معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2113
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت عمرو بن العاص ؓ اسلام لانے سے پہلے ان کا شمار سرداران قریش میں ہوتا تھا نہایت جری اور ذہانت و فطانت میں ضرب المثل تھے۔ حضرت خالد بن الولیدؓ کے ساتھ مدینہ طیبہ حاضر ہو کر ۸ھ میں ایمان لائے ہیں۔لیکن خود اپنے ایمان لانے کا تذکرہ جس طرح کرتے ہیں اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ آنے سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے البتہ آپ کی خدمت میں حاضری اور بیعت علی الاسلام حضرت خالد کے ساتھ ہی ہوئی۔ (2) وہ اپنے اسلام لانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوہ خندق سے واپسی کے بعد مکہ آ کر میں نے خاندان قریش کے کچھ ایسے لوگوں کو جمع کیا جو مجھ سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور میرا احترام بھی کرتے تھے میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ اب تو بظاہر محمد (ﷺ) کے دین کا بول بالا ہی ہو کر رہے گا میری رائے یہ ہے کہ ہم لوگ ملک حبشہ چلے جائیں اور بادشاہ نجاشی کی حمایت میں رہیں اگر محمد (ﷺ) اہل مکہ پر غالب آ بھی جائیں گے تب بھی ہم وہاں محفوظ رہیں گے۔ محمد (ﷺ) کی ماتحتی میں رہنے کے مقابلہ میں نجاشی کی ما تحتی میں رہنا پسن ہے اور اگر اہل مکہ غالب آ گئے تو اہل مکہ میں ہمارا مقام تو معروف ہی ہے۔ میرے ساتھیوں نے میری تائید کی اور میں بہت سے ہدایا لے کر نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں میں نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو دیکھا جو رسول اللہ ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے نجاشی کے پاس آئے تھے میں نے نجاشی سے کہا یہ شخص ہمارے دشمن (محمد) کا قاصد ہے آپ اس کو ہمارے حوالہ کر دیں تا کہ ہم اس کو قتل کر دیں۔ نجاشی نے میری اس بات پر بہت ناگواری کا اظہار کیا اور کہا تم جانتے نہیں یہ شخص جس کا قاصد ہے وہ اسی طرح اللہ کا رسول ہے جس طرح حضرت موسیٰ اللہ کے رسول تھے۔ میں نے کہا کیا واقعی؟ نجاشی نے کہا تمہارا برا ہو تم میری اطاعت اور ان نبی (ﷺ) کی اتباع کرو واللہ وہ بالکل برحق ہیں اور واللہ وہ اپنے مخالفین پر ایسے ہی غالب آئیں گے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے لشکر پر غالب آ گئے تھے اس کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے نجاشی کے ہاتھ پر بیعت علی الاسلام کر لی وہیں سے اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر مدینہ کی راہ لی راستہ میں حضرت خالدؓ ملے ہیں اور ان کے ساتھ مدینہ طیبہ جا کر آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ہے اور اسلام کا اظہار کیا ہے۔ (1) صحیح مسلم کی روایت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرنے کی مزید تفصیل ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہاتھ بڑھائیے میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں جب آپ نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا آپ نے فرمایا عمرو کیا ہوا میں نے عرض کیا ایک شرط پر بیعت کرتا ہوں آپ نے فرمایا کیا شرط ہے میں نے عرض کیا میرے ماضی کے جملہ گناہ معاف ہونے چاہئیں آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ ایمان لانے سے ماضی کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (1) فضائل حضرت عمرو بن العاص ؓ بڑے بہادر نہایت ذہین و فطین اور میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے صحابی ہیں ان کے ایمان لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی ان صلاحیتوں کو خوب استعمال فرمایا ہے۔ خود فرماتے ہیں "مَا عَدَلَ بِي رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وبخالد مُنْذُ أَسْلَمْنَا أَحَداً مِنْ أَصْحَابِهِ فِي حَرْبِهِ " (2) یعنی میرے اور خالد کے ایمان لانے کے بعد میدان جنگ کے لئے آپ نے کسی کو بھی ہم دونوں کے مساوی نہیں سمجھا۔ انہیں آپ نے بڑے بڑے صحابہ کرام کی موجودگی میں لشکر کا امیر بنا کر بھیجا ہے غزوہ ذات السلاسل کے لئے جانے والے لشکر میں حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ بھی موجود ہیں لیکن امیر لشکر حضرت عمرو بن العاصؓ کو بنایا۔ (1) فتح مکہ کے معاً بعد آپ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کے ساتھ کچھ صحابہ کرام کو قبیلہ ہذیل کے بت سواع کو توڑنے کے لئے بھیجا۔ جب حضرت عمرو بن العاصؓ وہاں پہنچے تو اس کے مجاور نے کہا تم لوگ اس کو توڑ نہیں سکتے یہ خود اپنی حفاظت کرے گا۔ لیکن جب حضرت عمرو بن العاص ؓ وغیرہ نے اس کو توڑ دیا تو وہ مجاور اپنے معبود کی بےکسی دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ایمان لانے کی بڑی قدر کرتے تھے۔ فرماتے ہیں "اسلم الناس وامن عمرو بن العاص" (4) جس کا مطلب یہ ہے کہ عمرو بن العاص دل سے ایمان لانے والے ہیں ان کو بھی ایمان لانے کے بعد آپ ﷺ کی ذات سے غیر معمولی محبت اور تعلق ہو گیا تھا۔ صحیح مسلم کی وہ روایت جس کا کچھ حصہ ابھی گزرا ہے اسی میں یہ بھی مذکور ہے کہ "مَا كان أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ من رسول الله صلى الله عليه ولم ولا اجل فى عينى منه وما كنت اطيق ان املا عينى منه اجلا لا له ولو سئلت ان اصفه اطقت لانى لم اكن املا عينى منه" یعنی ایمان لانے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی کہ میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب و محترم نہ تھا اور میرے دل میں آپ کی عظمت و جلالت کا یہ حال تھا کہ میں نظر بھر کر آپ ﷺ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کو کہے تو میں آپ کا حلیہ بھی بیان نہ کر سکوں گا اس لئے کہ میں کبھی آپ کو نظر بھر کر دیکھ یہ نہ سکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ بھی ان کی اس محبت کا اعتراف فرماتے تھے ایک بار آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا۔ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى عَمْرِو بنِ العَاصِ، فَإِنَّهُ يُحِبُّكَ وَيُحِبُّ رَسُوْلَكَ" (5) الٰہی عمرو بن العاص پر رحمتیں نازل فرمائیے اس لئے کہ وہ آپ سے اور آپ کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ ایک بار آپ نے ان کے لئے تین بار يرحم الله عمروا (اللہ عمرو بن العاص پر رحم فرمائے) دعا فرمائی، کسی صحابی نے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو فرمایا وہ اللہ کے راستہ میں بےدریغ خرچ کرتے ہیں۔ (1) جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا۔ "عمرو بن العاص من صالحى قريش" (2) (عمرو بن العاص قریش کے بہترین لوگوں میں سے ہیں) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ان کو اطلاع کرائی کہ کپڑے پہن کر اور ہتھیار لگا کر (یعنی جہاد کے لئے تیار ہو کر) چلے آؤ۔ جب وہ آ گئے تو آپ نے ان سے فرمایا میں کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں جہاں سے ان شاء اللہ تم سالماً غانماً واپس آؤ گے۔ وہ کہتے ہیںٰ کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں مال کی خاطر اسلام نہیں لایا۔ میرا مقصود تو اسلام ہی ہے آپ نے فرمایا "نعم المال الصالح للرجل الصالح" (اللہ کے نیک بندہ کے لئے پاک مال بہترین چیز ہے، (3) وفات ۴۳؁ھ میں عید کی رات میں مصر میں وفات پائی اور عید الفطر کے دن دفن کئے گئے آپ کے صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ عابد، زاہد، شب بیدار، بکثرت روزے رکھنے والے اور بہت زیادہ تلاوت کرنے والے، علم کے گویا صحابی بن صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ اپنے والد حضرت عمرو بن العاصؓ سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ وہ اپنے والد کے سب سے بڑے بیٹے ہیں ان کی پیدائش کے وقت عمر بن العاص کی عمر زیادہ سے زیادہ اکیس سال ذکر کی جاتی ہے۔ (4) فضائل حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بڑے اصحاب الفضائل صحابہ کرامؓ میں شمار ہوتے ہیں۔ نہایت عابد و زاہد اور شب بیدار تھے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے حوالہ سے ان کی ان صفات کا تذکرہ پڑھئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے میری شادی ایک شریف خاندان کی لڑکی سے کر دی تھی وہ اپنی بہو کا بہت خیال کرتے اور میرے طرز عمل کے بارے میں اس سے دریافت کرتے رہتے تھے ان کے سوال کے جواب میں ایک دن میری بیوی نے کہا میرے شوہر بہت نیک، متقی، پرہیزگار آدمی ہیں لیکن مجھ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ والد صاحب نے آپ کا فرمان مجھ تک پہنچا دیا۔ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو فرمایا روزے رکھنے کا تمہار معمول کیا ہے۔ میں نے عرض کیا روزانہ روزہ رکھتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا ختم قرآن کے سلسلہ میں کیا معمول ہے؟ میں نے عرض کیا ہر رات ایک قرآن ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ میں صرف تین روزے رکھا کرو اور ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہر ہفتہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو ایسا کرو کہ دو دن چھوڑ کر ایک روزہ رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ روزتے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا روزے رکھنے میں سب سے بہتر طریقہ حضرت داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے یعنی ایک دن افطار ایک دن روزہ۔ تم بھی ایسا ہی کیا کرو اور قرآن مجید کا ایک ختم سات راتوں میں کیا کرو۔ اس روایت سے ان کے روزوں اور تلاوت قرآن کا حال معلوم ہوا، روایت کے آخری حصہ میں یہ بھی ہے کہ بڑھاپے تک ان کا معمول یہی رہا بلکہ بڑھاپے میں قرآن مجید کا جو ساتواں حصہ رات کو پڑھنا ہوتا تھا وہ دن میں بھی گھر کے کسی فرد کو سنا لیا کرتے تھے تا کہ رات کو پڑھنے میں سہولت ہو اور روزوں کے معمول میں اگر کبھی خلل پڑھ جایا کرتا تھا تو اس کا حساب رکھتے تھے اور بعد میں اس کی تلافی کر لیا کرتے تھے۔ (1) وہ رات کو اپنا کمرہ اندر سے بند کر لیتے، چراغ کل کر دیتے اور ساری رات اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے رہتے تھے روتے روتے ان کی آنکھیں ورم کر آتیں تھیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ سے بکثرت روایات نقل کی ہیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں آپ ﷺ کی اجازت سے روایات لکھ لیا کرتے تھے، انہوں نے احادیث کا ایک مجموعہ جس کا نام خود ہی صادقہ رکھا تھا تیار کر لیا تھا۔ اسی مجموعہ احادیث (صادقہ) کی روایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ابو داؤد و ترمذی، نسائی وغیرہم نے نقل کی ہیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد سات سو ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اکابر صحابہ کرامؓ سے بھی روایت کرتے ہیں، ان کے شاگردوں میں بہت سارے جلیل القدر تابعین ہیں ان کے اور ان کے والدین کے متعلق ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "نعم اهل البيت عبدالله وابو عبدالله وام عبدالله" یعنی عبداللہ، ان کے والد اور ان کی والدہ یہ سب اہل بیت کیا کیا ہی خوب اہل بیت ہیں۔ (4) وفات ۶۵؁ھ میں مصر میں وفات پائی اور وہیں دفن کئے گئے۔ (5) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حزام ؓ حضرت عبداللہ بن عمرو مشہور صحابی حضرت جابرؓ کے والد ہیں رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے سے پہلے ہی آپ کی خدمت میں مکہ معظمہ حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان کو اپنے قبیلہ کا نقیب بنا کر مدینہ طیبہ واپس کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد حضرت عبداللہ غزوہ بدر و احد دونوں میں شریک ہوئے ہیں اور غزوہ احد ہی میں شہید ہو گئے۔ (1) ان کو غزوہ احد میں اپنی شہادت سے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا اسی لئے انہوں نے اپنے بیٹے حضرت جابرؓ سے فرمایا میرا خیال ہے کہ میں کل سب سے پہلے شہید ہونے والے لوگوں میں ہوں گا تم میرے بعد اپنی بہنوں کا خیال رکھنا اور میرے ذمہ جو قرض ہے اس کی ادائیگی کر دینا۔ (2) فضائل وہ بڑے صاحب فضیلت صحابی ہیں مکہ جا کر اسلام لائے اور پھر مدینہ طیبہ میں آپ کے ساتھ غزوہ بدر واحد میں شریک ہوئے۔ غزوہ احد میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ مشرکین نے ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے اعضاء جسم کاٹ کر مثلہ کر دیا تھا۔ ان کے بیٹے حضرت جابر ابھی بالکل نوعمر ہی تھے ان پر اور ان کی پھوپھی یعنی حضرت عبداللہ کی بہن فاطمہ بنت حزام پر اس حادثہ کا بہت اثر تھا جس کی وجہ سے یہ دونوں بہت زیادہ رو رہے تھے۔ آپ نے ان دونوں کی تسلی کے لئے فرمایا کہ عبدالہ بن عمرو کی شہادت کے بعد سے اللہ کے مقرب فرشتے مسلسل ان پر سایہ کئے ہوئے ہیں۔ (3) حضرت جابر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد حضرت عبداللہ کو اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کرنے کے لئے میدان احد سے مدینہ طیبہ لے آئے تھے آپ نے ان کے جنازہ کو مدینہ سے میدان احد منگوا لیا، اور پھر وہ وہیں دیگر شہدائے احد کے ساتھ دفن کئے گئے۔ (4) غزوہ احد میں شہداء کی تعداد زیادہ تھی۔ جو لوگ زندہ بچ رہے تھے ان میں بھی خاصی تعداد زخمیوں کی تھی۔ خود رسول اللہ ﷺ بھی زخمی تھے۔ اس لئے آپ نے ایک قبر میں دو دو، تین تین شہداء کو دفن کرنے کی اجازت دے دی تھی اور جو شخص ان میں قرآن کا زیادہ حافظ و عالم ہوتا اس کو مقدم الی القبلہ رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو بھی ایک یا دو شہیدوں کی ساتھ دفن کیا اور ان کو مقدم رکھا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ایک دن رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی سے بھی بالمشافہ تکلم نہیں فرماتا ہے لیکن تمہارے والد سے بالمشافہ گفتگو فرمائی ہے اور اللہ نے ان سے یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے بندے جو چاہو مانگو میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا۔ اس پر تمہارے والد نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے رب مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیجئے تا کہ دوبارہ پھر آپ کے راستہ میں شہادت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میری جانب سے یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا۔ (1) امام مالکؒ نے اپنی کتاب مؤطا میں ایک عجیب و غریب واقعہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی قبر کے متعلق ذکر کیا ہے۔ کہ حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمروؓ بن جموح کی قبروں کو پانی کے بہاؤ نے کھول دیا تھا لوگوں نے ان دونوں صحابہ کرامؓ کی مبارک نعشوں کو وہاں سے منتقل کرنے کے لئے ان کی قبروں کو کھودا تو دیکھا کہ دونوں کے جسم بالکل صحیح سلامت اور ترو تازہ ہیں جیسے کل ہی انتقال ہوا ہے۔ حالانکہ ان حضراتؓ کی شہادت کو چھیالیس سال ہو چکے تھے۔ (2) موطا امام مالک میں تو یہ واقعہ غزوہ احد کے چھیالیس سال بعد کا ذکر کیا گیا ہے ..... صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد کو یوم احد میں مجبوراً ایک اور صحابی کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگتی تھی میں نے شہادت کے چھ ماہ کے بعد ان کی اس قبر سے نکال کر دوسری قبر میں دفن کر دیا اور ان کا جسم مبارک بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ دفن کیا گیا تھا۔ (3) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے ساتھ دوبارہ ایسا واقعہ پیش آیا۔ پہلی بار شہادت کے چھ ماہ کے بعد اور دوسری بار شہادت کے چھیالیس سال بعد۔ اس طرح کا واقعہ بعض دوسرے شہداء کرامؓ کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔
Top