا۔ لیکن والدہ ایمان لے آئیں تھیں اور بلند پایہ صحابیہ تھیں۔ ایمان لانے کے نتیجے میں جو تکلیف و مصائب ہر صاحب ایمان کے نصیب میں آتے تھے وہی عبداللہ بن مسعودؓ کے حصہ میں بھی آئے۔ ایک دن مکہ میں چند صحابہ کرامؓ مٰں یہ مشورہ ہوا کہ قریش کو قرآن مجید کس طرح پہنچایا جائے وہ تو قرآن سننے کے بالکل روادار نہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا میں اس خدمت کے لئے تیار ہوں۔ صحابہ کرام نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص یہ کام کرے جس کے خاندان کے لوگ اس کے حمایتی ہوں اور قریش اس کو مارنے پیٹنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ قریش کی مجلس میں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر سورہ رحمٰن کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا واپس آئے تو پورا بدن لہو لہان تھا۔ صحابہ کرامؓ نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تو کہنے لگے یہ مشرکین میری نگاہ میں وہاں جانے سے پہلے جتنے بےحیثیت تھے اب اس سے بھی زیادہ بےوقعت ہیں اور میں اب پھر اس کام کے لئے ان کے پاس جانے کو تیار ہوں۔ مشرکین کی اذیتوں سے تنگ آ کر صحابہ کرامؓ کی جو جماعت نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں حبشہ چلی گئی تھی، ان صحابہ کرامؓ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے وہاں جانے کے کچھ ہی دنوں کے بعد ان حضرات کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا ہے۔ اس اطلاع پر عبداللہ بن مسعودؓ مکہ واپس چلے آئے، لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی اس لئے جلد ہی دوبارہ حبشہ کو ہجرت کر گئے اور جب رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مدینہ کی اطلاع حبشہ پہنچی تو عبداللہ بن مسعود ؓ مدینہ طیبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ (1) جس وقت عبداللہ بن مسعود ؓ مدینہ پہنچے ہیں رسول اللہ ﷺ غزوہ بدر کی تیاری کر رہے تھے وہ آپ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابو جہل کا کام تمام کیا جس کو دو نوجوان انصاری صحابیوں نے قتل کر دیا تھا لیکن ابھی کچھ جان باقی تھی۔ (2) غزوہ بدر کے بعد آپ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود ؓ پتلے دبلے جسم کے تھے، رنگ گندمی تھا، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ان کو کسی ضرورت سے درخت پر چڑھایا صحابہ کرامؓ ان کی دبلی پتلی ٹانگ کو دیکھ کر ہنسنے لگے آپ نے فرمایا کہ لرجل عبداللہ اثقل فی المیزان یوم القیامۃ من احد یعنی اللہ کے نزدیک عبداللہ بن مسعود کی یہ دبلی پتلی ٹانگ بھی احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہے۔ کپڑے صاف ستھرے پہنتے اور کثرت سے عطر استعمال فرماتے تھے۔ (3) فضائل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا شمار بڑے اہل فضل و کمال صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے وہ سابقین اولین میں ہیں جن کے متعلق اللہ کی طرف سے ؓ ورضوا عنہ کا مژدہ سنا دیا گیا ہے۔ ان کی زندگی کا خاصا حصہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گزرا ہے سفر و حضر میں آپ کی ذاتی خدمت میں جو صحابہ کرامؓ پیش پیش رہتے تھے، ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے اسی لئے صحابہ کرامؓ کو صاحب النعلین والسواک والوسادہ یعنی رسول اللہ ﷺ کی ضروریات کا خیال رکھنے والا کہتے تھے۔ (4) ان کو جو قرب و تعلق آپ کی ذات گرامی سے نصیب تھا وہ چند ہی صحابہ کرامؓ کو میسر تھا۔ وہ ہمہ وقت آپ کے گھر آتے جاتے اور خدمت میں رہتے تھے۔آپ کی طرف سے ان کو اس سلسلہ میں خصوصی اجازت تھی۔ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا تھا۔ إِذْنُكَ عَلَيَّ أَنْ يُرْفَعَ الْحِجَابُ، وَأَنْ تَسْتَمِعَ سِوَادِي، حَتَّى أَنْهَاكَ (5) یعنی جب تم دیکھو کہ میرے دروازہ کا پردہ اٹھا ہوا ہے تو تم بلااجازت اندر آ سکتے ہو اور میرے راز کی بات سن سکتے ہو الا یہ کہ میں تم کو آنے سے منع کر دوں۔ اسی لئے صحابہؓ ان کو آپ ﷺ کا رازدار بھی کہتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ، فرماتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی یمن سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ہم دونوں بھائی عبداللہ بن مسعودؓ اور ان کی والدہؓ کی رسول اللہ ﷺ کے دولت کدہ پر بکثرت حاضری دیکھ کر مدت تک یہی سمجھتے رہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ آپ کے گھر کے ہی ایک فرد ہیں۔ (1) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا علمی مقام بھی بہت بلند ہے، ان کا شمار ان صحابہ کرامؓ میں ہے جو اہل فتویٰ اور اہل قضاء سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے قرآن و سنت کا بہت علم حاصل کیا اور اللہ نے ان کو تلامذہ بھی غیر معمولی قسم کے عطا فرمائے جنہوں نے ان کے علم اور ان کی روایت کردہ احادیث اور قرآن کی تفسیر کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیا۔ ان کو قرآن مجید سے خصوصی شغف اور تعلق تھا۔ قرآن مجید یاد بھی بہت اچھا تھا اور بہت صحیح اور سوز کے ساتھ پڑھتے تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار ایسا ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکرؓ اور میں کسی مشورہ میں آپ ﷺ کے گھر پر دیر تک رہے، جب مشورہ ختم ہو گیا تو آپ ﷺ ہم دونوں کو رخصت کرنے کے لئے باہر (مسجد تک جو آپ کے دولت کدہ سے متصل ہی تھی) تشریف لائے ہم لوگوں نے دیکھا کہ کوئی شخص مسجد میں نماز میں مشغول ہے آپ ﷺ نے ان کو پہچان لیا وہ عبداللہ بن مسعودؓ تھے۔ آپ دیر تک کھڑے ان کی قرأت سنتے رہے پھر فرمایا من سره أن يقرأ القرآن رطبا كما أنزل فليقرأه على قراءة ابن أم عبد (2) یعنی جو شخص قرآن مجید کو بالکل ترو تازہ جیسا اترا ہے ویسا ہی پڑھنا چاہے اس کو عبداللہ بن مسعودؓ کے طرز پر قرآن مجید پڑھنا چاہئے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار آپ نے مجھ سے فرمایا مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ، میں نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی جب آیت کریمہ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا تک پہنچا تو آپ نے مجھے روک دیا میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو جن اکابر صحابہ کرام سے قرآن مجید پڑھنے کا حکم یا مشورہ دیا تھا ان میں سب سے پہلا نام آپ ﷺ نے عبداللہ بن مسعود ؓ کا ذکر فرمایا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے۔ «اسْتَقْرِئُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ» (4) حضرت ابو مسعود انصاری حضرت ابن مسعود ؓ کے اس فضل کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں ما اعلم رسول الله ترك بعد اعلم بما انزل الله من هذا القائم. (5) (یعنی عبداللہ بن مسعود ؓ) یعنی میرے علم میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی شخص بھی عبداللہ بن مسعودؓ سے زیادہ قرآن کا علم نہیں رکھتا ...... خود عبداللہ بن مسعودؓ اپنے بارے میں فرماتے ہیں میں نے قرآن مجیدن کی ستر ۷۰ سے زیادہ سورتیں براہ راست رسول اللہ ﷺ سے پڑھی ہیں اور قرآن مجید کی ہر سورت کے متعلق میں جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی ہے اور ہر ہر آیت کا شان نزول بھی مجھے معلوم ہے۔ (1) حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لئے کوفہ بھیجا تھا اور اہل کوفہ کے نام اس سلسلہ میں جو گرامی نامی تحریر فرمایا تھا اس میں عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق یہ لکھا تھا۔ "میں عبداللہ بن مسعود ؓ کو اپنا نائب اور تمہارا معلم بنا کر بھیج رہا ہوں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے اکابر صحابہ میں ہیں اور غزوہ بدر میں شریک ہونے والے لوگوں میں ہیں، ان کی مجھے بھی ضرورت تھی لیکن میں تم لوگوں کو اپنے مقابلہ میں ترجیح دیتا ہوں، تم ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔" حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں عبداللہ بن مسعود ؓ کوفہ ہی میں رہے، اور کوفہ ہی ن کی دینی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بنا اور یہیں سے ان کے علوم کی نشر و اشاعت ہوئی حدیث کی کتابوں میں ان کی مرویات کی تعداد ۸۴۸ ہے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو بیت المال کا نگہبان بھی بنا دیا تھا یہ عہدہ بھی جب تک وہ کوفہ میں رہے ان کے پاس ہی رہا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی خلافت کے آخری دور میں ان کو مدینہ بلا لیا تھا۔ (2) وہ اپنی سیرت و کردار میں بھی رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع کرتے۔ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں«مَا أَعْرِفُ أَحَدًا أَقْرَبَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ» (3) یعنی میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے طور طریقہ اور سیرت و کردار میں عبداللہ بن مسعودؓ کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ قریب تر ہے۔ حدیث و سیرت کی کتابوں میں عبداللہ بن مسعودؓ کے مناقب و فضائل جو بیان فرمائے گئے ہیں۔ اگر ان سب کو جمع کر دیا جائے ایک اچھا خاصا رسالہ تیار ہو جائے۔ اس مختصر تذکرہ میں سب کی گنجائش کہاں ہے۔ اس لئے بس ایک روایت صحیح مسلم کی اور ذکر کی جاتی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ہم چھ آدمی آپ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے جن میں عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے۔ مشرکین مکہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ اگر آپ ﷺ اپنے پاس سے ان لوگوں کو ہٹا دیں تو ہم آپ کی بات سنے کو تیار ہیں آپ نے اس کا ارادہ فرمایا ہی تھا کہ آیت کریمہ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ (4) (آیت نمبر ۵۲ سورہ انعام) نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالئے جو صبح و شام اپنے اللہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف رجائے الہٰی ہی ہوتا ہے ..... اس آیت میں ان صحابہ کرامؓ کی جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے بڑی فضیلت کا بیان ہے۔ آیت میں آگے مزید تاکید اور سختی سے پھر یہی حکم دیا گیا ہے۔ وفات حضرت عثمان ؓ نے اپنی خلافت کے آخری زمانہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو کوفہ سے مدینہ بلا لیا۔ مدینہ میں ہی ان کی وفات ۳۲؁ھ میں ہوئی اور غالباً حضرت عثمانؓ ہی نے نماز جنازہ بھی پڑھائی، وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی۔ (1) حضرت اُبّی بن کعب ؓ رسول اللہ ﷺ ابھی مکہ معظمہ میں ہی تھے لیکن اسلام کی شعاعیں مدینہ طیبہ کے افق کو منور کرنے لگی تھیں، نبوت کے گیارہویں سال میں حج کے موقع پر مدینہ طیبہ کے کچھ لوگ مکہ معظمہ آئے اور آپ ﷺ کی دعوت سے متاثر ہو کر ایمان لے آئے اور منیٰ میں جمرہ عقبہ کے قریب آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اس کو بیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر صرف چھ حضرات ہی اسلام اور بیعت سے مشرف ہوئے تھے۔ آئندہ سال یعنی ۱۲ نبوی مین بارہ ۱۲ حضرات حج کے موقع پر آئے اور یہ سب بھی منیٰ میں جمرہ عقبہ کے پاس ہی آپ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کر کے مسلمان ہو گئے، اس کو بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ ان حضرات میں حضرت اُبّی بن کعب ؓ بھی تھے۔ فضائل حضرت اُبّی بن کعب ؓ کا تعلق مدینہ طیبہ کے مشہور قبیلہ خزرج سے تھا۔ اہل مدینہ میں اول ایمان لانے والے صحابہؓ میں ان کا شمار ہے۔ ہجرت سے پہلے بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے ہیں اور ہجرت کے بعد غزوہ بدر اور بعد کے امام ہی غزوات میں شرکت کی ہے۔ (2) ہجرت کے بعد کتابت وحی کی سعادت بھی ان کے نصیب میں آئی۔ قرآن مجید بہت اچھا پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان کو اپنی امت کے سب سے بڑے قاری ہونے کے خطاب سے نوازا تھا۔ (3) ایک دفعہ آپ ﷺ نے حضرت اُبّی بن کعب ؓ سے فرمایا۔ ابی اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن مجید پڑھ کر سناؤں۔ حضرت اُبّی بن کعب ؓ نے عرض کیا۔ کیا میرا نام لے کر اللہ نے کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، تمہارا نام لے کر اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن مجید سناؤں یہ سن کر حضرت اُبّی بن کعب ؓ رونے لگے اور آپ ﷺ نے حضرت اُبّی بن کعب ؓ کو سورہ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا پڑھ کر سنائی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی حیات ہی میں پورے قرآن کے حافظ ہو چکے تھے۔ (4) حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں رمضان المبارک میں باجماعت تراویح کا اہتمام کرایا تھا اور حضرت اُبّی بن کعب ؓ کو امام مقرر فرمایا تھا۔ (1) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت اُبّی بن کعب ؓ سے دریافت فرمایا اُبّی بن کعبؓ یہ بتلاؤ کہ قرآن مجید میں کون سے آیت تمہارے نزدیک سب سے زیادہ عظیم المرتبت آیت ہے۔ حضرت ابی نے عرض کیا اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (الآیۃ) یعنی آیت الکرسی آپ نے فرمایا ليهنك العلم يا أبا منذر اے ابو منذر تمہیں علم مبارک ہو۔ (2) چونکہ آیۃ الکرسی میں اللہ کی توحید اس کی عظیم قدرت اور صفات عالیہ کا ذکر ہے اس لئے وہ سب سے عظیم آیت ہے اور اسی لئے اس کے فضائل بھی احادیث میں بکثرت وارد ہوئے ہیں ان کو علماً و عملاً قرآن مجید سے امتیازی قسم کا تعلق تھا۔۔ اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ ایک شخص نے آپ سے اپنے لئے کچھ نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا اتخذ كتاب الله اماما وارض به حكما وقاضيا فانه الذى استخلف فيكم رسولكم، شفيع مطاع، شاهد لا يتهم، فيه ذكركم وذكر من كان قبلكم وحكم ما بينكم وخبركم وخبر ما بعدكم. (3) یعنی قرآن مجید کو اپنا مقتدا بنا لو، ہر بات میں اس کی اتباع کرو اور اس کے ہر فیصلہ کو بخوشی قبول کرو، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ تم لوگوں کے لئے اسی کو اپنا جانشین بنا کر گئے، وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت یقیناً قبول کی جائے گی، ایسا گواہ ہے جس پر کوئی اتہام نہیں لگتا سکتا۔ اس میں تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا تذکرہ ہے اور تمہارے باہمی تنازعات کا حل ہے، اس میں تمہاری اور تم سے بعد کے لوگوں کو بھی خبریں ہیں۔ آخرت کی فکر اور اس کی تیاری کا خیال بہت رکھتے اور دنیا کو آخرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے، ایک شخص کو دیکھا کہ دنیا کی بہت برائی بیان کر رہا ہے تو فرمایا کہ هل تدرى ما الدنيا فيها زادنا الى الاخرة وفيها اعمالنا التى تجزى بها جانتے ہو دنیا کیا ہے، دنیا ہی زاد آخرت ہے، اسی میں وہ اعمال کرنے ہیں جن کے بدلے میں جنت ملے گی۔ صحابہ کرامؓ عام طور پر ان کا بہت اکرام کرتے۔ حضرت عمرؓ تو ان کو سیدالمسلمین کہتے ان سے مسئلے دریافت کرتے اور لوگوں کے فیصلے کراتے تھے۔ (4) میانہ قد، گورا رنگ، نحیف و لطیف جسم تھا۔ کپڑے بہت صاف ستھرے استعمال کرتے تھے۔ وفات کے بارے میں تین قول ۱۹ھ، ۲۲ھ، ۳۰ھ ذخر کئے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (5) ؓ، وارضاہ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو ہریرہ ؓ کے نام کے بارے میں اسماء الرجال کے واقفین کے مابین سخت اختلاف ہے۔ ایسا اختلاف کسی بھی صحابیؓ کے نام میں نہیں ہے۔ ان کے نام کے بارے میں تقریباً تیس قول ذکر کئے جاتے ہیں۔ امام ترمذیؒ نے ناموں کے اس اختلاف کو ذخر کرنے کے بعد عبد شمس یا عبدللہ نام بتلایا ہے اور کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے عبداللہ نام کو ترجیح دی۔ (1) امام نوویؒ نے شرح مسلم میں عبدالرحمٰن بن ضخر کو ترجیح دی ہے، فرماتےہیں ابو هريرة عبدالرحمن بن صخر على الصح من نحو ثلاثين قولا یہی بات تذکرۃ الحفاظ (2) میں بھی ہے۔ وہ اپنی کنیت ابو ہریرہ ہی کے ساتھ مشہور ہیں حتیٰ کے بہت ہی کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کا نام ابو ہریرہؓ نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ ابو ہریرہؓ کی کنیت کیسے ہوئی اس کے بارے میں بھی ان ہی کے دو قول نقل کئے جاتے ہیں۔ اول یہ کہ میں اپنے گھر پر اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا میرے پاس ایک چھوٹی سی بلی تھی۔ رات میں اس کو پیڑ پر چڑھا دیا کرتا اور دن میں جب بکریاں چرانے جاتا تو اسے ساتھ لے جاتا اور دن بھر اس سے کھیلتا رہتا تھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے ابو ہریرہ کہنا شروع کر دیا۔ (3) ہریرہ عربی زبان میں چھوڑی بلی کو کہتے ہیں) ان ہی کا دوسرا قول یہ ذکر کیا جاتا ہے۔ کہ ایک دن میں بلی لئے ہوئے تھا رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر مجھے ابو ہریرہ کے لفظ سے خطاب فرما دیا میں ابو ہریرہ ہی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ (4) فضائل ان کا تعلق قبیلہ دوس سے تھا۔ اس قبیلہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تھی۔ اللهم اهد دوسا وائت بهم (5) الہی قبیلہ دوس کے لوگوں کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس پہنچا دے۔ حضرت ابو ہریرہؓ تیس ۳۰ سال کی عمر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ اس وقت خیبر تشریف لے گئے تھے۔ ابو ہریرہؓ بھی وہیں پہنچے۔ یہ واقعہ (فتح خیبر) ۷؁ھ کا ہے۔ اس وقت سے آپ ﷺ کی وفات تک سفر و حضر میں ہمیشہ آپ کی ساتھ رہے۔ باہر سے آنے والے صحابہ کرام جو طلب علم کے لئے آپ کی خدمت میں رہتے تھے اور ان کا گھر بار کچھ نہ ہوتا تھا ان کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مسجد کے قریب ہی ایک چھپر ڈلوا دیا تھا۔ یہ حضرات اسی میں رہتے اور طالب علمی کرتے تھی۔ یہ چھپر ان کا دار الاقامہ تھا۔ مسجد نبوی درس گاہ اور رسول اللہ ﷺ ان کے معلم تھے اہل مدینہ ان طلباءِ کرام کا تکفل کرتے تھے۔ کسی سے سوال کرنے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔ خواہ کچھ بھی گزر جائے اور کیا کیا نہ گزرتا تھا۔ بھوک اور فاقہ کی وجہ سے یہ لوگ نماز میں کھڑے ہونے سے گر جاتے تھے۔ آپ نماز سے فارغ ہو کر فرماتے۔ تم لوگوں کو اگر معلوم ہو جائے کہ تمہارے لئے ان فاقوں کے بدلہ اللہ کے یہاں کیا کیا اجر و ثواب ہے تو تم خواہش کرو کہ ان فاقوں میں مزید اضافہ ہو۔ (1) حضرت ابو ہریرہؓ ان فاقہ مستیوں میں نہایت ممتاز اور نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کی ان فاقہ مستیوں کا بیان خود ان کی زبانی سنئے۔ فرماتے ہیں کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ میں بھوک کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے منبر شریف فاور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے درمیان بےہوش ہو کر گر جاتا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی یا بےہوشی کا دورہ ہو گیا ہے جس کے علاج کے لئے وہ میری گردن اپنے پاؤں سے دباتے تھے۔ حالانکہ مجھے مرگی یا بےہوشی کا دور ہ نہیں ہوتا تھا۔ میری یہ حالت تو بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ (2) کبھی بھوک اور فاقہ کی تکلیف ناقابل برداشت ہو جاتی تو صحابہ کرام سے کسی آیت کا مطلب معلوم کرنے لگتے اور مقصد یہ ہوتا کہ وہ مخاطب صحابی ان کی ھالت زار دیکھ لیں اور کچھ کھلا دیں۔ کبھی کوئی صحابی ان کی حالت زار کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اپنے ساتھ لے جا کر کچھ کھلا دیتے ورنہ آیت کا مطلب بتا کر چلے جاتے۔ (3) ایسے متعدد واقعات حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ انہوں نے علم دین کے لیے اتنی قربانیاں دی ہیں جس کی مثال مشکل ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا بھی خوب ہے، وہ سب سے زیادہ احادیث نقل کرنے والے صحابی ہیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۵۳۷۴ ہے۔ (4) بعض صحابہ و تابعین کو ان کی روایات کی کثرت پر کبھی اشکال بھی ہوتا تھا کہ ابو ہریرہؓ ۷ھ میں ایمان لانے والے صحابی ہیں اور سب سے کثرت سے آپ ﷺ کی احادیث نقل کرتے ہیں۔ یہ اشکال جب ابو ہریرہؓ کے علم میں آتا تو جواب دیتے «أَنَّ النَّاسَ، كَانُوا يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَإِنِّي كُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِي حَتَّى لاَ آكُلُ الخَمِيرَ وَلاَ أَلْبَسُ الحَبِيرَ، وَلاَ يَخْدُمُنِي فُلاَنٌ وَلاَ فُلاَنَةُ، وَكُنْتُ أُلْصِقُ بَطْنِي بِالحَصْبَاءِ مِنَ الجُوعِ» (5) لوگوں کو یہ اشکال ہوتا ہے کہ میں بہت کثرت سے روایات نقل کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتا تھا۔ نہ اچھا کھانا کھاتا اور نہ اچھا کپڑا پہنتا تھا، اور نہ کسی سے خدمت لیتا تھا۔ بھوک کی وجہ سے کبھی کبھی مجھے اپے پیٹ کے بل زمین پر لیٹ جانا پڑتا تھا کبھی فرماتے كُنْتُ رَجُلًا مِسْكِينًا، أَخْدُمُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ (6) میں ایک مسکین شخص تھا، رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتا تھا اور در دولت ہی سے کچھ کھانے کو مل جاتا تھا۔ حضرات مہاجرین تجارت میں مشغول رہتے اور انصاری صحابہ اپنے باغات میں، (اس لئے مجھے آپ ﷺ کی احادیث و اقوال محفوظ کر لینے کا زیادہ موقع میسر آیا) وہ فرماتے تھے۔ "مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُبُ"(1) یعنی صحابہ کرامؓ میں کوئی شخص بھی رسول اللہ ﷺ سے اس کثرت سے روایتیں نقل نہیں کرتا، جس کثرت سے میں نقل کرتا ہوں، البتہ عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ مجھ سے زیادہ روایات نقل کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ لکھتے ہیں اور میں نہیں لکھتا ہون، حضرت ابو ہریرہؓ تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے متعلق ان کے لکھ لینے کی وجہ سے یہی سمجھتے تھے کہ ان کی احادیث کی تعداد میری احادیث کے مقابلہ میں زیادہ ہوں گی۔ لیکن کتب احادیث میں تو حضرت ابو ہریرہؓ کی روایات ہی زیادہ ہیں اور یہ متفق علیہ ہے کہ کوئی بھی صحابی ان سے زیادہ روایات نقل کرنے والے نہیں ہیں۔ "وقد اجمع اهل الحديث على انه اكثر الصحابة حدىثا " (2) ان کی روایات کے کثیر ہونے کی ایک وجہ حضرت ابی بن کعبؓ یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ رسول اللہ ﷺ سے ایسے سوالات کر لیا کرتے تھے جن کی ہمت ہم میں سے کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ (3) وہ علم کے اتنے حریص تھے کہ دنیا کی ساری نعمتیں ان کے نزدیک علم کے سامنے ہیچ تھیں۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ "الا تسألنى عن هذه الغنائم" ابو ہریرہ! غنیمت کے ان مالوں میں سے کچھ مانگو حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اسئلك ان تعلمنى مما علمك الله۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ مجھے تو وہ علم عنایت فرما دیجئے جو اللہ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے۔ (4) وہ علم کے بڑے حریص تھے اور رسول اللہ ﷺ سے صرف علم و دین ہی کا سوال کرتے تھے، ان کی اس صفت کی شہادت رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک نے بھی دی ہے۔ خود کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ اے اللہ کے رسول آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ کس خوش نصیب کو فائدہ پہنچے گا۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا «لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ» (5) ابو ہریرہ میرا یہی خیال تھا کہ یہ سوال سب سے پہلے تم ہی کرو گے اس لئے کہ میں تمہاری حرص حدیث سے واقف ہوں۔ اس کے بعد اصل سوال کا جواب ارشاد فرمایا شفاعت سے سب سے زیادہ فائدہ اخلاص قلب کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہنے والے کو ہو گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کو رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں سے بھی حصہ وافر ملا تھا ان کے حافظہ کے لئے آپ ﷺ نے بڑے اہتمام سے دعائیں فرمائیں (1) اور ان کے حق میں یہ دعائیں مقبول بھی ہوئیں، وہ جو بات آپ ﷺ سے سن لیتے کبھی نہ بھولتے۔ اسی لئے ان کو محدثین نے احفظ اصحاب محمد ﷺ اور احفظ من روی الحدیث فی عصرہ کہا ہے۔ (2) حضرت ابو ہریرہؓ نے اپنے قوی الحفظ ہونے کی یہ وجہ بتلائی ہے کہ میں نے ایک بار آپ ﷺ سے عرض کیا۔ میں آپ ﷺ سے بہت سی باتیں سنتا ہوں لیکن یاد نہیں رہتیں، آپ ﷺ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤمیں نے چادر پھیلا دی اس پر آپ نے کچھ پڑھا پھر آپ کی حکم سے میں نے اس چادر کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس دن کے بعد سے میں کبھی آپ کی کوئی بات نہیں بھولا۔ (3) صحابہ کرام حضرت ابو ہریرہؓ کے حافظہ اور ہمت وقت خدمت اقدس میں حاضری اور کثرت روایت کے معترف تھے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ سے کسی نے کہا کہ کیا ابو ہریرہؓ نے واقعی آپ لوگوں سے زیادہ احادیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں یا یونہی روایات نقل کرتے ہیں۔ حضرت طلحہؓ نے جواب دیا انہوں نے واقعی وہ روایات آپ ﷺ سے سنی ہیں جو ہم لوگوں نے نہیں سنی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین شخص تھے، مال و دولت ان کے پاس نہ تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان تھے۔ آپ ہی کے ساتھ کھاتے پیتے اور ہمہ وقت آپ کے ساتھ رہتے تھی اور ہم لوگ اہل و عیال اور مال و متاع والے تھے۔ ہماری حاضری صرف صبح و شام ہوتی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو روایات وہ بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ ہی سے سنی ہیں اور ہم اپنے مشاغل کی وجہ سے ان سے محروم رہ گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی ایک موقع پر کہا، ابو ہریرہؓ ہم لوگوں کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں زیادہ رہتے تھے اور آپ کی احادیث زیادہ محفوظ رکھتے تھے۔ (4) حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ان میں برکت کی دعا فرما دیجئے۔ آپ نے ان کو لے کر برکت کی دعا فرما دی اور فرمایا ان کو اپنے تھیلے میں رکھ لو، جب بھی ضرورت ہو اس میں سے نکالتے رہنا۔ فرماتے ہیں وہ تھیلا میرے پاس برسوں رہا اور میں اسی سے کھاتا رہا اور اس مین سے بہت سی اللہ کے راستہ میں خرچ بھی کیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی موقع پر کہیں گم ہو گیا۔ (5) ان کے اسلام لانے کے بعد بھی ان کی والدہ ایمان کی دولت سے محروم تھیں انہیں اس کا بڑا صدمہ تھا۔ والدہ کی بہت منت سماجت کرتے لیکن وہ کسی طرح آمادہ نہ ہوتیں، بلکہ انہیں ہی سخت و سست کہتی تھیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر والدہ نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں بھی گستاخی کر دی۔ سب کچھ قابل برداشت تھا لیکن یہ تو کسی طرح بھی برداشت نہ ہو سکتا تھا، روتے ہوئے آپ ﷺ ی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی والدہ کو دین کی دعوت دیتا رہتا ہوں وہ انکار کرتی رہتی ہیں لیکن آج تو غضب ہو گیا۔ میں نے جب ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کی شان میں بھی گستاخی کر دی۔ اے اللہ کے رسول آپ میری والدہ کی ہدایت کی دعا فرما دیں۔ آپ نے فوراً ہی دعا فرما دی۔ اللهم اهد ام ابى هريرة۔ الہی ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے دیجئے۔ فرماتے ہیں کہ آپ کی دعا سن کر میں خوش خوش گھر کی طرف چل دیا، گھر پہنچا تو دروازہ بند پایا، اور اندر سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ میری والدہ نے آہٹ پا کر مجھے باہر ہی رہنے کو کہا، انہوں نے جلد جلد غسل کیا اور کپڑے پہن کر دروازہ کھولا، پھر کہا اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد عبده ورسوله۔ میں خوشی سے رونے لگا اور آ کر رسول اللہ ﷺ کو یہ خوشخبری سنائی۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کچھ اچھے کلمات ارشاد فرمائے۔ اس کے بعد میں نے ایک اور دعا کی درخواست کی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، اللہ سے دعا کر دیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت اپنے نیک بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور اپنے نیک بندوں کو ہمارا بھی محبوب بنا دے۔ آپ ﷺ نے یہ دعا بھی فرما دی۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ ہر بندہ مومن مجھ سے محبت کرتا ہے۔ (1) ان کی والدہ کا نام حضرت امیمہ ؓ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد اکابر صحابہ کرامؓ سے بھی احادیث لی ہیں اور ان سے احادیث کی روایت کرنے والوں میں صحابہ و تابعین کی بہت بڑی تعداد ہے۔ امام بخاریؒ نے ان کے تلامذہ کی تعداد آٹھ سو ۸۰۰ بتلائی ہے۔ (2)وہ مسجد نبوی ہی میں حدیث کا درس دیتے تھے۔ (3) علمی اور تدریسی مشاغل کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ بھی بہت کرتے تھے۔ ابو عثمان النہدی تابعی کہتے ہیں کہ میں ایک بار سات دن تک ابو ہریرہؓ کے یہاں مہمان رہا۔ مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے، ان کی اہلیہ اور خادم نے رات کے تین حصہ کر لئے ہیں باری باری ایک ایک شخص اپنے حصہ شب میں جاگتا ہے اور یہ ان لوگوں کا مستقل معمول ہے۔(4) حضرت عمرؓ نے انہیں بحرین کا عمال بنا دیا تھا۔ لیکن جلد ہی انہوں نے اس خدمت سے سبکدوشی حاصل کر لی۔ حضرت عمرؓ نے ان کو دوبارہ عامل بنانا چاہا انہوں نے انکار کر دیا حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم عامل بننے سے انکار کرتے ہو، حالانکہ تم سے بہتر شخص نے ھاکم یا عامل بننے کی خواہش کی تھی۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا وہ کون شخص تھے، حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ حضرت یوسف تو نبی ابن نبی تھے اور میں تو ابو ہریرہؓ ابن امیمہ ہوں۔ (5) پھر مروان نے اپنے زمانہ میں کبھی کبھی مدینہ مین اپنا نائب بھی مقرر کیا ہے۔ مرض وفات میں جب وقت قریب معلوم ہونے لگا تو رونے لگے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا من قلۃ الزاد وشدۃ المفازۃ، سفر سخت ہے اور زاد راہ کم ہے یہ خوف آخرت تھا ورنہ اگر ان کے پاس زاد راہ کم تھا تو پھر کس کے پاس زیادہ ہو گا۔ خلیفہ مروان عیادت کو آئے اور دعا کی شفاك الله۔ اللہ آپ کو شفا دے۔ ابو ہریرہؓ نےبھی فوراً دعا کی اللهم احب لقاءك فاحبب لقائى۔ اے اللہ میں آپ کی ملاقات کا مشتاق ہوں۔ آپ بھی میری ملاقات کو پسند فرما لیجئے۔ (1) تھوڑی ہی دیر کے بعد اللہ و رسول ﷺ کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینے آنے والا رسول اللہ ﷺ کا یہ مہمان اپنے مالک حقیقی کی رحمت کے آغوش میں پہنچ گیا۔ ؓ وارضاہ۔ سنہ وفات میں بھی اختلاف ہے ۵۷، ۵۸، ۵۹ سنین وفات ذکر کئے جاتے ہیں ۵۷ھ راجح ہے۔ (2) وفات کے وقت عمر ۷۵ سال تھی ولید بن عقبہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔
Top