معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 150
عَنْ عَائِشَةَ اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَاعَائِشَةُ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ فَإِنَّ لها من الله طالبا . (رواه ابن ماجه والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
قیامت کے دن معمولی سمجھے جانے والے گناہوں کی بھی باز پرس ہوگی
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! انے کو اُن گناہوں سے بچانے کی خاص طور سے کوشش اور فکر کرو، جن کو حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونے والی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، مسند دارمی، شعب الايمان للبیہقی)

تشریح
جن لوگوں کو آخرت اور حساب کتاب کی کچھ فکر ہوتی ہے، اور جو اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں، وہ کبیرہ یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کا تو عام طور سے اہتمام کرتے ہیں، لیکن جو گناہ ہلکے اور صغیرہ سمجھے جاتے ہیں، ان کو خفیف اور معمولی سمجھنے کی وجہ سے اللہ کے بہت سے خدا ترس بندے بھی ان سے بچنے کی فکر زیادہ نہیں کرتے، حالانکہ اس حیثیت سے کہ وہ گناہ ہیں، اور ان کے کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونی ہے، ہمیں ان سے بچنے کی بھی پوری پوری فکر اور کوشش کرنی چاہئے، اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہی نصیحت فرمائی ہے اگرچہ اس کی خاص مخاطب حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں لیکن درحقیقت یہ انتباہ اور یہ ہدایت و نصیحت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنی امت کے سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے، جب آنحضرت ﷺ کے خاص گھر والوں کو بھی اس فکر اور احتیاط کی ضرورت ہے، تو ہما شما کے لئے اس میں غفلت اور بے پروائی کی کیا گنجائش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ کے مقابلہ میں صغیرہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہونے کی حیثیت سے اور اس حیثیت سے کہ آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ہرگز صغیرہ اور ہلکا نہیں ہے، دونوں میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زیادہ زہریلے اور کم زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے، پس جس طرح کم زہر والے سانپ سے بھی ہم بچتے ہیں اور بھاگتے ہیں، اسی طرح ہمیں صغیرہ گناہوں سے بھی اپنے کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے، یہی اس حدیث کا منشا اور مقصد ہے۔
Top