معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2110
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت صہیب رومی ؓ حضرت صہیب رومی اصلا عرب ہیں بچپن میں رومی پکڑ کر لے گئے تھے اور غلام بنا لیا تھا وہیں پلے بڑھے ہیں اسی لیے رومی کہلاتے ہیں بڑے ہونے پر یا تو خود بھاگ آئے اور مکہ آکر عبداللہ بن جدعان سے موالات کرلی یا کسی نے روم سے خرید کر مکہ میں لاکر بیچ دیا اور عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا دونوں کو ذکر کئے جاتے ہیں (2) رسول اللہ ﷺ سے قبل بعثت ہی سے تعلق تھا فرماتے ہیں "صحبت النبى صلى الله عليه وسلم قبل ان يوحى اليه" (3) پھر اسلام لانے میں بھی سبقت کرنے والے لوگوں میں ہی حضرت عمار بن یاسر کے ساتھ دارارقم میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان قبول کرلیا آپ کی ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ ہجرت کی ہے ان کی ہجرت کا واقعہ بھی عجیب و غریب ہے وہ مکہ سے بارادہ ہجرت نکلے ہی تھے کہ مکہ کے مشرکین کو علم ہوگیا انہوں نے راستے ہی میں روک لیا حضرت صہیب نے فرمایا تم مجھے جانتے ہو میں بہتر کی انداز ہو جب تک میرے ترکش میں ایک بھی تیر باقی رہے گا تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے ہو پھر میرے پاس میری تلوار بھی ہے جو تمہارے سروں کو تمہارے جسموں سے جدا کر دے گی ان لوگوں نے کہا ہمیں تمہارے جانے پر زیادہ اعتراض نہیں لیکن تم جو مال لے جا رہے ہو یہ مال تو مکہ کا ہے تم جب مکہ آئے تھے تو بالکل غریب تھے اور اب مالدار ہو گئے ہو حضرت صہیب نے فرمایا یہ بتلاؤ کے اگر میں اپنا مال تمہیں دے دوں تو کیا تم میرا راستہ چھوڑ دو گے انہوں نے کہا بے شک اس کے بعد حضرت صہیب نے مکہ میں موجود اپنا مال کا بتا دیا کہ فلاں فلاں کے پاس میرا مال ہے اور میرے گھر میں فلاں جگہ سونا دفن ہے اس پر ان لوگوں نے حضرت صہیب کو مدینہ طیبہ جانے کی اجازت دے دی۔ حضرت صہیب جب مدینہ پہنچے ہیں اس وقت تک رسول اللہ ﷺ کو قبا ہی میں تھے جو اس وقت مدینہ طیبہ کی ایک مضافاتی بستی تھی ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے بارے میں آیت "وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ" (سورۃ بقرہ آیت نمبر 207) نازل ہوچکی تھی ترجمہ اور لوگوں میں ایک شخص وہ ہے جو اپنی جان کو اللہ کی رضا جوئی کیلئے بیچتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا ربح البیع ربح البیع ربح البیع تمہاری تجارت نفع مند رہی یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا۔ (1) فضائل حضرت صہیبؓ جیسا کہ ابھی اوپر گزرا بالکل ابتداء ہی میں اسلام لانے والے صحابہ کرام میں ہیں چونکہ مکہ میں ان کا کوئی عزیز اورحامی و ناصر نہ تھا اس لئے مشرکین مکہ نے ایمان لانے پر ان کو سخت ترین سزائیں دیں مارنا پیٹنا ہاتھ پاؤں باندھ کر سخت گرمی کے دنوں میں تپتی ہوئی چٹانوں پر دھوپ میں ڈال دینا یہ تو روز مرہ کا معمول تھا۔ ان کے بارے میں اوپر ذکر کی گئی آیت کریمہ " وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ..... الخ" تو نازل ہوئی ہی اس کے علاوہ آیت کریمہ "وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴿٤١﴾ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ" (سورۃ النحل نمبر41) کا مصداق بھی وہ اور ان جیسے صحابہ کرامؓ ہیں۔ یعنی جن لوگوں نے ظلم و ستم کے بعد اللہ کے واسطے ہجرت کی۔ ان کو ہم دنیا میں یقینا بہترین ٹھکانہ دینگے اور آخرت کا اجروثواب تو بہت ہی بڑا ہے۔ اگر ان کو معلوم ہوتا وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر بھروسا کیا (2) رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا صهيب سابق الروم الى الجنة۔ (3) اہل روم میں صہیب سب سے پہلے جنت میں جانے والے شخص ہیں۔ وہ آپ کے ہجرت فرمانے کے فورا بعد ہی ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچ گئے ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ جملہ غزوات میں شریک رہے اگر آپ ﷺ نے کبھی کوئی لشکر روانہ فرمایا ہے جس میں دینی مصالح کی بنا پر آپ خود تشریف نہیں لے جاسکے ہیں تب بھی صہیبؓ اس میں شریک ہوئے ہیں آپ نے جب بھی صحابہ کرامؓ سے کسی بات پر عہدوپیمان اور بیعت لی حضرت صہیبؓ اس عہد و پیمان اور بیعت میں بھی شریک رہے وہ بڑے بہادر اور جانباز تھے ہر خطرہ کے وقت وہ سب سے آگے رہتے کسی موقع پر بھی دشمن کے مقابلہ میں وہ پیچھے نہیں رہے ہیں۔ (4) ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابوبکرؓ کے متعلق یہ خیال ہوا کہ شاید انہوں نے صہیبؓ کو کچھ تکلیف پہنچا دی ہے آپ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا "لعلك آذيته فقال لا والله فقال لو آذيته لاذيت الله ورسوله" کیا تم نے اس صہیبؓ کو ایذا پہنچائی انہوں نے عرض کیا واللہ ایسا نہیں ہے آپ نے فرمایا اگر تم نے ان کو تکلیف پہنچائی تو سمجھ لو گے تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی۔ (1) ان کے بارے میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا ارشاد ہے "من كان يومن بالله واليوم الاخر فليحب صهيبا حب الوالدة لولدها" (2) یعنی اہل ایمان کو چاہیے کہ صہیبؓ سے ایسی محبت کریں جیسی ماں اپنے بیٹے سے کرتی ہے۔ صحابہ کرامؓ کی نظر میں بھی ان کی بڑی قدر و منزلت تھی اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زخمی ہونے کے بعد فرمایا جب تک خلیفہ کا انتخاب نہ ہوجائے مسجد نبوی ﷺ میں امامت صہیبؓ کریں گے اور میری نماز جنازہ بھی صہیبؓ ہی پڑھائیں گے۔ (3) اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وفات سن وفات 38ھ یا 39ھ ذکر کیا جاتا ہے وفات کے وقت بہت سنجیدہ ہو چکے تھے۔ (4) ؓ وارضاہ حضرت ابوذر غفاری ؓ نام شریف جندب بن جنادہ ہے لیکن اپنی کنیت ابو ذر کے ساتھ ہی مشہور ہیں ان کا قبیلہ غفار مکہ سے ملک شام جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے اسلام لانے سے پہلے بھی مزاج میں سلامتی تھی توحید کے قائل تھے اور صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے حضرت عبداللہ بن صامتؓ نے اس بارے میں انہیں کا بیان نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے تین سال پہلے ہی سے نماز پڑھتا تھا حضرت عبداللہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا آپ کس کے لئے نماز پڑھتے تھے فرمایا اللہ کے لیے میں نے پوچھا کدھر کو رخ کر کے نماز پڑھتے تھے کہا جدھر میرا رب میرا رخ کر دیتا تھا ادھر ہی کو متوجہ ہو کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا رات کے اولین حصّہ میں نماز شروع کرتا اور جب وقت آخر شب ہوتا تو اللہ کے حضور سجدے میں پڑ جاتا سورج نکلنے تک ایسے ہی پڑا رہتا۔ (5) ان کے ایمان لانے کا ایک واقعہ صحیحین کی ایک روایت کے مطابق اس طرح ہے کہ جب ان کو رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے تحقیق حال کے لئے اپنے بھائی حضرت انیسؓ کو مکہ بھیجا انہوں نے واپس آکر رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتلایا کہ وہ مکارم اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور ایسا کلام سناتے ہیں جو شعر تو بہرحال نہیں ہے حضرت ابوذر کو بھائی کی بات سے پورا اطمینان نہیں ہوا مختصر سامان سفر لیا اور مکہ کے لیے روانہ ہوگئے مکہ پہنچ کر حرم شریف میں جا کر ٹھہر گئے اور رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے لگے نہ خود پہچانتے تھے نہ کسی سے دریافت کرنا مناسب سمجھتے تھے اسی حال میں رات ہوگئی حضرت علی پردیسی خیال کرکے اپنے گھر لے گئے قیام و طعام کے علاوہ کوئی گفتگو دونوں میں نہیں ہوئی رات وہیں گزاری اور صبح کو اپنا سامان لے کر پھر حرم شریف آگئے دن بھر وہی رہے دوسری رات کو بھی حضرت علی یہ خیال کر کے کہ پردیسی ہیں ابھی اپنی منزل تک نہیں پہنچے اپنے گھر لے گئے آج بھی دونوں میں مطلب کی کوئی بات نہیں ہوئی اور حضرت ابوذر صبح کو پھر حرم شریف آ گئے تیسرے دن بھی حضرت علی نے ان کو حرم میں ہی دیکھا تو اپنے ساتھ لے جاتے ہوے حاضری کا مقصد معلوم کیا انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس بات کا عہد وپیمان کریں کہ مجھے صحیح بات بتلائیں گے تو میں اپنی آمد کی غرض بتلاؤں جب حضرت علی نے وعدہ کرلیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے متعلق دریافت کیا حضرت علی نے فرمایا وہ بالکل برحق ہے اور بلاشبہ وہ اللہ کے رسول ہیں آپ رات کو میرے ساتھ رہئے میں صبح کو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا اور دیکھئے اگر میں راستہ میں آپ کے لیے کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو پیشاب کرنے کے بہانے رک جاؤں گا (آپ چلتے رہیے گا) صبح کو دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کی بات سن کر حضرت ابوذر اسی وقت مسلمان ہوگئے آپ نے ان سے فرمایا کہ تم اس وقت تو اپنے گھر چلے جاؤ اور وہاں دین کی دعوت کا کام کرو اور جب ہمارے غلبہ کا علم ہوجائے چلے آنا انہوں نے کہا میں خاموشی سے گھر واپس نہیں جاؤں گا علی الاعلان مشرکین مکہ کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اظہار کروں گا اور پھر حرم شریف آ کر قریش کے لوگوں کے سامنے باآواز بلند اشهد ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله۔ کا اعلان کردیا یہ نعرہ ایمانی سن کر لوگ چاروں طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے اور مارتے مارتے برا حال کر دیا پورا جسم لہولہان ہو گیا حضرت عباس کو اس کا علم ہوا آئے اور ان کو بچایا ابوذر نے دوسرے دن بھی اشھد ان لا الہ الخ کا نعرہ بلند کیا اور آج بھی وہی سب کچھ ہوا جو کل ہوا تھا (1) طبرانی کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے ان کو اس اعلان سے بار بار منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ مجھے تمہارے قتل کر دئیے جانے کا خطرہ ہے لیکن ہر بار وہ جواب میں یہی عرض کرتے تھے "انه لا بد منه وان قتلت" یہ تو میرے لئے ناگزیر ہے خواہ قتل ہی کیوں نہ کر دیا جاؤں صحیح مسلم وغیرہ کی روایات میں مزید یہ بھی ہے کہ وہ جب مکہ سے اپنی والدہ اور بھائی کے پاس واپس پہنچے تو وہ لوگ بھی ان کے ایمان لانے پر ایمان لے آئے (2) اس وقت تک صرف تین چار حضرات تھی ایمان لائے تھے (3) رسول اللہ ﷺ سے رخصت ہو کر اپنے قبیلہ آئے اور آپ کے حکم کے مطابق وہاں دعوت دین کا کام شروع کردیا بہت ہی کم عرصہ میں قبیلہ غفار اور اس سے متصل قبیلہ اسلم کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں قبیلوں کی بہت تعریف فرمائی ہے کبھی آپ نے فرمایا غفار غفر اللہ لھا واسلم سالمھا ا اللہ۔ اللہ قبیلہ غفار کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے۔ کبھی آپ نے فرمایا یہ دونوں قبیلے اللہ کے مولا ہیں اور ان کا اللہ و رسول کے علاوہ کوئی مولا نہیں ہے (عربی زبان میں مولیٰ کا لفظ حامی ناصر اور انتہائی قریبی شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے) حدیث کی کتابوں میں ان دونوں قبیلوں کی مدح و ستائش کی روایات بکثرت وارد ہوئی ہیں۔ (1) رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد وہ فورا مدینہ حاضر نہ ہو سکے تھے بلکہ غزوہ احد کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر مستقل آپ کی خدمت و صحبت ہی میں رہے۔ (2) فضائل حضرت ابوذرؓ کا شمار سابقین اولین اکابر صحابہ کرام میں ہوتا ہے وہ اگرچہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے لیکن حضرت عمرانؓ کے فضل و کمال کی وجہ سے انھیں بدری صحابہ کرامؓ ہی کی صف میں شمار کرتے تھے ان کے نزدیک علم و فضل میں حضرت ابوذر کا درجہ اور مقام حضرت عبداللہ بن مسعود جیسا تھا حضرت علی بھی ان کو علم کا خزانہ کہتے تھے (3) غزوہ تبوک میں اونٹ کے بیماریاں کمزور ہو جانے کی وجہ سے عام لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے اس لئے اونٹ کو چھوڑا سامان کمر پر لادا اور پیدل چل دئیے آپ نے دیکھا تو دعا فرمائی "يرحم الله ابا ذر" اللہ ابوذرؓ پر رحم فرمائے پھر فرمایا تنہا زندگی گزارتے ہیں موت بھی تنہائی میں آئی گی اور روز محشر بھی سب سے الگ اٹھیں گے۔ (4) ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا "مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ وَلاَ أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ مِنْ ذِي لَهْجَةٍ أَصْدَقَ وَلاَ أَوْفَى مِنْ أَبِي ذَرٍّ شِبْهِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ" (5) آسمان کے زیرسایہ اور روئے زمین پر کوئی شخص ابوذر سے زیادہ سچا اور بات کا پکا نہیں ہے وہ (اپنے زہد اور دنیا سے بے رغبتی میں) حضرت عیسی علیہ السلام کے مشابہ ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا "أَبُو ذَرٍّ يَمْشِي فِي الأَرْضِ بِزُهْدِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ" (6) ابوذرؓ حضرت عیسی علیہ السلام کے زھد کے حامل ہیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حضرت ابوذر جس طرح زاہدانہ زندگی گزارتے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں کی تھی اور آپ کا ارشاد ہے "اقربكم من مجلسا يوم القيامة من خرج من الدنيا كهيئة يوم تركتها فيها" قیامت میں سب سے زیادہ میرے قریب مقام اس شخص کو نصیب ہو گا جو دنیا سے اسی حالت میں رخصت ہوا جس حالت میں میں اس کو چھوڑ کر آیا تھا (1) آپ ﷺ نے ان کو اپنے انتہائی خاص صحابہ کرام میں شمار کیا ہے ایک بار آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے مجھ کو چودہ مخصوص اور فاضل رفقاء عطا فرمائے ہیں پھر آپ ﷺ نے ان چودہ رفقاء خاص کے اسمائے گرامی بھی ذکر فرمائے جن میں حضرت ابوذر کا نام بھی شامل ہے۔ (2) وفات حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں اپنے زاہدانہ مزاج کی وجہ سے مدینہ سے باہر مقام ربدہ میں آکر رہنے لگے تھے اہلیہ کے علاوہ غالبا اور کوئی ساتھ نہ تھا وہیں وقت موعود آ پہنچا مسلمانوں کی ایک جماعت جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی تھے وہاں سے گزری انہیں حضرات نے تجہیزوتکفین کی حضرت عبداللہ بن مسعود نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (3) ؓ وارضاہ حضرت معاذ بن جبل ؓ ایک انتہائی حسین و جمیل خوبرو نوجوان جس کی عمر ابھی بیس سال بھی نہ تھی بیعت عقبہ ثانیہ یا ثالثہ کے موقع پر مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ حاضرہوکر رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک میں اپنا ہاتھ دے کر اسلام پر جینے اور مرنے اور مرتے دم تک اسلام کی خدمت و حمایت کی بیعت کر رہا تھا اسے ایمان کی دولت حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ذریعہ نصیب ہوئی تھی جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے خود ہجرت فرمانے سے پہلے ہی مدینہ طیبہ کے لوگوں کو دین کی دعوت اور قرآن و سنت کی تعلیم کے لیے بھیجا تھا اس نوجوان کا نام معاذ بن جبلؓ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد تو معاذ سایہ کی طرح آپ ﷺ کے ساتھ رہے اکیس سال کی عمر میں غزوہ بدر سے غزوات میں شرکت شروع کی پھر تمام ہی غزوات میں شریک رہے ابھی عمر کی صرف تیس منزلیں ہی طے کی تھیں کے اہل یمن کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کا حاکم اور اہل یمن کا معلم بنا کر بھیجا۔ (4) فضائل حضرت معاذ بن جبلؓ نو عمری ہی میں سعادت ایمانی سے نواز دیے گئے تھے انہوں نے قرآن مجید اور دینی مسائل کی تحصیل براہ راست رسول اللہ ﷺ سے کی تھی اور آپ ﷺ نے ان کو اس کم عمری ہی میں قرآن و سنت اور دینی و فقہی مسائل کا بڑا عالم قرار دے دیا تھا اپنی حیات ہی میں آپ نے جن حضرات صحابہ کرامؓ کو قرآن مجید کا معلم بنایا تھا ان میں معاذ بن جبلؓ بھی ہیں صحیح بخاری وغیرہ میں آپ ﷺ کا ارشاد ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے "اسْتَقْرِئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأُبَيٍّ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ" (1) یعنی ان چار حضرات سے جن میں معاذ بن جبلؓ بھی ہیں قرآن مجید پڑھا کرو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے "اعلم امتى بالحرام والحلال معاذ بن جبل" (2) یعنی حلت و حرمت کے مسائل کی واقفیت میں معاذ بن جبل کا مقام سب سے بلند مقام ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں پورا قرآن حفظ کرلیا تھا فتح مکہ کے بعد آپ نے حضرت معاذؓ کو اہل مکہ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے کچھ دنوں کے لیے وہیں چھوڑ دیا تھا رسول اللہ ﷺ ان سے بہت خوش رہتے تھے ایک بار ان کے بارے میں فرمایا "نعم الرجل معاذ بن جبل" (3) معاذ بن جبلؓ بہت ہی اچھے شخص ہیں آپ کو حضرت معاذؓ سے بہت محبت تھی اور کبھی کبھی آپ ﷺ اس کا اظہار بھی فرما دیتے تھے ایک موقع پر آپ نے حضرت معاذ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا "يا معاذا والله انى لاحبك" معاذ واللہ مجھے تم سے بہت محبت ہے اس کے بعد آپ نے انہیں ایک دعا تعلیم فرمائی اور فرمایا ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور پڑھا کرو "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ" (4) اے اللہ میری مدد فرما اور مجھے توفیق دے اپنے ذکر کی اپنے شکر کی اور اپنی اچھی عبادت کی۔ ۱۰؁ھ میں آپ صلی اللہ وسلم نے حضرت معاذؓ ..... کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا ہے اور مدینہ طیبہ سے اس شان سے رخصت فرمایا ہے کہ معاذؓ (آپ کے حکم کے مطابق) گھوڑے پر سوار ہیں اور آپ ﷺ پاپیادہ ان کے ساتھ چل رہے ہیں اور حضرت معاذؓ کے بار بار عرض کرنے کے باوجود بھی ان کو گھوڑے سے اترنے کی اجازت نہیں دی ہے رخصت کرتے وقت آپ نے ان کو دین کی دعوت اور اسلامی حکومت کے سلسلہ کی بہت سی نصیحتیں فرمائی ہیں جن کا ذکر صحیحین وغیرہ کی روایات میں ہے (5) اسی سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ معاذ! وہاں کے لوگوں کے درمیان اگر قضا یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی ضرورت پڑے گی تو کس طرح فیصلے کرو گے انہوں نے عرض کیا اولا کتاب اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کروں گا اور اگر اس قضیہ کا حل کتاب اللہ میں نہیں ملے گا تو آپ کی سنت میں اس کا حل تلاش کروں گا ورنہ پھر خود خوب غوروفکر کرکے فیصلہ کرونگا رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کے اس جواب کو بہت پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" (6) تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میرے قاصد کو خیر اور صحیح طریقہ کی توفیق عطا فرمائی۔ اسی موقع پر آپ نے حضرت معاذؓ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ غالبا یہ آخری ملاقات ہے جس پر دونوں کی آنکھوں سے آنسو برس پڑے تھے۔ اسی موقع پر آپ نے ان کو "حفظك الله من بين يديك ومن خلفك ودرأ عنك شر الانس والجن" کی دعا دی تھی۔ اللہ تمہاری ہر طرف سے حفاظت فرمائے اور تم کو جن و انس کے شر سے محفوظ رکھے۔ (1) حضرت معاذ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے یہ بشارت بھی دی تھی کہ وہ قیامت کے دن دعلماء کی ایک جماعت کے امام بن کر آئیں گے۔ ان کا شمار ان صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جو آپ ﷺ کے زمانہ ہی میں معلمین قرآن اور اصحاب فتویٰ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ برسر منبر پر اعلان کیا تھا۔ "من كان يريد ان يسأل عن الفقه فليات معاذ بن جبل" جسے دینی مسائل سے واقفیت مطلوب ہو اس کو معاذ بن جبلؓ کے پاس جانا چاہئے۔ (2) رسول اللہ ﷺ کے حکم سے معاذ بن جبلؓ یمن گئے تھے پھر آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ زمانہ خلافت میں واپس آئے اور ملک شام کی طرف بغرض جہاد چلے گئے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا تھا، معاذؓ کے علم کی اہل مدینہ کو بہت ضرورت ہے ان کے جانے سے مدینہ میں علم کا بہت خلاء ہو جائے گا آپ انہیں ملک شام جانے کے ارادہ سے باز رکھئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ ایک اللہ کا بندہ شوق شہادت کے جذبہ سے میدان جہاد کے لئے جا رہا ہے میں اسے نہیں روک سکتا حضرت معاذؓ ملک شام جانے کے بعد وہاں طاعون کے مرض میں مبتلا ہوئے اور اسی میں ۱۷ یا ۱۸ھ میں شہید ہو گئے۔ شہادت کے وقت عمر صرف ۳۳ سال تھی۔ بعض حضرات نے ۳۴ یا ۳۵ سال بھی بتلائی ہے۔(4)
Top