معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 148
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ : {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ} قَالَتْ عَائِشَةُ : أَهُمُ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ؟ قَالَ : لاَ يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ ، وَلَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ ، وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لاَ تُقْبَلَ مِنْهُمْ {أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ . (رواه الترمذى وابن ماجه)
نیکی اور عبادت کر کے ڈرنے والے بندے
حضرت عاوشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے قرآن مجید کی آیت " وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ " کے بارے میں دریافت کیا، کہ: کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں، اور دوری کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے میرے صدیق کی بیٹی! نہیں، بلکہ وہ اللہ کے وہ خدا ترس بندے ہیں، جو روزے رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں، اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں، اور اس کے باوجود وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن کی یہ عباتیں قبول نہ کی جائیں، یہی لوگ بھلائیوں کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں۔ (ترمذی وابن ماجہ)

تشریح
سورہ مومنون کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں کے کچھ اوصاف بیان فرمائے ہیں، جو بھلائی اور خوش انجامی کی طرف تیزی سے جانے والے اور سبقت کرنے والے ہیں، اس سلسلہ میں اُن کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ " وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ " (جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ " وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ کہ دیتے ہیں، اور اُن کے دل ترساں رہتے ہیں ")۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اسی آیت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا، کہ: کیا اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو شامتِ نفس سے گناہ تو کرتے ہیں، مگر گناہوں کے بارے میں نڈر اور بے باک نہیں ہوتے بلکہ گناہگاری کے باوجود ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ نہیں! اس آیت سے مُراد ایسے لوگ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے وہ عبادت گزار اور اطاعت شعار بندے مراد ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ وہ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات جیسے اعمالِ صالحہ کرتے ہیں، اور اس کے باوجود ان کے دلوں میں اس کا خوف اور اندیشہ رہتا ہے کہ معلوم نہیں ہمارے یہ اعمال بارگاہِ خداوندی میں قبول بھی ہوں گے، یا نہیں۔ قرآن مجید میں ان بندوں کا یہ وصف بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے " أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ " (یہی بندے حقیقی بھلائیوں اور خوش حاملیوں کی طرف تیز گام ہیں، اور حقیقی کامیابی کی اس راہ میں آگے نکل جانے والے ہیں)۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو جواب دیتے ہوئے اس سلسلہ کی اس آخری آیت کی طرف بھی اشارہ فرمایا، اور بتلایا کہ دلوں کا یہی خوف اور فکر بھلائی اور خوش انجامی سے ہمکنار کرانے والا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی شانِ بے نیازی اور اس کا قہر و جلال اس قدر ڈرنے کے لائق ہے، کہ بندہ بڑی سے بڑی نیکی اور عبادت کرنے کے باوجود ہرگز مطمئن نہ ہو، اور برابر ڈرتا رہے، کہ کہیں میرا یہ عمل کسی کھوٹ کی وجہ سے میرے مُنہ پر نہ مار دیا جائے، کسی کے دل میں جس قدر خوف ہو گا، اُسی قدر و خیر و فلاح کی راہ میں آگے بڑھتا رہے گا۔
Top