معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2114
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت جابر بن عبداللہ بن عمرو ؓ مدینہ طیبہ کے رہنے والے ہیں اور خاندان خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن ہی میں اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے ساتھ جن کا تذکرہ ابھی گذرا ہے مکہ معظمہ جا کر مشرف باسلام ہوئے ہیں۔ جب آپ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لے آئے تو اس وقت سے آپ سے قریبی تعلق رہا ہے لیکن چونکہ کم عمر بھی تھے اور اپنے والد کے اکلوتے بیٹے اور نو بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اس لئے غزوہ بدر و احد میں شریک نہ ہو سکے۔ اس کے بعد مستقل غزوات میں شریک رہے ہیں۔ فضائل حضرت جابرؓ باعتبار عمر اگرچہ اکابر صحابہ کرامؓ کی صف میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے علم و فضل کے اعتبار سے ان کا شمار جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے وہ جس طرح غزوات میں بکثرت شریک ہونے والے ہیں اسی طرح مکثرین فی الحدیث صحابہ کرام میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد انیس غزوات میں شرکت کی ہے۔ غزوہ بدر و احد میں شریک نہیں ہو سکا تھا اس لئے کہ والد صاحب خود جاتے تھے۔ا ور جھے منع کرتے تھے لیکن جب غزوہ احد میں والد صاحب شہید ہو گئے تو پھر کسی بھی غزوہ میں، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہونے سے محروم نہیں رہا۔ (1) وہ مکثرین فی الحدیث بھی ہیں ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۱۵۴۰ ہے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اکابر صحابہ کرامؓ سے بھی روایات نقل کرتے ہیں۔ اور اسی طرح بہت سے اکابر صحابہؓ اور بڑی تعداد میں تابعینؒ کرام بھی ان سے احادیث کی روایت کرنے والے شامل ہیں۔ (2) چونکہ ان کے والد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور انہو نے نو عمر لڑکیاں چھوڑی تھیں اور صاحبزادہ صرف جابرؓ ہی تھے اور وہ بھی بہت نو عمر ہی تھے۔ نیز ان کے ذمہ کافی قرض بھی تھا جو حضرت جابرؓ ہی کو ادا کرنا تھا۔ اس لئے آپ حضرت جابرؓ کے ساتھ بڑا محبت و شفقت کا معاملہ کرتے تھے اور ان کی بہت فکر رکھتے تھے۔ جب حضرت جابرؓ کی شادی ہوئی تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کسی کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ یا مطلقہ سے انہوں نے عرض کیا کہ وہ کنواری تو نہیں ہیں۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی۔ حضرت جابر کا جواب ان کی نو عمری کے باوجود بڑا سمجھداری کا جواب تھا اور اسی جواب کو ذکر کرنے کے لئے یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا اے اللہ کے رسول والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور انہوں نے نو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ میں نے سن رسیدہ عورت سے اس لئے شادی کی ہے کہ وہ میری بہنوں کی دیکھ بھال کر سکے۔ (3) ان کی اسی خستہ حالی کی وجہ سے آپ ان کے ساتھ مختلف صورتوں سے داد و دہش کا معاملہ کرتے رہتے تھے۔ ایک بار سفر سے واپسی میں آپ نے ان کا اونٹ خریدا اور جب وہ اپنے اونٹ سے اترنے لگے تو آپ نے ان کو اترنے سے منع فرما دیا اور مدینہ طیبہ آ کر اونٹ بھی ان کو دے دیا۔ اور اس کی قیمت بھی سفر کی اسی رات کے متعلق جس میں آپ نے ان کا اونٹ خریدا تھا حضرت جابر فرمایا کرتے تھے آپ نے اس رات میرے لئے پچیس بار دعائے مغفرت فرمائی تھی۔ (4) رسول اللہ ﷺ کی احادیث سننے اور روایت کرنے کا جو شوق بچپن میں شروع ہوا تھا بڑھاپے تک باقی رہا۔ وہ احادیث کی تحصیل کے لئے دور دراز کا سفر کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعض احادیث جو کسی مکہ صحابہ کے علم میں تھیں ان کی تحصیل کے لئے مکہ کا سفر کیا۔ ایک بار تو صرف ایک حدیث حاصل کرنے کے لئے مدینہ طیبہ سے مصر تشریف لے گئے۔ (5) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مسجد نبوی میں حضرت جابرؓ کا ایک بڑا حلقہ درس قائم ہوتا تھا جس میں بڑی تعداد میں طلبہ علم حدیث میں شریک ہو کر فیضیاب ہوتے تھے۔ (6) وفات حضرت جابر نے کاصی طویل عمر پائی۔ ان کی وفات ۷۸ھ میں ہوئی ہے۔ وہ ان صحابہ کرامؓ میں جو مدینہ سے مکہ آ کر اسلام لائے اور آپ سے عقبہ (جو منیٰ کا ایک حصہ ہے) میں بیعت کی۔ سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ہیں۔ حضرت زید بن ثابت ؓ حضرت زید بن ثابت ؓ، مدینہ طیبہ ہی کے رہنے والے ہیں قبیلہ خزرج سے تعلق ہے رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے وقت وہ بہت ہی کم عمر تھے۔ ان کی عمر اس وقت صرف گیارہ سال تھی۔ لیکن پہلے ہی سے مسلمان ہو چکے تھے اور قرآ مجید کی سترہ سورتیں بھی حفظ کر چکے تھے۔ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے ہیں تو لوگوں نے ان کو آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا اس بچہ کو قرآن مجیدک کی سترہ سورتیں یاد ہیں۔ آپ نے ان سے وہ سورتیں سنیں اور اس کم عمری میں ان کے ان سورتوں کو حفظ کر لینے پر تعجب کا اظہار فرمایا۔ فضائل وہ اگرچہ صحابہ کرام میں کم عمر صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے علم و فضل کی وجہ سے خصوصاً قرآن سے خصوصی تعلق کی بناء پر ان کا شمار اہل علم و اصحاب فتویٰ صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ وہ نہایت ذہین اور قوی الحفظ تھے، جیسا کہ ابھی گزرا انہوں نے بالکل بچپن ہی میں قرآن مجید کی سترہ سورتیں یاد کر لی تھیں، حالانکہ اس وقت تک رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ بھی تشریف نہیں لائے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی ذہانت اور قوت حفظ ہی کی وجہ سے سریانی زبان سیکھنے کے لئے ان کا انتخاب فرمایا تھا۔ مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو قرب و جوار کے یہودیوں سے خط وکتابت کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ ان لوگوں کی خط و کتابت کی زبان ریانی تھی اگر آپ کو خط لکھنا ہوتا تو کسی یہودی سے لکھواتے اور اگر یہود کا خط آپ کے پاس آتا تو اس کو پڑھوانے کے لئے بھی کسی یہودی کی ضرورت پڑتی، آپ کو مدینہ کے یہود پر اعتماد نہ تھا کہ وہ خط لکھنے اور پڑھنے میں دیانت داری سے کام لیں گے اس لئے آپ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے فرمایا تم یہود کی زبان سریانی لکھنا پڑھنا سیکھ لو۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے صرف سترہ دن میں ہی سریانی کے لکھنے اور پڑھنے پر عبور حاصل کر لیا اور پھر رسول اللہ ﷺ نے خط وکتابت کی ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔ (1) جن صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ان میں حضرت زید بن ثابتؓ بھی ہیں حضرت انس فرماتے ہیں جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ أُبَيٌّ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَبُو زَيْدٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ (2) یعنی رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں چار صحابہ کرام نے جو سب انصاری صحابہ تھے قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، ان کے نام ابی بن کعبؓ، معاذ بن جبلؓ، ابو زیدؓ اور زید بن ثابتؓ ہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ، کے زمانہ میں مسلمانوں کا ایک لشکر یمن کے علاقہ یمامہ میں مسیلمہ کذاب سے جہاد کے لئے گیا تھا، اس لشکر کو اگرچہ فتح حاصل ہو گئی تھی اور مسیلمہ کذاب مارا گیا تھا لیکن مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی تھی۔ جن میں بہت سے قرآن مجید کے حافظ بھی شامل تھے، اس واقعہ سے متاثر ہو کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے درخواست کی تھی کہ اسی طرح اگر حفاظ شہید ہوتے رہے تو خطرہ ہے کہ کہیں قرآن مجید ہی لوگوں کے درمیان باقی نہ رہے۔ اس لئے آپ قرآن مجید کی کتاب کا اہتمام کرا دیں (اس وقت تک الگ الگ سورتیں تو صحابہ کرامؓ کے پاس لکھی ہوئی تھیں لیکن پورا قرآن یکجا مصحف کی شکل میں لکھا ہوا نہ تھا۔) حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا میں کیسے کر سکتا ہوں۔ کافی افہام و تفہیم کے بعد بالآخر حضرت ابو بکرؓ قرآن کو یکجا لکھوانے اور جمع کرانے کے تیار ہو گئے۔ اس کام کے لئے دونوں بزرگوں کی نگاہ انتخاب حضرت زید بن ثابتؓ پر پڑی۔ ان کو بلوایا گیا اور حضرت ابو بکرؓ نے اپنا مدعا ان کے سامنے رکھا، اور فرمایا "إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ وَاجْمَعْهُ" تم ایک عاقل نوجوان ہو اس کام کے لئے ہم لوگوں کو تم پر پورا اعتماد ہے۔ پھر تم تو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی کاتب وحی رہے ہو، لہذا قرآن کو تلاش کر کر کے ایک جگہ جمع کر لو حضرت زیدؓ کو بھی وہی اشکال ہوا جو حضرت ابو بکرؓ کو ہوا تھا، کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ کام آپ دونوں حضرات کیسے کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حضرات شیخین نے ان کو سمجھایا۔ بالآخر وہ اس کام کے لئے راضی ہو گئے اور صحابہ کرامؓ سے مختلف سورتیں جمع کر کے پورا مصحف یکجا لکھ کر تیار کر دیا۔ (1) وہ خود بھی حافظ قرآن تھے اور ان کے علاوہ بھی بعض صحابہ کرامؓ پورے قرآن کے حافظ تھے۔ الگ الگ سورتیں تو بہت سے صحابہ کرامؓ کو یاد تھیں، لیکن وہ ہر جگہ سے لکھی ہوئی سورتیں جمع کر رہے تھے۔ وہ علم فرائض یعنی ترکہ کی تقسیم کے مسائل و احکام سے بھی بہت واقف تھے رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا۔ "افرض امتى زيد بن ثابت" (2) میری امت میں علم فرائض سے سب سے زیادہ واقف زید بن ثابتؓ ہیں۔ غزوہ تبوک میں قبیلہ بنو نجار کا جھنڈا حضرت عمادہ بن حزمؓ کے ہاتھ میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ ان سے لے کر حضرت زید بن ثابتؓ کو دے دیا۔ حضرت عمارہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے بارے میں کوئی شکایت آپ کو پہنچی ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہے بلکہ زید بن ثابتؓ کو جھنڈا دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن کے حافظ ہیں، صحابہ کرام بھی ان کے علمی مقام کی بہت معترف تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ اپنے زمانہ خلافت میں ان کو اپنے پاس مدینہ طیبہ ہی میں رکھتے تھے۔ کہیں نہ جانے دیتے تھے، وہ ان کی موجودگی میں مدینہ طیبہ میں فتویٰ دیتے تھے۔ (3) ان کی وفات پر صحابہ کرامؓ نے جو کچھ ان کے بارے میں کہا اس سے صحابہ کرامؓ کی نظر میں ان کی بلند مقامی اور قدر و منزلت کا پتہ چلتا ہے حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں "مات حبر الامة" آج اس امت کا ایک بڑا عالم وفات پا گیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا "دفن اليوم علم كثير" آج بڑا علم دفن ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے دل میں ان کا مقام کتنا بلند تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ ایک دن حضرت زید بن ثابتؓ گھوڑے پر سوار ہو رہے تھے ابن عباسؓ وہاں موجود تھے انہوں نے فوراً ان کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی۔ حضرت زید نے کہا آپ رسول اللہ ﷺ کے ابن العم ہیں، میرے لیے نہایت محترم ہیں، آپ یہ کیا کر رہے ہیں ابن عباسؓ نے کہا ہم اپنے علماء کا اسی طرح اکرام کرتے ہیں۔ اور بھی بعض صحابہ کرامؓ سے اسی طرح کے اقوال ان کے بارے میں مروی ہیں حضرت عمرؓ نے تو کئی بار اپنے حج یا عمرہ کے سفر کے موقع پر ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ (1) ان کی وفات پر حضرت حسانؓ نے جو مرثیہ کہا تھا اس کا ایک شعر یہ تھا۔ ؎ ومن اللقوا فى بعد حسان وابنهومن للمعانى بعد زيد بن ثابت "حسان اور ان کے بیٹے کے بعد شعر و شاعری کون کرے گا اور زید بن ثابتؓ کے بعد قرآن و حدیث کے معانی کا سمجھنے والا کون رہ گیا ہے"۔ وفات اکثر مؤرخین کے نزدیک وفات ۴۵؁ھ میں ہوئی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ حضرت جریر بن عبداللہ کا تعلق قبیلہ انمار سے ہے۔ یہ قبیلہ نجد کے علاقہ کا ہے۔ والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا بجیلہ ہے۔ والدہ کی نسبت ہی سے بجلی کہلاتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ۱۰ھ میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے ہیں۔ (2) فضائل حضرت جریرؓ اگرچہ بہت تاخیر سے اسلام لائے لیکن ان کا شمار اعیان صحابہ میں ہوتا ہے یہ اپنی قوم کے سردار تھے ان کے مدینہ طیبہ حاضر ہونے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ نے ان کی آمد کی اطلاع دے دی تھی ان کے ایمان لانے کے واقعہ سے بھی ان کی عظمت اور جلالت کا پتہ چلتا ہے جس وقت مسجد نبوی میں حاضر ہوئے ہیں اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے اور مسجد بھری ہوئی تھی ان کو بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں ملی رسول اللہ ﷺ نے ا کے لئے اپنی چادر مبارک جس کو آپ زیب تن فرمائے ہوئے تھے بچھا دی اور فرمایا اس پر بیٹھو انہوں نے وہ چادر اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لی اور عرض کیا اكرمك الله كما اكرمتنى يا رسول الله (یا رسول اللہ، اللہ آپ کو بھی ایسے ہی اکرام و اعزاز سے نوازے جیسے کہ آپ نے مجھے اکرام و اعزاز سے نوازا ہے) آپ نے ان سے اس چادر پر بیٹھنے کے لئے اصرار فرمایا اور یہ بھی ارشاد فرمایا اشهد انك لا تبغى علوا فى الارض ولا فسادا یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ تم زمین میں برتری کے طالب ہو اور نہ فساد کرنا چاہتے ہو۔ اسی مجلس میں حضرت جریرؓ اسلام لے آئے۔ اس واقعہ کی بعض روایات میں یہ بھی ذکر ہے صحابہ کرامؓ نے آپ کے اس غیر معمولی اکرام کے متعلق آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا (1) یعنی کسی قوم کا سردار اگر تمہارے پاس آئے تو اس کا اکرام کرنا چاہئے۔ بعد میں بھی رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل ان کے اکرام و اعزاز ہی کا رہا ہے۔ خود حضرت جریرؓ فرماتے ہیں مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ (2) یعنی اسلام لانے کے بعد جب بھی میں حاضر خدمت ہوتا اور آپ سے اندر حاضر ہونے کی اجازت چاہتا آپ ہمیچہ مجھے اندر آنے کی اجازت دے دیتے اور ہمیشہ مجھے دیکھ کر تبسم فرماتے زمانہ جاہلیت میں اہل یمن نے اپنے یہاں ایک نقلی کعبہ بنا لیا تھا۔ جس کا نام ذو الخلصہ تھا اس کو وہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے۔ اس میں کچھ بت رکھ چھوڑے تھے جن کی پوجا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک میں اس کی طرف سے مسلسل خلش رہتی تھی۔ آپ ﷺ نے حضرت جریرؓ سے فرمایا تم اس جھوٹے اور نقلی کعبہ کو منہدم کر دو تو میرے دل کو سکون ہو جائے۔ حضرت جریرؓ فرماتے ہیں میں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں ایک سو پچاس طاقتور شہ سواروں کو لے کر یمن کے سفر کا ارادہ کر لیا لیکن میرا حال یہ تھا کہ میں گھوڑے سواری سے واقف نہ تھا اور گھوڑے پر سے گر جایا کرتا تھا میں نے اپنا یہ حال آپ سے عرض کر دیا۔ آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا اور دعا کی اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ، وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا (3) اے اللہ جریرؓ کو گھوڑے کی کمر پر جما دیجئے اور ان کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دیجئے۔ حضرت جریرؓ فرماتے ہیں کہ اس دعا کی برکت سے میں ایسا شہ سوار ہو گیا کہ پھر کبھی بھی گھوڑے سے نہیں گرا۔ اور پھر میں نے اور میرے ساتھیوں نے جا کر اس ذوالخلصہ یعنی نقلی کعبہ کو منہدم کر دیا اور اس میں آگ لگا کر اس کو خاک کر دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو میری کامیابی کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے میرے لئے اور میرے ساتھیوں کے لئے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔ (4) حضرت جریرؓ حجۃ الوداع میں بھی آپ کی ساتھ شریک ہوئے ہیں اور آپ ﷺ نے ان سے خطبہ کے وقت فرمایا تھا کہ لوگوں کو خاموش کر دو۔ (5) حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ان کو عراق کی جنگوں میں شرکت کے لئے بھیج دیا تھا۔ا نہوں نے ان جنگوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ فتح قادسیہ میں بھی ان کو بڑا دخل تھا۔ ان جنگوں سے فارغ ہو کر وہ کوفہ میں ہی قیام پذیر ہو گئے تھے۔ (6) اور وہیں ان کی وفات ہوئی ہے۔ حضرت جریرؓ کو اہل مدینہ خصوصاً انصاری صحابہ کرامؓ سے بڑی محبت تھی، حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں میں حضرت جریرؓ کے ساتھ تھا وہ راستہ میں میری خدمت کرتے تھے میرے منع کرنے پر فرمانے لگے ہیں میں نے حضرات انصار صحابہ کرامؓ کا جو طرز عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دیکھا ہے اس کے بعد سے میں نے قسم کھا لی ہے کہ جب بھی مجھے کسی انصاری صحابی کی صحبت کا موقع نصیب ہو گا میں ان کی خدمت ضرور کروں گا۔ صحیح مسلم میں اس روایت کے راوی محمد بن المثنیؓ اور محمد بن بشارؒ نے روایت نقل کرنے کے بعد یہ بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت جریرؓ حضرت انسؓ سے عمر میں بڑے تھے۔ (1) باطنی کمالات کے ساتھ اللہ نے حسن ظاہری سے بھی بہت نوازا تھا۔ وہ انتہائی حسین و جمیل تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ ان کو يوسف هذه الامة کہتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ وہ اس امت میں حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح حسین و جمیل ہیں۔ (2)
Top