معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2109
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت ابو موسی اشعری ؓ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا نام عبداللہ بن قیس ہے۔ (4) لیکن اپنی کنیت ابو موسی کے ساتھ مشہور ہیں اشعر علاقہ حجاز کے ایک پہاڑ کا نام ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ مدینہ سے ملک شام جاتے ہوئے راستہ میں یہ پہاڑ پڑتا ہے اسی کے قریب قبیلے اشعر کا مسکن تھا اس قبیلہ کے کچھ لوگ یمن چلے آئے تھے انھیں میں حضرت ابوموسیٰ اشعری اور ان کے خاندان کے لوگ بھی تھے۔ یہ لوگ یمن ہی میں ایمان لے آئے تھے۔ (5) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب ان حضرات کو رسول اللہ ﷺ کے ہجرت مدینہ کا علم ہوا تو یمن سے سمندر کے راستہ پچاس سے زائد لوگوں کا قافلہ مدینہ طیبہ کے لیے نکلا۔ ان کی کشتی کو ہواؤں نے مدینہ کے قریب کسی ساحل پر پہنچانے کے بجائے ملک حبشہ پہنچادیا وہاں ان کی ملاقات حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی حضرت جعفرؓ نے ان لوگوں کو وہیں اپنے پاس روک لیا پھر سب لوگ یعنی جو پہلے حبشہ ہجرت کر گئے اور وہیں مقیم تھے اور یہ نوواردین یعنی حضرت ابوموسیٰ اشعری اور ان کے ساتھی ایک ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے حبشہ سے روانہ ہوئے جب یہ لوگ مدینہ طیبہ پہنچے ہیں اس وقت آپ غزوہ خیبر کے لئے تشریف لے جا چکے تھے یہ سب حضرات بھی خیبر ہی پہنچ گئے ان کے پہنچنے سے پہلے ہی خیبر فتح ہوچکا تھا آپ ﷺ نے خیبر کے مال غنیمت میں حبشہ سے آنے والوں کو بھی شریک فرما لیا۔ (6) حضرت ابو موسی اور ان کے ساتھی چونکہ حبشہ بھی پہنچ گئے تھے اور وہیں سے مدینہ طیبہ آئے تھے اس لئے بعض حضرات نے ان کو مہاجرین حبشہ میں شمار کیا ہے صحیح بخاری کی مذکورہ روایت سے بھی اس کی کچھ تائید ہوتی ہے اسلئے کہ روایت کے آخر میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ حبشہ سے آنے والے صحابہ کرامؓ میں حضرت جعفرؓ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ بھی تھیں ان سے حضرت عمرؓ نے یہ کہا کہ ہم لوگ ہجرت کی فضیلت میں تم سے مقدم اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے قریب تر ہیں۔ حضرت اسماء نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور آپ ﷺ سے اس کی شکایت بھی کی آپ ﷺ نے فرمایا عمر اور انکی ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم لوگوں کی دو ہجرتیں ہیں حضرت ابو موسی اور ان کے ساتھی حضرت اسماء سے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کو بار بار سنا کرتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ خود کو بھی اصحاب الہجرتین میں شمار کرتے تھے اس سفر میں ان کے ساتھ ان کے دو بھائی ابوبردہؓ اور ابو رہمؓ بھی تھے ان کا ذکر تو بخاری کی مذکورہ روایت میں بھی ہے۔ تذکرۃ الحفاظ میں بھی مذکور ہے کہ ان کی والدہ طیبہ بنت وہبؓ بھی صحابیہ ہیں(1) بظاہر وہ بھی اسی سفر میں ساتھ آئی ہوگی۔ فضائل رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ اشعر کے لوگوں کی باہمی محبت اور ایثار و قربانی کی بہت تعریف فرمائی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگوں کا مدینہ میں یا سفر میں کھانا کم پڑ جاتا ہے تو سب لوگ اپنا کھانا یکجا جمع کر لیتے اور پھر برابر باہم تقسیم کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا فہم منی وانا منھم وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں(2) یہ پورا خاندان بہت ہی خوش الحان تھا سب لوگ قرآن مجید بہت اچھا پڑھتے تھے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں "إِنِّي لأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الأَشْعَرِيِّينَ بِالْقُرْآنِ، حِينَ يَدْخُلُونَ بِاللَّيْلِ، وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ، وَإِنْ كُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِينَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِ" (3) قبیلہ اشعر کے لوگ جب رات کو اپنے گھروں میں تلاوت قرآن کرتے ہیں تو میں ان کی آواز پہچان لیتا ہوں اور اسی آواز سے ان کے مکانات کو بھی جان جاتا ہوں خواہ میں نے ان کو دن میں ان کے گھروں میں آتے جاتے نہیں دیکھا ہو اس قبیلہ کی تلاوت اور قرات قرآن کی تعریف میں آپ نے فرمایا "اشعرون في الناس كصرة فيها مسك" (4) یعنی قبیلہ اشعر کے لوگوں کی مثال ایک مشق بھری ہوئی تھیلی کی ہے خاص طور پر حضرت ابوموسی کی تلاوت و قرات قرآن کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا "لَقَدْ أُوْتِیَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ" اللہ نے انکو حضرت داؤد علیہ السلام کے خاندان کے لوگوں کی طرح حسن صورت اور خوش الحانی عطا فرمائی ہے (5) رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلاً كَرِيمًا" اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہوں کو بخش دیجئے اور قیامت کے دن (جنت میں) اکرام کے ساتھ داخل فرما دیجئے۔ (6) حضرت عمر فاروقؓ بھی ان کی تلاوت قرآن کی بہت تعریف فرماتے اور کہتے کہ ان کی تلاوت سے اللہ کی یاد اور اس کا شوق پیدا ہوتا ہے ان کا شمار ان صحابہ کرام میں ہوتا ہے جو اہل فتوی سمجھے جاتے ہیں مشہور تابعی حضرت عامر شعبی فرماتے ہیں صحابہ کرام علم کا منتہیٰ ہے ان میں حضرت ابوموسیؓ بھی ہیں امام بخاری اور علی بن مدینی نے بھی ان کا شمار اصحاب القضاء والفتوی صحابہ کرام میں کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تھا حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ خلافت میں بھی وہ یمن ہی میں رہے حضرت عمرؓ نے بصرہ کا حاکم بنایا پھر چار سال تک بصرہ کے گورنر رہے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرا کوئی حاکم ایک سال سے زیادہ کسی جگہ نہیں رہا البتہ ابوموسیؓ چار سال بصرہ میں بحیثیت گورنر رہے۔ اہل بصرہ ان سے بہت خوش تھے حضرت حسن بصری فرماتے ہیں بصرہ میں کوئی حاکم بھی اہل بصرہ کے لئے ان سے بہتر نہیں آیا (1) بصرہ کے قیام کے زمانہ میں بڑی بڑی فتوحات ان کے ذریعہ ہوۓ ہیں اصبہان اور اہواز وغیرہ کے علاقہ انہی کی سرکردگی میں فتح کیے گئے ہیں پھر حضرت عثمانؓ نے آپ کو کوفہ کا گورنر بنایا مسئلہ تحکیم میں حضرت علیؓ کی طرف سے آپ ہی حکم بنائے گئے تھے۔ وفات ذی الحجہ 44ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ (2) ؓ وارضاہ۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ رسول اللہ ﷺ کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا نام خالد بن زید ہے۔ مدینہ طیبہ کے مشہور قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمان لانے میں سابقین اولین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ واقعہ ہجرت سے کافی پہلے مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ جا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے بیعت عقبہ ثانیہ میں شرکت فرمائی اور ایمان لائے انہوں نے اور ان کے ساتھ مدینہ طیبہ کے کچھ صحابہ کرامؓ نے ہر طرح کی ذمہ داری لے کر آپ کو مدینہ طیبہ تشریف لانے کی دعوت دی تھی پھر ہجرت رسول اللہ ﷺ کے بعد جملہ غزوات میں شریک رہے ہیں اور ہر طرح سات نبھایا ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے ہیں اس وقت مدینہ میں خاصی تعداد میں لوگ مسلمان ہو چکے تھے آپ کی تشریف آوری پر مدینہ کے سربر آوردہ حضرات نے مدینہ سے باہر ہی قبا جا کر آپ ﷺ کا استقبال کیا تھا مدینہ تشریف لانے پر ہر شخص کی خواہش اور درخواست یہ تھی کہ آپ اسے شرف میزبانی سے نوازیں اور اسی کے گھر پر قیام فرمائیں اس درخواست کو لے کر وہ لوگ بار بار آپ کی اونٹنی(جس پر سوار ہوکر آپ تشریف لائے تھے) کے سامنے آتے اور اسکی مہار پکڑنا چاہتے آپ فرما دیتے "دعواها فانها مامورة" اس کو نہ روکو یہ منجانب اللہ مامور ہے۔ جہاں رکنے کے لیے اس کو اللہ کا حکم ہوگا یہ وہیں رکھے گی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی اور یہ دولت بے بہا ابو ایوبؓ کی قسمت میں آئی۔ ان کا مکان دومنزلہ تھا انہوں نے نیچے کا پورا حصہ آپ کے لیے خالی کردیا اور خود بالائی حصہ پر چلے گئے لیکن جانے کے بعد خیال آیا کہ ہم اوپر کے حصہ میں ہیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے کے حصہ میں یہ تو بڑی بے حرمتی کی بات ہے وہ رات تو کسی طرح اوپر کی منزل کے ایک کونے میں کاٹ لی لیکن صبح کو آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اس خیال کو عرض کیا آپ ﷺ نے فرمایا ہماری اور ہمارے پاس آمدورفت رکھنے والوں کی سہولت اسی میں ہے کہ ہم نیچے کے مکان میں رہیں اس لیے یہی نظم باقی رہا لیکن ایک رات ایسا ہوا کہ اوپر کی منزل میں جہاں حضرت ابوایوبؓ اور ان کی اہلیہ رہتے تھے پانی کا ایک گھڑا ٹوٹ گیا اور پانی فرش پر بہہ پڑا اس خیال سے کہ اب پانی نیچے کی منزل میں جہاں آپ قیام فرما ہیں ٹپکے گا انہوں نے فورا اپنے لحاف میں پانی جذب کر لیا اور پوری رات دونوں میاں بیوی سردی کی وجہ سے سو نہ سکے اس لیے کہ اس لحاف کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور چیز رات کو اوڑھنے کی نہ تھی جب یہ واقعہ آپ کے علم میں آیا تو آپ ﷺ نے اپنا قیام اوپر کی منزل میں کر لیا جب تک آپ کے اہل خانہ کے لیے مکان کا انتظام نہیں ہوا آپ کے قیام و طعام کی سعادت حضرت ابو ایوب انصاری کے نصیب میں ہی رہی۔ (1) فضائل حضرت ابو ایوب سابقین اولین میں بڑے جلیل القدر صحابی ہیں آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دینے اور پھر تشریف آوری پر حتی الامکان آپ کی خدمت اور راحت رسانی کی فکر کرنے والے صحابی ہیں آپ جب تک ان کے یہاں قیام فرما رہے کھانا پکا کر پہلے سب آپ کی خدمت میں بھیج دیا جاتا جو وہاں سے بچ کر آ جاتا میاں بیوی دونوں کھا لیتے بلکہ حضرت ابو ایوب تو اسی جگہ سے کھاتے جہاں سے آپ نے نوش فرمایا ہوتا اور جہاں آپ کی انگلیوں کے نشانات ہوتے تھے (2) آپ کی حیات طیبہ میں جملہ غزوات میں شریک رہے اور آپ کی وفات کے بعد بھی مسلسل غزوات میں شرکت فرماتے رہے ہیں۔ 52ھ میں غزوہ قسطنطیہ کے لیے جانے والے لشکر میں شامل تھے راستے ہی میں مریض ہو گئے اور بچنے کی امید نہ رہی لشکر کے امیر یزید بن معاویہ عیادت کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خواہش ہو تو ارشاد فرمائیں انہوں نے فرمایا میرے انتقال کے بعد بھی میرے جنازے کو جہاں تک دشمن کی سرزمین میں لے جا سکو لے جانا اور وہاں جا کر دفن کرنا۔ انتقال کے بعد ان کی خواہش کی تکمیل کی گئی اور ان کو قسطنطیہ کے قلعہ کی دیوار کے قریب لے جا کر دفن کیا گیا۔ (3) رسول اللہ ﷺ سے محبت اور تعلق اور آپ کی اتباع کا بہت خیال رکھتے تھے صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک بار حسب معمول ان کے یہاں سے کھانا پکا کر آپ کی خدمت میں بھیجا گیا کچھ دیر بعد جب کھانے کے برتن واپس آئے تو معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے تو کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے حضرت ابوایوبؓ گھبرا گئے اور فورا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانا نوش نہ فرمانے کی وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس میں لہسن ہے انہوں نے عرض کیا کیا لہسن حرام ہے آپ نے فرمایا حرام تو نہیں ہے لیکن بدبو کی وجہ سے مجھے پسند نہیں ہے حضرت ابو ایوبؓ نے عرض کیا جو آپ کو ناپسند ہو وہ مجھے بھی ناپسند(1) اور ہمیشہ کے لیے لہسن کھانا چھوڑ دیا۔ ان کی دینی حمیت اور اتباع سنت کا ایک واقع اور پڑھ لیجئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے حضرت سالم فرماتے ہیں کہ والد صاحب نے میرے ولیمہ کی دعوت میں جن صحابہ کرامؓ کو مدعو کیا تھا ان میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بھی تھے وہ جب تشریف لائیں تو انھوں نے دیکھا کہ میرے مکان کی دیواروں پر کپڑے کے پردے لٹکے ہوئے ہیں جنہیں دیکھ کر حضرت ابوایوبؓ میں بہت سخت ناگواری کا اظہار کیا اور فرمایا دیواروں کو کپڑے پہناتے ہو والد صاحب کو ان کے فرمانے پر بڑی خفت ہوئی اور کہا عورتیں غالب آ گئی اس پر حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے فرمایا "من خشيت أن تغلبه النساء، فلم أخش أن يغلبنك لا ادخل لكم بيتا ولا آكل لكم طعاما" (2) مجھے ہر شخص کے بارے میں یہ خطرہ ہوسکتا تھا کہ عورتیں اس پر غالب آ سکتی ہیں لیکن تمہارے بارے میں عورتوں کے غلبہ کا خطرہ بالکل نہ تھا میں نہ تمہارے گھر میں قدم رکھوں گا اور نہ تمہارا کھانا کھاؤں گا اور بغیر کھانا کھائے ہی واپس چلے گئے۔ صحابہ کرامؓ آپ کے بعد بھی ان کے میزبان رسول اللہ ﷺ ہونے کا بڑا خیال کرتے اور اس وجہ سے ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بصرہ میں قیام فرما تھے ان کے یہاں حضرت ابو ایوب انصاریؓ تشریف لائے ابن عباسؓ نے اپنا پورا مکان مع سازوسامان قیام کے لیے ان کے حوالہ کردیا اور بڑی مقدار میں ہدایا اور عطیات پیش خدمت کیے بالکل اسی طرح کا معاملہ حضرت علی نے بھی ان کے ساتھ کیا تھا (3) ان سے احادیث کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ میں حضرت براء بن عازبؓ حضرت زید بن خالد حضرت مقدام بن معدی کربؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت جابر بن سمرہؓ حضرت انس بن مالکؓ جیسے صحابہ کرامؓ ہیں تابعین کی بھی بڑی تعداد نے ان سے احادیث نقل کی ہیں۔ وفات جیسا کہ اوپر گزرا 521ھ میں غزوہ قسطنطنیہ میں وفات پائی اور وہیں دفن کئے گئے۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ حضرت عمار بن یاسرؓ کے والد یاسرؓ اصلا یمن کے رہنے والے ہیں مکہ معظمہ آ کر بس گئے تھے اور وہاں قبیلہ بنو مخزوم کہ ایک شخص ابوحذیفہؓ سے حلف کرلی تھی (زمانہ جاہلیت میں حلف دوشخصوں یا دو قبیلوں کے درمیان باہمی نصرت وحمایت کا معاہدہ ہوتا تھا) ابو حذیفہؓ نے ان کی شادی اپنی باندی سمیہؓ سے کردی تھی انہیں دونوں کے بیٹے حضرت عمارؓ ہیں یہ تینوں یعنی حضرت عمارؓ اور ان کے والدین بالکل ابتدائی زمانہ میں اسلام لانے والے اور دین کے خاطر مشرکین مکہ کے ہاتھوں طرح طرح کے ظلم و ستم برداشت کرنے کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہنے والے صحابہ کرامؓ میں ہیں مکہ میں سخت گرمی کے زمانہ میں تپتی ہوئی چٹانوں پر باندھ کر ڈال دئیے جاتے تھے اور ایذارسانی کی ہر ممکن صورت ان پر آزمائی جاتی تھی ایسے ہی ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کا گزر ان حضرات پر ہوا تو فرمایا "صبرا يا آل ياسر موعدكم الجنة" یاسر کے گھر والو صبر کرو تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے۔ ان کی والدہ حضرت سمیہؓ کو وہ جو بہت ہی کمزور اور بوڑھی عورت تھیں ابوجہل نے نیزہ مار کر شہید کر دیا تھا اسلام میں سب سے پہلی شہادت انہی کی ہے (3) ان کے والد یاسر بھی ان تکلیفوں اور اذیتوں کی وجہ سے مکہ ہی میں وفات پا گئے تھے (4) تین افراد پر مشتمل اس خاندان میں سے حضرت عمارؓ ہی باقی بچے تھے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے خود ہجرت فرمانے سے پہلے انہیں اور حضرت بلالؓ کو مدینہ طیبہ بھیج دیا تھا (5) فضائل جیسا کہ ابھی گزرا وہ اور ان کے والدین سابقین اولین میں ہیں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اولین ایمان لانے والے سات صحابہ کرامؓ میں حضرت عمار اور ان کے والد حضرت یاسرؓ کو شمار کیا ہے (6) اور اللہ تعالی نے ان لوگوں کے لئے ؓ و رضوا عنہ و کام مژدہ سنایا ہے یعنی اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر اور اس کے بعد بھی جملہ غزوات میں شریک رہے ہیں (7) حضرت عمارؓ بڑے صاحب فضیلت صحابی ہیں رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ "مَا خُيِّرَ عَمَّارٌ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلاَّ اخْتَارَ أَرْشَدَهُمَا" (1) یعنی ان کے مزاج میں اتنی سلامتی ہیں اور اللہ نے انکی شیطان اور اس کے وساوس سے ایسی حفاظت فرمائی ہے کہ وہ کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے اور جب بھی ان کو کن ہی دو کاموں یا دو باتوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو وہ اسی کو اختیار کرتے ہیں جو برحق ہوتا ہے حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ اللہ نے انکے شیطان سے محفوظ و مامون ہونے کا اعلان بزبان نبوت فرمایا ہے (2) یعنی حضرت ابودرداءؓ کے علم میں رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایسی حدیث ہے جس میں آپ نے حضرت عمارؓ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کو شیطان اور اس کے وساوس سے محفوظ رکھا ہے۔ ان سے رسول اللہ ﷺ کو بڑی محبت تھی ان کی حاضری اور ملاقات سے آپ ﷺ بہت خوش ہوتے ایک بار در دولت پر حاضر ہوئے اور اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا "ائْذَنُوا لَهُ مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ" (3) بلا لو انکو اور فرمایا خوش آمدید اس شخص کو جو ہر طرح پاک و صاف ہے۔ ان کے فضائل میں امام ترمذی نے حضرت حذیفہؓ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے بعد حضرت عمارؓ کی سیرت و کردار کو اختیار کرنے کا حکم دیا اور اسے اسوہ قرار دیا ہے فرماتے ہیں۔ "كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((إِنِّي لاَ أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَاهْتَدُوا بِهَدْيِ عَمَّارٍ وَمَا حَدَّثَكُمُ ابْنُ مَسْعُودٍ فَصَدِّقُوهُ" (4) ہم لوگ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کے میں کتنے دن تم لوگوں کے درمیان رہتا ہوں لہذا میرے بعد ان دونوں یعنی ابوبکر و عمر کی پیروی کرنا اور عمارؓ کی سیرت کو اپنانا اور جو بات عبداللہ بن مسعودؓ بیان کریں اس کو مان لینا رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان واھتدوا بہدی عمار میں حضرت عمار کی سیرت و کردار کی بلندی اور پاکیزگی کی کیسی شہادت اور کتنا واضح اعلان ہے رسول اللہ ﷺ نے انہیں اعلی درجہ کا مومن اور کامل الایمان قرار دیا ارشاد فرماتے ہیں "ان عمارا ملئى ايمانا الى مشاشه" (5) عمارؓ اپنی ہڈیوں کے سروں اور جوڑوں تک ایمان سے بھرے ہوئے ہیں مشاش کا لفظ عربی زبان میں ہڈی کے سرے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے بظاہر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان ان کے رگ و پے میں اور جوڑ جوڑ میں سرایت کر گیا ہے اور یہ تعبیر ہے ان کے اعلی درجے کے مومن اور کامل الایمان ہونے کی۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں ان کا ایک کان کٹ گیا تھا عمار بن یاسرؓ اس کے کٹنے پر خوشی بلکہ فخر کا اظہار کرتے اور فرماتے تھے جو کان کاٹ گیا وہ زیادہ بہتر تھا اس کان سے جو بچ گیا اس لیے کہ وہ اللہ کے راستے میں کام آ گیا حضرت علیؓ حضرت عمارؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد "دم عمار ولحمه حرام على النار ان تطعمه" (6) نقل کیا ہے یعنی جہنم کی آگ کے لیے حرام ہے کہ وہ عمارؓ کے خون اور گوشت کو کھائے۔ شہادت حضرت عمر نے حاکم بنا کر کوفہ بھیج دیا تھا عرصہ تک وہاں رہے پھر جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ شریک ہوئے اور 87 میں بعمر 93 سال جنگ صفین ہوں میں شہید ہوئے ہیں (ؓ وارضاہ
Top