معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2112
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ مدینہ کے مشہور یہودی قبیلہ بن قینقاع سے تعلق ہے، ان کا سلسلہ نسب حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مل جاتا ہے وہ یہودیوں کے ایک بڑے عالم تھے، اسلام لانے سے پہلے ان کا نام الحصین تھا، رسول اللہ ﷺ ہی نے ان کا نام عبداللہ رکھا تھا، وہ اپنے ایمان لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے اور میں نے پہلی بار آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا اور دل نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا پہلی بار جو میں نے آپ سے سنی وہ یہ تھی "أَفْشُوا السَّلاَمَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ" (2) لوگوں سلام کو عام کرو اور غریبوں کو کھانا کھلاؤ اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ، سلام کو عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کو سلام کیا جائے خواہ وہ شخص جان پہچان کا ہو یا نہ ہو، اس کے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے چند سوالات کئے آپ نے ان کے صحیح صحیح جوابات دے دئیے، جوابات سن کر انہوں نے کلمہ شہادت پڑھا اور ایمان لے آئے، سوالات و جوابات کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے۔ (3) اس کے بعد آپ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہود بہت جھوٹی قوم ہے، آپ ابھی میرے ایمان لانے کا اظہار نہ فرمائیں پہلے ان لوگوں سے میرے بارے میں معلوم فرمائیں کہ میرا مقام ان کے نزدیک کیا ہے، آپ ﷺ نے یہودیوں کی ایک جماعت کو بلا کر ان لوگوں سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے متعلق معلوم کیا کہ وہ کیسے شخص ہین سب نے بیک زبان کہا خيرنا وابن خيرنا وافضلنا وابن افضلنا واعلمنا وابن اعلمنا، وہ ہم میں سب سے افضل اور بہتر اور سب سے زیادہ صاحب علم ہیں اور ان کے والد بھی اپنے زمانہ میں سب سے افضل و بہتر اور سب سے زیادہ صاحب علم تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا یہ بتلاؤ کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو اسلام کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہو گی؟ کہا اللہ کی پناہ یہ نہیں ہو سکتا، آپ ﷺ نے کئی بار یہ سوال دہرایا اور یہود نے ہر بار یہی جواب دیا۔ اس گفتگو کے وقت حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کہیں قریب ہی چھپ گئے تھے۔ جب یہود نے بار بار ان کے صاحب علم و فضل ہونے کا اقرار کر لیا تو وہ نکل آئے اور فرمایا اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد رسول الله، یہود نے فوراً ہی بات بدل دی اور کہنے لگے شرنا وابن شرنا یہ بھی بدترین شخص ہے اور اس کا باپ بھی ایسا ہی شخص تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے ان لوگوں سے اسی کا خطرہ تھا۔ (1) فضائل حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کا سلسلہ نسب جیسا کہ ابھی گزرا اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام تک پہنچتا ہے پھر وہ یہود کے جلیل القدر عالم بھی تھے، انہوں نے یہودیت کو ترک کر کے دین اسلام کو اختیار کیا، ایسے لوگوں کے لئے رسول اللہ ﷺ نے دوہرے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی ہی میں ان کو جنت کی بشارت دے دی تھی، حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں ایک بار رسول اللہ ﷺ نے کچھ کھانا تناول فرمایا، آپ نے تناول فرمانے کے بعد جو بچ رہا اس کے متعلق فرمایا ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے جو اس کو کھائے گا۔ کچھ دیر کے بعد عبداللہ بن سلامؓ آئے اور آپ ﷺ نے وہ بچا ہوا کھانا ان کو کھلایا۔ (3) قرآن مجید کی متعدد آیات میں نام لئے بغیر ان کا ذکر ہے، آیت کریمہ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ (4) میں شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ کا مصداق عبداللہ بن سلام ہی ہیں اس طرح قُلْ كَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ (5) میں بھی وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سے آپ ہی مراد ہیں۔ (6) دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے کفر کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے اسلام لانے کو اسلام اور اس کے پیغمبر کی حقانیت کی دلیل اور شاہد عدل ہونے کے طور پر ذکر کیا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا قول ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لحى يمشى انه فى الجنة الا لعبدالله بن سلام نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے زندہ لوگوں میں صرف عبداللہ بن سلام کے متعلق ہی جنتی ہونے کی بشارت سنی ہے۔ صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے عبداللہ بن سلامؓ کے متعلق فرمایا انت على الاسلام حتى تموت تم مرتے دم تک دین اسلام پر ثابت قدم رہو گے۔ (7) حضرت معاذ بن جبلؓ نے اپنے مرض وفات میں اپنے خاص شاگرد یزید بن عمیرہ کو اپنے بعد جن چار صحابہ کرامؓ سے تحصیل علم کی وصیت فرمائی تھی ان میں حضرت عبداللہ بن سلامؓ بھی ہیں جن کے متعلق حضرت معاذؓ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ انه عاشر عشرة فى الجنة یعنی یہ ان عشرہ مبشرہ کی طرح ہیں۔جن کے متعلق جنتی ہونے کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی۔ (1) وفات ۴۳ھ مدینہ طیبہ میں وفات پائی۔ (2)ؓ وارضاہ۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا پہلا ہی سال تھا اور ابھی صررف چند خاصان خدا ہی اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئے تھے کہ اللہ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو بھی دولت ایمان سے نواز دیا۔ وہ دار ارقم میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہو گئے۔ کچھ مدت تک تو اپنے اسلام کو چھپائے رکھا لیکن زیادہ دن تک یہ بات راز نہ رہ سکی اور اسلام لانے کی پاداش میں ان کے گھر کے لوگوں نے انہیں گھر میں مقید کر دیا اور طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں انہیں دی جانے لگیں۔ ایذا رسانیوں اور قید و بند کا یہ سلسلہ ان کی ہجرت حبشہ تک برقرار رہا۔ مکہ کے چند ستم زدہ مسلمانوں نے ۵ نبوی میں پہلی بار حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، ان ہی حضرات میں حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔ پھر جب ان مہاجرین حبشہ کو مکہ کے حالات کے کچھ سازگار ہونے کی اطلاع ملی (جو در حقیقت غلط تھی) تو ان میں سے کچھ حضرات مکہ واپس آگئے۔ ان میں حضرت مصعبؓ بھی تھے۔ یہاں آ کر دیکھا تو حالات بالکل ویسے ہی تھے جن کی بناء پر ہجرت کرنی پڑی تھی اور مصائب و شدائد بھی پہلے ہی کی طرح ان حضرات کے استقبال کے لئے تیار تھے۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعب اور بعض دیگر صحابہ کرامؓ کو مدینہ طیبہ بھیج دیا۔ (3) حضرت مصعب بن عمیر ؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ (4) فضائل حضرت مصعب بن عمیر ؓ مکہ معظمہ کے سب سے زیادہ ناز و نعم میں پلے نوجوان تھے۔ ان کے باپ کا شمار مکہ کے اغنیاء میں ہوتا تھا وہ حضرت مصعبؓ سے بہت محبت کرتا اور ان کے لئے قیمتی اور شاندار کپڑوں کا اہتمام کرتا تھا کہ ایسے کپڑے مکہ کے کسی نوجوان کو نصیب نہ تھے لیکن اسلام لانے کے بعد ماں باپ دونوں نے ناطہ توڑ لیا اور ہر طرح کی تکلیفوں اور آزمائش سے حضرت مصعبؓ کا واسطہ پڑنے لگا۔ قید و بند اور بھوک پیاس کی وجہ سے یہ ناز و نعم میں پلا ہوا جسم بالکل جھلس گیا تھا۔ کھال جسم سے الگ ہو کر اترنے لگی تھی۔ ضعف کی وجہ سے چند قدم چلنا بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا تھا ان حالات کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے انہیں مدینہ بھیجا تھا۔ اہل مدینہ کو قرآن اور دین کی تعلیم کے لئے ایک معلم کی ضرورت بھی تھی۔ آپ نے اس کام کے لئے حضرت مصعب کا انتخاب فرمایا تھا۔ مدینہ کے صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد ان کے ہاتھ پر ایمان لانے والوں اور ان سے علم دین حاصل کرنے والے کی تھی۔ (1) ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے جسم پر ایک بوسیدہ چادر تھی جس میں چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھی۔ آپ کو ان کے اسلام لانے سے پہلے کے ناز و نعم یاد آ گئے اور ان کی اس خستہ ھالی کو دیکھ کر رونے لگے۔ (2) ان کا شمار اکابر اور اہل فضل صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ وہ اولین ایمان لانے والے اور حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کرنے والے مہاجرین صحابہ کرامؓ میں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دین کی تعلیم اور قرآن مجید پڑھانے کے لئے ہجرت سے پہلے ہی مدینہ طیبہ بھیج دیا تھا اور انہوں نے مدینہ آ کر سب سے پہلے جمعہ کی نماز کے قیام کا انتظام کیا تھا۔ (3) ان کو غزوہ بدر میں شریک ہونے کی فضیلت بھی حاصل ہے۔ غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں مسلمانوں کا جھنڈا دیا تھا۔ وہ غزوہ احد میں آپ ﷺ کے بالکل قریب کھڑے ہو کر جہاد کر رہے تھے اور آپ کے اوپر ہونے والے حملوں کو اپنے اوپر لے لیتے تھے۔ اسی حال میں شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ (4) بوقت شہادت ان کے پاس صرف چھوٹی سی ایک چادر تھی اس میں کفن دیا گیا، وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر ڈھکتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، چادر سے سر ڈھک دو اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو۔ حضرت خبابؓ حضرت مصعبؓ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مہاجرین نے لوجہ اللہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی جس کی وجہ سے ہمارا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ واجب ہو گیا تھا۔ پھر ہم میں کے بعض ساتھی وہ تھے جنہوں نے دنیا میں اس اجر سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور یونہی تکالیف و مصائب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے، ایسے ہی لوگوں میں حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔ (5) حضرت خبابؓ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام نے جو دین کے لئے قربانیاں دی تھیں اللہ نے ان کی ان قربانیوں کے بدلے میں دنیا و آخرت میں اپنے انعامات سے نوازا ہے۔ لیکن بعض صحابہ کرام ایسے بھی تھے جن کی شہادت یا وفات ان دنیوی انعامات کے دور سے پہلے ہی ہو گئی تھی اور ان کو ان قربانیوں کا کوئی بدلہ دنیا میں نہیں ملا ان کا پورا پورا بدلہ اور اجر و ثواب ان کو ان شاء اللہ آخرت میں ہی ملے گا۔ ایسے ہی صحابہ کرام میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ تھے کہ ان کی شہادت ایسی تنگ دستی کے زمانہ میں ہوئی تھی کہ کفن کے لئے ایک کامل و مکمل چادر بھی نصیب نہ ہو سکی تھی جس چادر میں ان کو کفن دیا گیا تھا وہ اتنی چھوٹی اور ناکافی تھی کہ سر ڈھکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈکھتے تھے تو سر کھل جاتا تھا۔ بالآخر سر کو تو چادر سے ڈھک دیا اور پاؤںپر اذخر نامی گھاس ڈال دی۔ حضرت خالد بن الولید ؓ حضرت خالد بن الولید ؓ کے والد کا نام ولید بن المغیرہ ہے اور والدہ لبابہ بنت الحارث ہیں یہ ام المومنین حضرت میمونہؓ کی حقیقی بہن ہیں۔اسلام لانے سے پہلے بھی وہ اشراف قریش میں شمار کئے جاتے تھے، شجاعت و بہادری کے پیکر تھے۔ مسلمانوں کے خلاف اہل مکہ کی جانب سے جنگوں میں شریک رہتے اور اپنی بہادری کے جوہر دکھلاتے تھے۔ ۷ یا ۸ ہجری میں اسلام لانے کے ارادہ سے مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔ راستے میں حضرت عمرو بن العاصؓ ملے انہوں نے دریافت کیا کہاں کا قصد ہے کہنے لگے اسلام لانے کے ارادہ سے مدینہ جا رہا ہوں اب کب تک کفر پر قائم ہوں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا میرا ارادہ بھی یہی ہے۔ دونوں ایک ساتھ مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے حضرت خالد ایمان لائے اور دست مبارک پکڑ کر بیعت علی الاسلام سے مشرف ہوئے پھر حضرت عمرو بن العاصؓ نے بھی یہی کیا۔ (1) فضائل کفر کی حمایت میں جس جوش و جذبہ کے ساتھ میدان جنگ میں شریک ہوتے تھے اسلام لانے کے بعد اس سے بہت زیادہ جوش و جذبہ اور شجاعت و بہادری کا مظاہرہ اسلام کی حمایت اور کفر کی مخالفت میں زندگی بھر کیا اور رسول اللہ ﷺ کی جانب سے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا لقب پایا۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اثناء سفر ایک جگہ قیام فرما تھے میں قریب ہی بیٹھا ہوا تھا لوگ آپ کے سامنے گزر رہے تھے آپ آنے جانے والوں کے متعلق دریافت فرماتے تھے یہ کون ہے۔ میں عرض کرتا فلاں ہے۔ آپ ہر ایک کے متعلق اپنی رائے کا اظہار فرماتے رہتے۔ جب خالد بن الولیدؓ گزرے تب بھی آپ نے من ھذا یہ کون ہے؟ کا سوال کیا میں نے عرض کیا خالد بن الولید ہیں فرمایا نعم عبداللہ خالد بن الولید سیف من سیوف اللہ۔ (2) حضرت ابو بکر صدیق ؓب نے مرتدین سے قتال کرنے کے لئے خالد بن الوالید کو لشکر کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا میں نے ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے نعم عبدالله واخو العشيرة خالد بن الوليد سيف من سيوف الله سله الله على الكفار والمنافقين (1) خالد بن الولید اپنے خاندان کے بہترین فرد اور اللہ کے بہت ہی اچھے بندے ہیں وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں جس کو اللہ نے کفار اور مشرکین کے لئے نیام سے نکال رکھا ہے۔ ان کے ایمان لانے اور مدینہ طیبہ آنے کے کچھ ہی عرصہ کے بعد غزوہ موتہ کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر ملک شام روانہ کیا تھا اور یہ فرمایا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ امیر ہوں گے اور ان کی بھی شہادت کی صورت میں عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر مقرر کیا جائے۔ (1) اللہ کا کرنا یکے بعد دیگرے تینوں شہید ہو گئے پھر لوگوں نے حضرت خالد بن الولید کو امیر بنا لیا۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے موتہ سے خبر آنے سے پہلے ہی مدینہ طیبہ میں ان حضرات کی شہادت کی اطلاع صحابہ کرامؓ کو دی اور فرمایا أَخَذَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ (3)۔ ان تینوں کی شہادت ہو چکی ہے اور اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے (یعنی خالد بن الولیدؓ نے) جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی ہے اس موقع پر حضرت خالدؓ نے اس زور کے ساتھ شمشیر زنی کی تھی کہ اس دن ان کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹی تھیں بالآخر ایک یمنی تلوار نے آخر تک ساتھ دیا۔ (4) غزوہ موتہ میں مسلمان پورے علاقہ کو فتح نہیں کر سکے تھے بلکہ کچھ جزوی فتح کی بعد حضرت خالد بن الولیدؓ مسلمانوں کے لشکر کو کسی بڑے نقصان کے بغیر بحفاظت واپس لے آئے تھے اسی کو آپ نے فتح سے تعبیر فرمایا ہے۔ (5) اس فتح کا ذکر صحیح مسلم اور ابو داؤد کی ایک روایت میں بھی ہے۔ (6) پھر اس پورے علاقہ کو جیش اسامہ نے جا کر فتح کیا ہے جس کا ذکر حضرت اسامہ کے تذکرہ میں گزر چکا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ نے خالدؓ بن الوالید کو لشکر کے ایک حصہ کا امیر بنایا تھا۔ (7) پھر فتح مکہ سے فراغت کے بعد آپ نے حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو قبیلہ بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی وہ بیچارے اسلمنا (ہم اسلام لے آئے) کہنے کے بجائے صبانا صبانا کہنے لگے جس کا مطلب ان کے نزدیک اسلام لانا ہی تھا، مسلمانوں کے نزدیک یہ تعبیر صحیح نہیں تھی اسی وجہ سے حضرت خالدؓ نے جوش جہاد میں چند لوگوں کو قتل کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی اس جماعت میں شریک تھے انہوں نے حضرت کالدؓ کو مزید قتل کرنے سے باز رکھا واپسی کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اللهم انى ابرا اليك مما صنع خالد الٰہی میں خالد کے اس عمل سے بری ہوں، میرا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تو ضرور فرمایا لیکن اس واقعہ کے بعد بھی آپ ان کو امیر لشکر بنا کر بھیجتے رہے۔ (8) حجۃ الوداع سے کچھ پہلے آپ نے حضرت خالدؓ کو صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کا امیر بنا کر یمن بھیجا تھا۔ (9)رسول اللہ ﷺ خضرت خالدؓ کی شجاعت و جنگی مہارت پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ کئی اور مہموں میں آپ نے حضرت خالدؓ ہی کو امیر بنا کر بھیجا ہے۔ مکہ کے قریب عزیٰ نام کا بت تھا جو مکہ اور اطراف کے لوگوں میں مڑا معز اور محترم سمجھا جاتا تھا اس کو توڑنے کے لئے بھی حضرت خالدؓ ہی کا انتخاب آپ نے فرمایا تھا۔ (10) آپ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے بھی آپؓ ہی کی طرح حضرت خالد پر اعتماد فرمایا اور اپنے عہد کے غزوات میں بھی ان کو امیر لشکر بنا کر بھیجتے رہے۔ مرتدین سے قتال میں بھی انہوں نے بہت کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ فتح روم و فارس میں بھی حضرت خالد کو بہت دخل رہا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جہاد کرنے کے لئے بھی حضرت خالد بن الولیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کو اور اس کے ہزاروں ساتھیوں کو قتل کیا، ہرمز کو قتل کرنا اور اکیدردومہ کو قید کرنا بھی انہیں کے کارناموں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے جنگی کارنامے بےحد و بےشمار ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے آخر میں ملک شام کا گورنر بنا کر بھیج دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے بعض انتظامی وجوہات سے ان کو معزول کر کے حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح کو امیر بنایا۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ جب حضرت عمرؓ کا گرامی نامہ لے کر حضرت خالدؓ کے پاس پہنچے ہیں جس میں حضرت خالد کو یہ حکم تھا کہ تم معزول کئے جاتے ہو اور تمہاری جگہ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو گورنر مقرر کیا جاتا ہے تب بھی اس شیر دل کی بہادری قابل دید تھی گرامی نامہ پڑھ کر فرماتے ہیں ان عمر بعث علیکم امین ھذہ الامۃ۔ عمر نے اہل شام کے لئے اس شخص کو امیر بنا کر بھیجا ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے امین الامت کے لقب سے سرفراز فرمایا تھا۔ (1) اور بلاتکلف گورنری سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت ابو عبیدہ نے بھی حضرت خالدؓ کے بارے میں فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خالد سيف من سيوف الله ہیں۔ (2) حضرت عمرؓ نے ان کو معزول تو کر دیا تھا لیکن ان کے قلب میں پھر بھی ان کو اتنی عظمت تھی کہ اپنی وفات کے وقت کہنے لگے "لَوْ أَدْرَكْتُ خَالِدَ بنَ الوَلِيْدِ، ثُمَّ وَلَّيْتُهُ، فَقَدِمْتُ عَلَى رَبِّي، لَقُلْتُ: سَمِعْتُ عَبْدَكَ وَخَلِيْلَكَ يَقُوْلُ: (خَالِدٌ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ، سَلَّهُ اللهُ عَلَى المُشْرِكِيْنَ" (3) اگر اس وقت خالد بن الولید زندہ ہوتے اور میں ان کو خلیفہ بنا دیتا پھر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوتا تو عرض کرتا میں نے آپ کے بندے اور محبوب یعنی رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا وہ فرماتے تھے کہ خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں جس کو اللہ نے مشرکین کے لئے سونتا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک دن کہنے لگے مجھے اپنی زندگی کی وہ رات سب راتوں سے زیادہ محبوب اور عنداللہ مقبول معلوم ہوتی ہے جس میں سخت سردی تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی اور میں بارش سے بچنے کے لئے اپنی ڈھال کو (بطور چھتری کے) استعمال کرتا تھا اور صبح کو دشمن سے مقابلہ تھا۔ وفات ۲۱؁ھ میں حمص میں وفات ہوئی اگرچہ بعض مورخین نے مدینہ طیبہ میں وفات ذکر کی ہے۔ وفات کے وقت افسوس کے ساتھ کہنے لگے فلاں فلاں معرکوں میں شرکت کی اور زندگی بھر شہادت کی تلاش و جستجو میں رہا، جسم پر ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں ہے جہاں تلوار نیزے یا تیر کا زخم نہ ہو لیکن شہادت مقدر میں نہ تھی اور آج بستر پر موت آ رہی ہے۔ وفات سے کچھ پہلے فرمایا: "میرے مرنے کے بعد میرا گھوڑا اور میرے اسلحے وقف فی سبیل اللہ ہیں" اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کل ترکہ بس یہی تھا۔ (1)
Top