معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2107
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ، کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ولادت ۳ نبوی یعنی بعثت کے تیسرے سال ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت منطعونؓ ہے۔ یہ مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بہن ہیں۔ ام المومنین حضرت حفصہؓ بھی انہیں کی صاحبزادی ہیں۔(3) بچپن ہی میں اپنے والدین کے ساتھ حضرت عبداللہ بھی ایمان لے آئے تھے۔ ہجرت بھی اپنے والد حضرت عمرؓ کے ساتھ کی ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابن عمرؓ اپنے والد سے پہلے مدینہ ہجرت کر کے آ گئے تھے۔ (4) ہجرت کے وقت ان کی عمر صرف دس سال تھی۔ غزوہ بدر کے وقت خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا کر عرض کیا میں غزوہ میں شریک ہونا چاہتا ہوں، لیکن آپ ﷺ نے کم عمری کی وجہ سے واپس کر دیا۔ غزوہ احد میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پھر غزوہ خندق میں جب ان کی عمر ۱۵ سال کی ہوئی تو آپ نے ان کی درخواست قبول فرما کر غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ (5) اس کے بعد تو غزوات میں شرکت ہی رہی حدیبیہ میں بیعت رضوان میں بھی شریک رہے ہیں۔ (6) فضائل حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحای، قریبی عزیز اور حضرت عمر فاروقؓ کے سب سے زیادہ باکمال صاحبزادے ہیں۔ جن کے صلاح و تقویٰ کی شہادت خود زبان نبوت نے دی ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، میں نے ایک رات خواب دیکھا کہ دو فرشتے پکڑ کر مجھے آگ کے ایک کنویں کے پاس لے گئے میں اس کو دیکھ کر ڈر گیا اور اعوذ باللہ من النار اعوذ باللہ من النار پڑھنے لگا۔ ایک اور فرشتے نے مجھ سے کہا ڈرو نہیں۔ میں نے یہ خواب اپنی بہن حضرت حفصہؓ سے ذکر کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نعم الرجل عبداللہ لو کان یصلی من اللیل، عبداللہ بہترین شخص ہیں کیا ہی اچھا ہو تہجد بھی پڑھنے لگیں۔ اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ان کی صاحبزادہ سالمؓ نقل کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ ارشاد نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں فكان عبدالله بعد ذالك لا ينام من الليل الا قليلا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد نعم الرجل عبدالله لو كان يصلى من الليل۔ کو سننے کے بعد میرے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓ رات کو بس برائے نام ہی سوتے تھے۔ (1) ان کے بیٹے حضرت سالمؓ کے علاوہ ان کی شب بیداری کا تذکرہ ان کے آزاد کردہ غلام حضرت نافعؓ بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ابن عمرؓ ساری رات نماز میں مشغول رہتے۔ جب صبح صادق کا وقت قریب آ جاتا تو استغفار شروع کر دیتے اور صبح تک کرتے رہتے۔ خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید پڑھتے جاتے اور روتے جاتے، ایک بار آیت کریمہ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّـهِ پڑھ کر روتے روتے بےحال ہو گئے۔ (2)جامع ترمذی کی روایت میں ان کے ایک خواب کا ذکر ہے۔ فرماتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں اور میرے ہاتھ میں ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے میں اس کو جنت کی جس جانب اشارہ کرتا ہوں وہ مجھے اڑا کر وہیں لے جاتا ہے، میں نے یہ خواب اپنی بہن حضرت حفصہؓ سے ذکر کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، آپ نے اس موقع پر بھی وہی تعبیر بیان فرمائی کہ ان عبدالله رجل صالح (3) عبداللہ بن عمرؓ نیک و صالح شخص ہیں۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ان کا کندھا پکڑ کر فرمایا كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ القُبُورِ (4) یعنی دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم پردیسی ہو یا مسافر اور اپنے کو اہل قبور یعنی مردوں میں شمار کرو۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق پوری زندگی زاہدانہ گزار دی۔ عمر بھر دنیا سے کوئی تعلق نہ رکھا کیسے کیسے مواقع حصول دنیا کے آئے۔ لیکن انہوں نے اس کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھا حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد بعض صحابہ کرامؓ نے ان کو آگے بڑھ کر بیعت لینے پر آمادہ کرنا چاہا مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے مابین جب شدید اختلاف ہوا تب بھی بعض صحابہؓ نے ان سے پیشکش کی کہ آپ کے نام پر تقریباً سب ہی متفق ہو جائیں گے لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ ارشاد کے علاوہ ان کے سامنے اپنے محترم والد حضرت عمرؓ کا فرمان بھی تھا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے آئندہ ہونے والے خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک مجلس شوریٰ متعین کر دی تھی جس کے ارکان حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ تھے۔ ان حضرات کو یہ ہدایت تھی کہ آپ لوگ انہیں مذکورہ چھ حضرات میں سے خلیفہ کا انتخاب کر لیں۔ مشورہ میں میرے بیٹے عبداللہ کو بھی شامل کر لیں لیکن خلافت کے لئے ان کا انتخاب نہ کریں۔ (1) سادگی کا یہ حال تھا کہ حضرت سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لئے ان کے یہاں حاضر ہوا مجھے اندر گھر میں ہی بلا لیا، میں نے دیکھا کہ وہ اس ٹاٹ یا موٹے کپڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جو ان کے اونٹ پر کجاوہ کے نیچے ڈالا جاتا ہے۔ (2) حضرت عثمانؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ان کو قاضی بنانا چاہا، لیکن ان کے پیہم اصرار کے باوجود کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ (3) اتباع سنت کا غیر معمولی اہتمام کرتے، اس معاملہ میں کسی کی رعایت نہ کرتے۔ ایک بار ایک شخص نے آخر ان سے حج تمتع کے بارے میں دریافت کیا کہ تمتع کرنا صحیح ہے یا نہیں آپ نے فرمایا بالکل صحیح ہے، اس شخص نے کہا کہ آپ کے والد صاحب تو تمتع کرنے سے منع کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کہا یہ بتلاؤ کہ اگر میرے والد صاحب منع کرتے ہوں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے کیا ہو تو کیا میرے والد صاحب کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ ﷺ کی۔ اس شخص نے کہا کہ اتباع تو رسول اللہ ﷺ ہی کی کی جائے گی۔ اس کے بعد فرمایا تو سن لو کہ آپ نے تو حج تمتع ہی کیا ہے۔ (4) ایک بار آپ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ايذنوا للنساء بالليل الى المساجد ذكر فرما رہے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ عورتوں کو رات میں نماز جماعت کے لئے مسجد جانے دیا کرو۔ ان کے بیٹے (جن کا نام واقد یا بلال ذکر کیا جاتا ہے) نے کہا ہم عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت نہیں دیں گے وہ اس آمدورفت کو فتنہ کا ذریعہ بنا لیں گی۔ ابن عمرؓ کو اپنے بیٹے کی اس بات پر بہت غصہ آیا اور بہت سخت و سست کہا۔ پھر فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ ہم اجازت نہیں دیں گے۔ (5) سفر میں بھی اتباع سنت کا بہت لحاظ کرتے۔ جن راستوں سے آپ ﷺ کاگذر ہوا ہو وہ حتی الوسع انہیں راستوں سے گذرتے، اثنائے سفر جہاں جہاں آپ نے قیام فرمایا ہو وہیں قیام فرماتے۔ جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھی ہو وہیں نماز پڑھتے۔ حتی کہ سایہ کے لئے جس درخت کا انتخاب آپ ﷺ نے کیا ہو، ابن عمرؓ بھی اسی درخت کے سایہ میں بیٹھتے۔ ہر سال حج کرتے اور عرفہ میں آپ ہی کے موقف میں قیام فرماتے تھے۔ (1) راہ خدا میں بکثرت مال و دولت خرچ کرتے، خصوصاً اپنی پسندیدہ چیزوں کو تو ضرور ہی اللہ کے لئے خرچ کر دیتے، جو غلام یا باندی کسی بھی حیثیت سے اچھا ہوتا اسے آزاد کر دینے میں تامل ہی نہ ہوتا بلکہ قصداً اسی کو آزاد کرتے۔ مشہور و جلیل القدر تابعیؒ حضرت نافع ان کے غلام تھے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے ان سے نافع کو خریدنا چاہا اور ایک ہزار دینار قیمت دینے کی پیشکش کی۔ لیکن ابن عمرؓ نے اپنا غلام نافع کو فروخت نہیں کیا اور لوجہ اللہ آزاد کر دیا۔ یہی نافع حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے خاص شاگرد اور ان کی کتنی ہی روایت کردہ احادیث کے راوی ہیں۔ امام مالک ان کی سند کو سلسلۃ الذہب یعنی سونے کی زنجیر فرماتے ہین حضرت نافع کے علاوہ بھی بہت سے غلام اور باندیاں انہوں نے آزاد کیں جن میں بعض کو بڑا علمی مقام نصیب ہوا۔ ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ طیبہ سے باہر کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں کسی جگہ قیام کیا اور کھانے کے لئے دسترخوان بچھایا ہی تھا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لے کر قریب سے گذرا اور ان حضرات کو سلام کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی۔ اس نے کھانے سے معذرت کر دی اور کہا کہ میرا روزہ ہے آپ نے فرمایا ایسے سخت گرم اور لو گے دنوں میں تم نفلی روزے رکھتے ہو، اس نے کہا کہ میں ان ایام کو غنیمت سمجھتا ہوں۔ حضرت ابن عمرؓ اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور اس کے تقوے کا امتحان لینے کے لئے اس سے کہا میاں ایک بکری ہمارے ہاتھ فروخت کر دو، اس کی قیمت بھی ہم تمہیں دیں گے اور اس کے گوشت میں سے بھی تمہارے افطار کے لئے کچھ تمہیں دے دیں گے۔ اس نے جواب دیا یہ بکریاں میری نہیں ہیں، میرے مالک کی ہیں، میں کیسے بکری فروخت کر سکتا ہوں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا ایک بکری کا مالک کو کیا پتہ چلے گا۔ اس بندہ خدا نے جواب دیا۔ فاين الله لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ وہ تو حاضر و موجود ہے، وہ کہاں چلا گیا ہے۔ ابن عمرؓ اس جواب سے بہت متاثر ہوئے اور بہت دیر تک اس کے جواب فاين الله، فاين الله کی تکرار کرتے رہے۔ جب مدینہ طیبہ واپس آئے تو اس کے مالک سے وہ غلام بھی خریدا اور بکریاں بھی۔ غلام کو آزاد کر دیا اور بکریاں اسی کو ہبہ کر دیں۔(2) طبقات ابن سعد میں بہت سے واقعات ان کی ایثار اور انفاق فی سبیل اللہ کے مذکور ہیں۔ (3) صحابہ و تابعین بھی ان کے فضل و کمال کے بہت معترف تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو عمر و مقام میں ان سے بڑے ہیں فرماتے ہیں ان املك شباب قريش لنفسه عن الدنيا عبدالله بن عمر (4) قریش کے نوجوانوں میں دنیا کے معاملہ میں اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والے عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓ دنیا کی طرف بالکل مائل نہ تھے۔ حضرت سدی تابعیؒ کہتے ہیں، میں نے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دیکھا سب کی رائے یہ تھی کہ عبداللہ بن عمرؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی اسی حال میں رہے جس حال میں آپ ان کو چھوڑ کر گئے تھے۔ (1) ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ کا جب انتقال ہوا ہے تو وہ فضل و کمال میں اپنے والد حضرت عمرؓ کی طرح تھے۔ اس کے بعد ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ تو ایسے زمانہ میں تھے جس میں ان جیسے دوسرے حضرات بھی تھے۔ لیکن ابن عمرؓ اپنے زمانہ میں بس آپ ہی اپنی مثال تھے۔ (2) صحابہ و تابعین کے ایسے ہی اقوال ان کی سیرت نگاروں نے بکثرت نقل کئے ہیں۔ وہ ان چند صحابہ کرامؓ میں ہیں جن کو محدثین نے مکثرین فی الروایہ کے طبقہ میں شمار کیا ہے۔ بلکہ حضرت ابو ہریرہؓ کے بعد وہ سب سے زیادہ احادیث نقل کرنے والے صحابی ہیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۱۶۳۰ ہے۔ اگرچہ وہ روایت کرنے اور آپ کی جانب کسی بات کے انتساب کرنے میں از خد احتیاط کرتے تھے۔ جو بات معلوم نہ ہوتی بلاتکلف لا ادری یعنی میں نہیں جانتا کہہ دیتے۔ (3) رسول اللہ ﷺ کے بعد تقریباً ساٹھ سال زندہ رہے۔ غزوات میں شرکت کے علاوہ زندگی کا اکثر حصہ مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ ہی میں گذرا۔ لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں آتے اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا علم حاصل کرتے۔ حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد بڑے مشکل حالات میں بھی وہ راہ اعتدال پر ہی گامزن رہے۔ وفات مکہ معظمہ ہی میں ۷۳ یا ۷۴ھ میں تقریباً ۸۷ سال کی عمر میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ سیدنا بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن سیدنا بلالؓ حبشی النسل تھے باپ کا نام رباح اور ماں کا نام حمامہ ذکر کیا جاتا ہے۔ کسی طرح مشرکین مکہ کے غلام ہو گئے تھے اسلام کے بالکل ابتدائی دور ہی میں اللہ نے ایمان کی دولت سے سرفراز فرما دیا۔ مکہ کے ایک بت پرست کے غلام کی یہ جسارت کہ وہ اس کے بتوں اور معبودوں کو بالکل قرار دے کر الہ واحد کی ربوبیت کا قائل ہو جائے اس کے مشرک مالک اور دیگر مشرکین مکہ کے نزدیک کسی طرح بھی قابل برداشت اور لائق معافی نہ تھی۔ ان لوگوں نے اسلام لانے کے جرم کی پاداش میں ہر طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ اذیتوں اور ایذا رسانیوں کے ساری حدیث ختم کر دیں۔ کبھی ان کو سخت گرم دوپہر میں لوہے کی زرع (قمیص) پہلا کر دھوپ میں مکہ کی پتھریلی زمین پر ڈال دیا جاتا، کبھی ننگے بدن دھوپ میں جلتی ہوئی چٹانوں پر لٹا کر ان کے سینے پر بھی پتھر کی ایک بڑی چٹان رکھ دی جاتی۔ کبھی ان کا مالک ان کو زمین میں پیٹ کے بل لٹا دیتا اور خود ان کی کمر پر کھڑا ہو جاتا۔ مکہ کے اوباشوں کو جمع کر کے لاٹھیوں، ڈنڈوں اور کوڑوں سے ان کی پٹائی کرائی جاتی، اور مقصود و مطالبہ صرف ایک یعنی اسلام کو چھوڑ کر پھر ان کے شر ک و کفر والے دین کو اختیار کر لیں۔ لیکن ان کی زبان سے ہر ظلم و ستم کے جواب میں ربی اللہ، احد احد ہی نکلتا۔ ان کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن ایسے ہی کسی موقع پر زبان مبارک سے نکلا۔ لو کان عندنا شئی ابتعنا بلالا۔ کاش ہمارے پاس کچھ مال ہوتا تو بلال کو خرید لیتے۔ حضرت ابو بکرؓ کو آپ ﷺ کی خواہش کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت بلالؓ کو خرید کر آزاسد کر دیا۔ اب تو مشرک کی غلامی سے نجات ملی گئی تھی، ہمہ وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہنے لگے اور پوری زندگی آپ کی غلامی میں گذار دی۔ (1) فضائل انہوں نے دین کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں اور ایمان کے لئے جو اذیتیں، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کی ہیں وہ کم ہی صحابہ کرام کے حصہ میں آئی ہیں۔ اسی لئے ان کو رتبہ بھی بڑا ملا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دن فرمایا ابو بكر سيدنا واعتق سيدنا يعنى بلالا۔ ابو بکرؓ ہمارے آقا و سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے آقا و سردار کو آزاد کیا ہے۔ (2) وہ ان صحابہ کرامؓ میں ہیں جن کے جنتی ہونے کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلاَلٍ: «عِنْدَ صَلاَةِ الفَجْرِ يَا بِلاَلُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الإِسْلاَمِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الجَنَّةِ» قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي: أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا، فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ» (3) حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن فجر کی نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے دریافت فرمایا۔ بلال! بتلاؤ تمہارا کون سا دینی عمل ہے جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ قابل بھروسہ اور لائق اعتماد ہے۔ اس لئے کہ میں نے جنت میں تمہارے جوتوں کی آواز اپنے آگے سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میرے اعمال میں میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل بھروسہ عمل یہ ہے کہ میں دن رات میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو حسب توفیق کچھ نفل نماز ضرور پڑھ لیتا ہوں۔ یہ الفاظ تو صحیح بخاری کی روایت کے تھے تقریباً ایسے ہی الفاظ صحیح مسلم کی روایت کے بھی ہیں جامع ترمذی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا يَا بِلاَلُ لِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الجَنَّةَ قَطُّ إِلاَّ سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، دَخَلْتُ البَارِحَةَ الجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي. بلال تم کس عمل کی وجہ سے جنت میں مجھ سے سابق ہو جاتے ہو۔ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا۔ تمہارے جوتوں کی آواز اپنے آگے سنی۔ رات بھی میں جنت میں گیا تھا تب بھی تمہارے جوتوں کی آواز میں نے سنی تھی۔ ترمذی کی اس روایت میں حضرت بلالؓ کے جواب کے الفاظ اس طرح ہیں: يَا رَسُولَ اللهِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلاَّ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلاَّ تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِهِمَا (1) یعنی جب بھی اذان دیتا ہوں دو رکعت نفل نماز پڑھتا ہوں (جو بظاہر تحیۃ المسجد ہو گی) اور جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً وضو کر لیتا ہوں اور اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے دو رکعتیں پابندی سے پڑھتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہی دونوں عمل اس فضیلت کے باعث ہیں۔ جامع ترمذی کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے بار بار حضرت بلالؓ کو جنت میں اپنے آگے دیکھا یا ان کے جوتوں کی آواز سنی۔ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذیؒ فرماتے ہیں یہ واقعہ یا واقعات خواب کے تھے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے اور انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ امام ترمذیؒ نے آپ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جنت بلال کی مشتاق و منتظر ہے۔ (2) وہ باعتبار ہجرت بھی سابقین اولین ہی میں ہیں ان سے پہلے صرف حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت ابن ام مکتومؓ نے ہجرت کی ہے۔ (3) پھر جب مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد نماز باجماعت پڑھی جانے لگی اور اذان کی مشروعیت ہوئی تو روز اول سے مسجد نبوی ﷺ کے مؤذن ہونے کی سعادت بھی انہیں کو ملی (4) اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں وہ مسلسل اذان دیتے رہے لیکن آپ کی وفات کے بعد وہ مدینہ طیبہ میں نہ رہ سکے حلیفہ رسول ﷺ حضرت ابو بکرؓ سے غزوات میں شرکت کے لئے جانے کی اجازت چاہی۔ حضرت ابو بکرؓ نے باصرار اپنے پاس مدینہ طیبہ روکنا چاہا تو انہوں نے کہا۔ اعتقنى لله او لنفسك۔ آپ نے مجھے اللہ کی خاطر آزاد کیا تھا یا اپنے لئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا۔ اللہ کے لئے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کہا تو پھر مجھے غزوہ میں جانے دیجئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے اجازت دے دی اور وہ غزوات میں شرکت کے لئے ملک شام چلے گئے۔ پھر مدینہ واپس نہ آ سکے، ملک شام ہی میں وفات پائی۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے روکنے سے تو رک گئے تھے لیکن ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کے اصرار کے باوجود بھی نہ رکے اور غزوات میں شرکت کے لئے مدینہ سے نکل گئے۔ حضرت عمرؓ جب ملک شام گئے ہیں تو حضرت بلالؓ سے ملاقات کی اور اذان دینے کی فرمائش کی، انہوں نے اذان دی تو کہرام مچ گیا۔ صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ ﷺ کا زمانہ یاد آ گیا۔ (5) وہ ان چند صحابہ کرامؓ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نےاپنا خاص رفیق اور انتہائی مقرب صحابی قرار دیا ہے۔ اور جن کا تذکرہ اپنے اہل بیت کے ساتھ کیا ہے۔ (6) صحابہ کرام ان کا بڑا اکرام کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا مقولہ کہ ابو بكر سيدنا واعتق سيدنا۔ یعنی بلالاً تو آپ نے پڑھ ہی لیا ہے۔ اب ان کے صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا قول بھی پڑھئے۔ ہوا یہ کہ ایک شاعر نے عبداللہ بن عمرؓ کے ایک بیٹے جن کا نام بلال تھا کہ شان میں کچھ اشعار کہے۔ جن میں ایک مصرعہ۔ وبلال عبدالله خير بلال تھا یعنی ابن عمر کے بیٹے بلال، بلال نام کے لوگوں میں سب سے بہترین بلال ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے فوراً کہا کہ كذبت بل بلال رسول الله خير بلال۔ تم نے غلط کہا، بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کے بلال، بلال نام کے لوگوں میں سب سے بہترین بلال ہیں۔ ابن عمرؓ انہیں بلال نام کے لوگوں میں سب سے افضل بھی کہہ رہے ہیں اور ان کو بلال رسول اللہ، یعنی اللہ کے رسول ﷺ کے بلال بھی فرما رہے ہیں۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیبؓ ان کے بارے میں کہتے ہیں كان شحيحا على دينه انہیں اپنا دین ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ تکلیفیں برداشت تھیں، دین چھوڑنا برداشت نہ تھا۔ وفات رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ملک شام کی طرف چلے گئے تھے۔ ۲۰؁ھ یا ۲۱؁ھ میں دمشق میں وفات پائی۔ (1) جب وفات کا وقت آیا تو بیوی رونے اور واویلا کرنے لگیں۔ انہوں نے بیوی کے واویلا کے جواب میں وافرحاہ کہا، یعنی کیا ہی خوشی کا موقع ہے اور پھر اس کے بعد کہا: غدا نلقى الا حبةمحمدا وحزبه کل کو اپنے محبوبوں یعنی محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہو گی۔ ؓ وارضاہ۔
Top