معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2115
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت حسان بن ثابت ؓ حضرت حسانؓ مدنی خزرجی صحابی ہیں۔ ان کے والد کا نام ثابت اور والدہ کا نام فریعہ ہے۔ حضرت فریعہ بھی صحابیہ ہیں۔ عربی کے بہت بلند پایہ شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اپنے قبیلہ کے شاعر تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کی شاعری کا موضوع رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور دین اسلام کا دفاع ہو گیا تھا۔ اسی لئے ان کا لقب شید شعراء المومنین اور شاعر رسول اللہ ﷺ ہو گیا تھا۔ (3) فضائل جیسا کہ ابھی گذرا، انہوں نے اپنی شاعری کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے دفاع کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ان کے اشعار میں نیزوں اور تیروں سے زیادہ چبھن اور تلوار سے زیادہ کاٹ ہوتی تھی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے دفاع اور مشرکین مکہ کے ہجو کے جواب میں ایسے تیز و تند اور سریع التاثیر اشعار کہتے تھے جن کی تیزی اور قوت تاثیر سے مشرکین بلبلا جاتے تھے صحیح مسلم کی ایک روایت میں خود انہوں نے اپنے اشعار کی اس تاثیر کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيمِ (4) اے اللہ کے رسول میں اس اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ میں اپنی زبان (یعنی اشعار) سے ان کی کھال پھاڑ دوں گا۔ رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں حضرت حسانؓ کے لئے منبر رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر آپ کی موجودگی میں اشعار پڑھتے تھے اور آپ ان سے فرماتے جاتے یا حسان اجب عن رسول اللہ ﷺ، اے حسان اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے تم جواب دہی کرو اور یہ دعا بھی کرتے اللهم ايده بروح القدس اے اللہ جبرائیل کے ذریعہ ان کی مدد فرما۔ اس دعا میں بذریعہ جبرائیل جس مدد کی درخواست کی گئی ہے اس سے بظاہر اشعار کے ورود اور الہام کی مدد مراد ہو گی۔ جامع ترمذی کی ایک روایت میں اس دعا کی مقبولیت کے بارے میں آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ جبتک حسانؓ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنے اشعار کے ذریعہ دفاع کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ جبرائیل کے ذریعہ ان کی مدد بھی کرتا رہتا ہے روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ إِنَّ اللهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوْحِ القُدُسِ مَا يفاخرا وينافح عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (1) ایک مرتبہ حضرت حسان مسجد نبوی میں شعر پڑھ رہے تھے حضرت عمر کا گزر ہوا اور انہوں نے حضرت حسانؓ کی جانب ذرا گھور کر دیکھا حضرت حسان نے کہا آپ گھور کیا رہے ہیں۔ میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں مسجد مین شعر پڑھا کرتا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو اگرچہ حضرت حسانؓ سے ایک شکایت تھی کہ وہ فتنہ افک میں شریک ہو گئے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دفاع کرنے کی وجہ سے وہ ان کی بڑی قدر کرتی تھیں ان کے آنے پر ان کے بیٹھنے کے لئے گدّا ڈلواتی تھیں۔ ایک بار وہ آئے اور ام المومنین نے اسی طرح ان کا اکرام کیا اور بیٹھنے کے لئے گدّے کا اہتمام کیا تو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ نے کہا آپ ان کو گدّے پر بٹھاتی ہیں حالانکہ انہوں نے جو کیا تھا وہ آپ کے علم میں ہے۔ ام المؤمنین نے فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مشرکین کی ہجو کے جواب دیتے تھے اور آپ کے قلب مبارک کو سکون پہنچانے کا سامان کرتے تھے۔ اب یہ نابینا بھی ہو گئے تھے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی غلطی کو معاف فرما دے گا اور آخرت میں بھی عذاب میں مبتلا نہ فرمائے گا۔ (2) ان کا شمار فن شاعری میں بہت بلند مقام شعراء میں ہوتا ہے اور ان کے اشعار اسلامی عہد کی شاعری میں بہت معیاری اشعار سمجھے جاتے ہیں۔ کچھ اشعار اور ان کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ قصہ یہ ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی حضرت ابو سفیان بن الحارثؓ عبدالمطلب جو بہت دیر میں مسلمان ہوئے ہیں اپنے کفر کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتے اور آپ کی شان میں گستاخی کرتے تھے، حضرت حسانؓ نے اپنے اشعار میں ان کو ہجو کا جواب دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں ایک بہترین قصیدہ بھی کہہ دیا ہے۔ ان اشعار میں یہ بھی ذکر ہے کہ تم، آپ ﷺ کے خاندان کے ہوتے ہوئے آپ کی ہجو کرتے ہو اور میں غیر ہوتے ہوئے دفاع کر رہا ہوں۔ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ ... وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ "تم حضرت محمد ﷺ کی ہجو کرتے ہو میں آپ کی طرف سے اس کا جواب دیتا ہوں اور مجھے اللہ کے یہاں اس کا اجر ملے گا"۔ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيفًا ... رَسُولَ اللهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ "تم نے محمد ﷺ کی ہجو کی جو بہت ہی وسیع الخیر اور متقی پرہیز گار، اللہ کے رسول ہیں۔ جن کی عادت ہی وفاداری ہے"۔ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي ... لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ "میرے ماں باپ، میری عزت و آبرو تمہارے محمد (ﷺ) پر قربان "۔ صحیح مسلم میں مزید اشعار ہیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ کے دیوان میں آپ کی مدح توصیف کا ایسا بیش بہا خزانہ ہے جو شاید ہی کسی شاعر کے یہاں ہو گا۔ حضرت ابو سفیان ؓ حضرت ابو سفیان کا نام صخر بن حرب ہے لیکن اپنی کنیت ابو سفیان کے ساتھ مشہور ہیں، ان کی ایک کنیت ابو حنظلہ بھی تھی۔ قریش کے سرداروں اور مکہ کے ذہین ترین اور بااثر لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے قرابت کے باوجود ایمان لانے میں بہت تاخیر کی، غزوہ بدر میں قریش کے بڑے بڑے سردار تہہ تیغ کر دئیے گئے تھے، اس لئے غزوہ احد اور غزوہ خندق میں انہوں نے ہی مشرکین مکہ کے لشکروں کی قیادت کی۔ فتح مکہ سے ایک دن پہلے جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ بالکل مکہ کے قریب تشریف فرما تھے تو حاضر خدمت ہوئے اور اسی وقت یا پھر دوسرے دن (فتح مکہ کے دن) ایمان لائے ہیں۔ (1) فضائل حضرت ابو سفیانؓ نے اپنے کفر کے زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کی خوب خوب مخالفت کی تھی لیکن اسلام لانے کے بعد اسلام کی حمایت بھی غیر معمولی قربانیاں دے کر اس کی تلافی کر دی، ویسے بھی آپ کا فرمان ہے "الاسلام يهدم ما كان قبله" یعنی اسلام لانے کے بعد ماضی کے سارے گناہ اور قصور معاف ہو جاتے ہیں کفر کے زمانہ میں بھی انہوں نے ابو جہل اور ابو لہب کی طرح رسول اللہ ﷺ اور عام مسلمانوں کو تکلیفیں نہیں پہنچائیں تھیں، ایمان لانے کے معاً بعد غزوہ حنین اور غزوہ طائف میں شرکت کی ہے، غزوہ طائف میں تو ان کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا تم چاہو تو میں اللہ سے تمہاری آنکھ کی صحت کی دعا کر دوں، اللہ تعالیٰ اس کو ٹھیک کر دے گا۔ ورنہ اس کے بدلے میں اللہ تم کو جنت عطا فرمائے گا، حضرت ابو سفیانؓ نے عرض کیا مجھے جنت چاہئے اور آنکھ کی تکلیف اور اس کے ضائع ہونے کو برداشت کر لیا۔ ان کی دوسری آنکھ بھی اللہ کے راستے میں کام آ گئی تھی اپنے بیٹے حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ کی قیادت میں مصروف جہاد تھے اور بآواز بلند دعا کر رہے تھے يا نصر الله اقترب، اے نصرت خداوندی قریب آ جا، اور پوری طرح نابینا ہو جانے کے باوجود مسلمانوں کو ثابت قدم رہنے اور جم کر دشمنوں کے مقابلہ کرنے کی تلقین و نصیحت کر رہے تھے۔ (2) صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ سے فرمایا تھا من دخل دار ابى سفيان فهو آمن (3) مشہور تابعی حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی جانت سے دار ابی سفیان کو یہ شرف اس لئے عطا کیا گیا تھا کہ مکہ کے زمانہ قیام میں آپ نے بھی اس گھر میں مشرکین مکہ کی ایذار رسانیوں سے بچنے کے لئے پناہ لی تھی۔ (1) اس حدیث کی شرح میں امام نووی نے تحریر فرمایا ہے فيه تاليف لابى سفيان واظهار لشرفه یعنی آپ کے اس اعلان میں حضرت ابو سفیانؓ کی تالیف قلب کے علاوہ ان کی فضیلت کا بھی اظہار ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت ابو سفیانؓ نے ایمان لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول جس طرح زمانہ کفر میں، میں نے کفار کے لشکروں کی قیادت کی ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اسلامی لشکر کی بھی قیادت کروں (رسول اللہ ﷺ چونکہ ان کی قائدانہ صلاحیت سے واقف تھے اس لئے) آپ نے ان کی یہ درخواست قبول فرما لی۔ (2) ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ آپ کی ہی صاحبزادی ہیں، ان کے تذکرہ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ جب ابو سفیان کو اس کا علم ہوا کہ ان کی بیٹی ام حبیبہ سے (جو اس وقت حبشہ میں تھیں) رسول اللہ ﷺ نے نکاح فرما لیا ہے تو انہوں نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بڑے بلند تعریفی کلمات کہے۔ ان کے صاحبزادی حضرت یزید بن ابی سفیانؓ اور حضرت معاویہؓ بھی ایمان لانے کے بعد اسلام کے بہترین خادم اور مسلمانوں کے قائد بنے۔ حضرت یزید بن ابی سفیانؓ بھی فتح مکہ کے دن ایمان لائے تھے۔ ایمان لانے کے بعد بہت سے معرکوں میں شرکت کی تھی، ملک شام اور اس کے اطراف کے بہت سے علاقوں کے فتح کرنے میں ان کی حربی صلاحیتوں کو کافی دخل رہا ہے۔ وفات حضرت ابو سفیانؓ کی وفات خلافت عثمانی کے زمانہ میں ہوئی ہے۔ حضرت معاویہ ؓ حضرت معاویہ ؓ کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پانچ سال پہلے ہوئی تھی، صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے ہیں، اپنے ایمان لانے کا واقعہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو عمرہ کرنے سے منع کر دیا اور آپ ﷺ کے اور مکہ والوں کے درمیان صلح نامہ لکھنے جانے کے بعد آپ مدینہ طیبہ واپس جانے لگے تو مجھے آپ ﷺ کے نبی برحق ہونے کا یقین ہو گیا تھا اور جب آئندہ سال آپ عمرہ کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں تو میں مسلمان ہو چکا تھا، لیکن والدین کے خوف سے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن اب والدین بھی مسلمان ہو گئے تو میں نے بھی اپنے اسلام کا اظہار کر دیا۔ (1) فتح مکہ کے بعد اس خاندان کے غالباً سبھی لوگ مدینہ آ گئے ہیں۔ فضائل حضرت معاویہ ؓکو اللہ تعالیٰ نے ظاہری و باطنی کمالات سے حصہ وافر عطا فرمایا تھا۔ وہ بہت ہی حسین و جمیل، طویل القامت، باوقار و بردبار، نہایت ذہین اور معاملہ فہم شخص تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے کتابت وحی اور خط و کتابت کی خدمت میں بھی ان کے سپرد کر دی تھی۔ (1) آپ نے ان کے لئے متعدد بار دعائیں فرمائیں۔ ایک بار ان کے لئے آپ ﷺ نے دعا فرمائی اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الكِتَابَ، وَالحِسَابَ، وَقِهِ العَذَابَ (2) اے اللہ معاویہ کو کتابت اور فن حساب سکھا دیجئے اور ان کو آخرت کے عذاب سے بچائیے۔ اسی روایت کی بعض سندوں کے ساتھ اس کے متن میں ومکن لہ فی البلاد کا اضافہ بھی ذکر کیا گیا ہے، جس کا ترجمہ "اور ملکوں ملکوں ان کو اقتدار نصیب فرمائیے" ہوتا ہے۔ جامع ترمذی کی ایک روایت میں ان کے لئے آپ کے دعا کے الفاظ اس طرح نقل کئے گئے ہیں اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ (3) اے اللہ معاویہ کو اپنے بندوں کے لئے ذریعہ اور خود ہدایت یافتہ بنا دیجئے اور ان سے ہدایت کا کام بھی لے لیجئے۔ آپ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی یہ مذکورہ دعائیں سب ہی قبول ہوئیں۔ وہ بہترین کاتب تھے، حتیٰ کہ آپ ﷺ نے ان کو کتابت وحی اور اپنی خط و کتابت کے لئے بھی منتخب فرمایا تھا، حساب کتاب کے ماہر تھے اللہ نے ان کو دور دراز علاقوں تک اسلامی سلطنت کے وسیع کرنے کا ذریعہ بنایا۔ وہ خود بھی ہدایت یافتہ تھے اور اللہ ہی جانتا ہے کتنے بندگان خدا ان کی وجہ سے دولت ایمان سے سرفراز ہوئے اور رہا آخرت کا معاملہ سو وہ ارحم الراحمین کے ہاتھ میں ہی ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد ہی میں اسلامی فوج کے ایک بہترین سپاہی تھے، پھر خلفاء ثلثہ کے عہد میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کرتے رہے، ان کو حضرت عمرؓ نے ملک شام کا گورنر بنایا تھا۔ اور حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں بھی وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ (4) حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ان کے اور حضرت علیؓ کے مابین اختلاف اور جنگ و جدال رہا لیکن جب حضرت حسینؓ خلافت سے ان کے حق میں دست بردار ہو گئے تو وہ خلیفہ المسلمین ہو گئے اور ایک طویل مدت تک باتفاق عام صحابہ و تابعین وہ امیر المومنین رہے ہیں۔ اس زمانہ میں انہوں نے اسلام کے خلاف سازشوں اورشور شوں کو یکسر ختم کر دیا تھا اور مملکت اسلامی میں ہر طرف سکون ہی سکون نظر آتا تھا اس لئے اسلامی فوجوں کو غیر اسلامی علاقوں تک دین کی دعوت پہنچانے اور ان کو مفتوح کرنے کا خوب موقع ملا۔ اس کی تفصیل البدایہ والنہایہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ غیر مسلموں کے ساتھ جنگ میں بھی اسلامی اصولوں اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کی بہت پابندی کرتے تھے۔ صرف اس کی ایک مثال ہی سے اس سلسلہ میں بھی ان کے متبع سنت ہونے کا اندازہ ہو جائے گا۔ حضرت سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں حضرت معاویہؓ نے اور اہل روم کے درمیان ناجنگ معاہدہ تھا۔ جب اس کی مدت ختم ہونے کے قریب ہوئی تو حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کو روم کی سرحد کے قریب بھیجنا شروع کر دیا تا کہ جیسے ہی مدت ختم ہو ملک روم پر حملہ کر دیا جائے۔ بظاہر تو یہ حملہ چونکہ ناجنگ معاہدہ کی مدت ختم ہونے کے بعد ہوتا اس لئے کوئی عہد شکنی کی بات نہ تھی لیکن ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہؓ گھوڑا دوڑاتے ہوئے آئے اور فرمانے لگے الله اكبر وفاء لا غدر یعنی اللہ اکبر ہم لوگوں کے لئے عہد کو پورا کرنا لازمی ہے، بدعہدی جائز نہیں ہے۔ حضرت معاویہؓ نے ان کی اس بات کا مطلب دریافت کیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنائی کہ جس شخص کا کسی قوم سے کوئی عہد وہ پیمان ہو تو اس شخص کو اس عہد و پیمان میں کوئی تبدیلی اور تغیر نہ کرنا چاہئے حتیٰ کہ اس عہد کی مدت پوری ہو جائے، یا اس کو اس حال میں ختم کیا جائے کہ فریقین بالکل مساوی حیثیت میں ہوں۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ کا مطلب یہ تھا کہ رومیوں کی غفلت میں فوجوں کو وہاں لے جا کر جمع کرنا تا کہ مدت ختم ہوتے ہی حملہ کر دیا جائے یہ بھی بد عہدی ہی ہے۔ حضرت معاویہؓ نے فوج کو فوراً واپسی کا حکم دے دیا۔ (1) ان کے تقویٰ اور خوف خدا کا ایک واقعہ اور پڑھ لیجئے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ریا کار شہید، ریاکار عالم، ریاکار مال خرچ کرنے والا، یہ تینوں شخص سب سے پہلے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ یہ حدیث جب حضرت ابو ہریرہؓ کے کسی شاگرد نے حضرت معاویہؓ کو سنائی تو حضرت معاویہؓ کا روتے روتے یہ حال ہو گیا کہ وہاں پر موجود لوگوں کو یہ خطرہ ہونے لگا کہ کہیں ان کی موت واقع نہ ہو جائے۔ (2) اتباع سنت کا بہت خیال رکھتے تھے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ عورتوں کو اپنے بالوں میں دوسرے بال شامل نہ کرنے چاہئیں، حضرت معاویہؓ کے علم میں یہ بات آئی کہ مدینہ کی بعض عورتیں ایسا کرنے لگی ہیں تو ایک دن خطبہ میں فرمایا کہ علماء مدینہ کہاں چلے گئے ہیں۔ عورتوں کو ایسا کرنے سے کیوں نہیں منع کرتے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (3) وفات صحیح قول کے مطابق حضرت معاویہؓ کی وفات رجب ۶۰؁ھ میں ہوئی ہے ؓ وارضاہ۔ بفضلہٖ تعالیٰ ....... "معارف الحدیث" کا مبارک سلسلہ اس جلد پر تمام ہوا۔
Top